دہلی پولیس نے بدھ کو جامعہ کے دس طلبا کو نوٹس دے کر ان سے 15 دسمبر کو کیمپس میں ہوئے تشدد کے معاملے میں پوچھ تاچھ کے لیے پیش ہونے کو کہا تھا۔ ایک سینئر افسر نے بتایا کہ پوچھ تاچھ کے لیے ان طلبا کو بلایا جا رہا ہے جو تشدد کے دوران زخمی ہوئے تھے۔
نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کچھ طلبا نے جمعرات کو دہلی پولیس کی کرائم برانچ کے سامنے اپنا بیان درج کرایا، جو 15 دسمبر کو یونیورسٹی کیمپس میں ایک مبینہ پولیس کارروائی کے دوران زخمی ہو گئے تھے۔ ذرائع نے یہ جانکاری دی۔دہلی پولیس نے بدھ کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے 10 طلبا کو نوٹس دے کر ان سے 15 دسمبر کے تشدد کے معاملے میں پوچھ تاچھ کے لیے پیش ہونے کو کہا تھا۔
ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ دہلی پولیس کی کرائم برانچ کی ایک ٹیم بدھ کو یونیورسٹی کیمپس پہنچی تھی اور طلبا کو نوٹس دیے۔جن طلبا کو پوچھ تاچھ کے لیے بلایا گیا، ان میں کچھ ایسے بھی طلبا ہیں، جن کو واردات کی رات حراست میں لیا گیا تھا۔ اس میں سے کچھ کی پہچان حال میں سامنے آئے سی سی ٹی وی کے ویڈیو کلپس کے ذریعے کی گئی ہے اور کچھ ایسے طلبا ہیں، جو واقعہ کے دن زخمی ہو گئے تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ کچھ اور طلبا کو اپنے بیان درج کرانے کے لیے بلائے جانے کے امکانات ہے۔امر اجالا کے مطابق، تشدد میں طلبا کے کردار کی بھی جانچ کی جا رہی ہے۔ پوچھ تاچھ کے لیے جمعہ کو بھی کچھ طلبا کو بلایا گیا ہے۔ طلبا سے یہ پوچھا جا رہا ہے کہ ان کو چوٹ کیسے لگی۔
کرائم برانچ کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ پوچھ تاچھ کے لیے ان اسٹوڈنٹس کو بلایا جا رہا ہے جو تشدد کے دوران زخمی ہوئے تھے۔ پولیس افسروں کے مطابق،ایسے زخمی طلبا کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔
جمعرات کو پوچھ تاچھ کے لیے نو طلبا کو بلایا گیا تھا۔ ان میں سے پانچ ہی پوچھ تاچھ میں شامل ہوئے۔ ان طلبا سے تقریباً دو گھنٹے پوچھ تاچھ کی گئی۔ ایس آئی ٹی نے طلبا سے پوچھا کہ تشدد کے دوران وہ کہاں تھے اور چوٹ کیسے لگی۔ لائبریری میں کون–کون تھے۔ لائبریری میں کس نے توڑ پھوڑ کی تھی۔
پولیس نے ان طلبا کے موبائل نمبر بھی لیے ہیں تاکہ واقعہ والے دن ان کی لوکیشن کی جانچ کی جا سکے۔ کرائم برانچ کے حکام کے مطابق جمعہ کو بھی کئی طلبا کو پوچھ تاچھ کے لیے بلایا گیا ہے۔پولیس نے جامعہ کے دو طالبعلموں سے بدھ کو بھی پوچھ تاچھ کی تھی۔ کرائم برانچ جامعہ ملیہ کی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ویڈیو کی بھی جانچ کر رہی ہے۔ پولیس ویڈیو کی صداقت کی جانچ کے لیے جلد ہی فورینسک لیب بھیجے گی۔
دینک جاگرن کے مطابق ،پولیس کو شک ہے کہ ویڈیو میں مقامی نوجوانوں کے ساتھ موجودہ اور سابق طلبا بھی شامل ہیں، جنہوں نے ڈی ٹی سی بسوں میں آگ لگائی تھی اور متھرا روڈ پر نجی کاروں پر پتھراؤ کیا تھا۔ ان کے مطابق وہ واقعہ سے پہلے شام کو طلبا کے ساتھ گھل مل گئے تھے اور بھیڑ میں گھس گئے تھے۔ ان سبھی کی پہچان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جامعہ کے حکام نے ہی جامعہ کو آرڈی نیشن کمیٹی(جے سی سی)کے ذریعے ویڈیو لیک کرایا ہے۔ ویڈیو کو جانچ متاثر کرنے کے لیے اپ لوڈ کیا گیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ویڈیو کیس کے اہم ثبوت کا حصہ ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ ان سکیورٹی اہلکاروں کی بھی پہچان کی جا رہی ہے جو طلبا و دوسرے کو بینت سے مارتے ہوئے دکھ رہے ہیں۔ لیکن جانچ سے پہلے خفیہ ویڈیو لیک کر دینے سے جانچ متاثر ہو سکتی ہے۔
واضح ہو کہ 13 دسمبر کو سی اے اےکے خلاف جامعہ کے طلبا کے احتجاج کے بعد 15 دسمبر کو جامعہ کیمپس میں تشدد ہوا تھا، جہاں پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا، ساتھ ہی لائبریری میں آنسو گیس پھینکی گئی تھی۔پولیس کے ذریعے لائبریری میں گھسنے اور لاٹھی چارج کرنے کی بات سے انکار کیا گیا تھا، حالانکہ 16 فروری کو سامنے آئے ایک ویڈیو میں پولیس لائبریری کے اندر نظر آئی تھی۔
گزشتہ کچھ دنوں میں جامعہ کے سی سی ٹی وی میں کیپچر ہوئے کئی ویڈیو کلپس وائرل ہوئے ہیں، جس میں پولیس کو طلبا پر لاٹھی چارج کرتے کیمپس کی ملکیت کوبرباد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہلکار یونیورسٹی کی لائبریری میں سی سی ٹی وی کیمروں کو لاٹھیوں سے توڑ رہے ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)