جامعہ نگر علاقے میں دسمبر 2019 میں ہوئے تشدد کے سلسلے میں درج ایک معاملے میں شرجیل امام، صفورہ زرگر اور آصف اقبال تنہا سمیت11 افراد کو الزام سے بری کرتے ہوئے دہلی کی عدالت نے کہا کہ چونکہ پولیس حقیقی مجرموں کو پکڑنے میں ناکام رہی، اس لیے اس نے ان ملزمین کو قربانی کا بکرا بنا دیا۔
نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے سنیچر کوجامعہ نگر تشدد کیس میں طلبہ کارکنوں شرجیل امام، صفورہ زرگر اور آصف اقبال تنہا سمیت 11 لوگوں کو یہ کہتے ہوئے الزام سے بری کر دیا کہ پولیس حقیقی مجرموں کو پکڑنے میں ناکام رہی، اس لیے اس نے ان ملزمین کو قربانی کا بکرا بنا دیا۔
تاہم عدالت نے ایک ملزم محمد الیاس کے خلاف الزامات طے کرنے کا فیصلہ سنایا۔
ایڈیشنل سیشن جج ارول ورما نے کہا، چارج شیٹ اور تین ضمنی چارج شیٹ کے جائزہ سے سامنے آنے والے حقائق پر غور کرتے ہوئے یہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پولیس حقیقی مجرموں کو پکڑنے میں ناکام رہی،اور یقینی طور پران ملزمین کو قربانی کا بکرا بنانے میں کامیاب رہی۔
بتادیں کہ جامعہ نگر علاقے میں دسمبر 2019 میں شہریت (ترمیمی) ایکٹ (سی اے اے) کےخلاف احتجاج کرنے والے لوگوں اور پولیس کے درمیان جھڑپ کے بعدہوئےتشدد کے سلسلے میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
جج نے کہا کہ یہ مانا جا سکتا ہے کہ مظاہرین بڑی تعداد میں تھے اور ہجوم کے اندر موجود کچھ شرپسندعناصر افراتفری اور تباہی کا ماحول بنا سکتےتھے ۔انہوں نے کہا،تاہم، یہ سوال ہے کہ کیا ان ملزمین کے ملوث ہونے کے کوئی ثبوت ہیں؟ اس کاجواب واضح نہیں ہے۔
عدالت نے کہا کہ 11 ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی ‘لاپرواہی اور غیرمہذب انداز میں’ شروع کی گئی اور ‘انہیں طویل عرصے سے جاری عدالتی کارروائی کی سختی سے گزرنے کی اجازت دینا ملک کے فوجداری نظام انصاف کے لیے اچھا نہیں ہے۔’
انڈین ایکسپریس کے مطابق، جج نے یہ بھی ذکرکیا کہ استغاثہ نے ‘غلط طریقے سے چارج شیٹ’ دائر کی، جس میں پولیس نےاپنی مرضی کے مطابق’مظاہرین میں سے کچھ لوگوں کو ملزم کے طور پراور دیگر کو پولیس گواہ کے طور پر منتخب کر لیا’۔ عدالت نے کہا کہ ‘اس طرح سے منتخب کرنا’ انصاف کے اصول کے لیےمنافی ہے۔
جسٹس ورما نے کہا کہ، اختلاف رائے اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق کی توسیع ہے۔ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اختلاف رائے اور کچھ نہیں بلکہ معقول پابندیوں کے ساتھ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 19 میں درج بولنے اور اظہار رائے کی آزادی کےبیش قیمتی بنیادی حق کی توسیع ہے۔اس لیے یہ ایک حق ہے جس کو برقرار رکھنے کا ہم نے حلف اٹھایا ہے۔
عدالت نے یہ بھی کہا، اس کے علاوہ اس طرح کی پولیس کارروائی ان شہریوں کی آزادی کے لیےنقصاندہ ہے جو پرامن طریقے سے جمع ہونے اور احتجاج کرنے کے اپنے بنیادی حق کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔احتجاج کرنے والے شہریوں کی آزادی کو اس طرح ختم نہیں کیا جانا چاہیے۔
لائیو لاء کے مطابق، جسٹس ورما نے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ،جنہوں نے اختلاف رائے کو جمہوریت کا سیفٹی والو بتایا تھاکا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘سوال اور اختلاف رائے کی جگہ کو ختم کرنا تمام سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور سماجی’ ترقی کی بنیاد کو تباہ کر دیتا ہے۔ ان معنوں میں ،اختلاف رائے جمہوریت کا ایک سیفٹی والو ہے۔
سپریم کورٹ کے 2012 کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے جج نے کہا کہ یہ عدالت اُس تشریح کی پابند ہے جس میں ملزمان کے حقوق کے تحفظ کی بات کی گئی ہے۔
عدالت نے کہا کہ جانچ ایجنسیوں کو اختلاف اور بغاوت کے درمیان کے فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اختلاف رائے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، اس کو دبانا نہیں چاہیے۔
اس نے کہا کہ، بے شک اختلاف رائے کی آوازہر طرح سے پرامن ہونی چاہیے،اس میں تشدد کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے استغاثہ کی سرزنش کرتے ہوئے کیس میں داخل متعدد چارج شیٹ پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا، موجودہ معاملے میں غیرمعمولی بات یہ ہے کہ پولیس نے ایک چارج شیٹ اور ایک نہیں بلکہ تین ضمنی چارج شیٹ دائر کی، جس میں درحقیقت کچھ بھی پیش نہیں کیا گیا۔ چارج شیٹ کی یہ فائلنگ بند ہونی چاہیے، یہ بازی گری مقدمےکے علاوہ بہت کچھ ظاہر کرتی ہے اور اس کا اثر ملزمین کے حقوق پر پڑے گا۔
جج نے کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ملزمین تشدد میں ملوث ہجوم کا حصہ تھے ، نہ ہی وہ کوئی ہتھیار دکھا رہے تھے اور نہ ہی پتھر پھینک رہے تھے۔ انہوں نے پولیس سے کہا، قیاس آرائیوں کی بنیاد پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا اور چارج شیٹ تو یقیناًامکانات کی بنیاد پر داخل نہیں کی جا سکتی۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ ملزمین کو ‘قربانی کا بکرا’ بنانے اور ان کے خلاف الزامات ثابت کرنے کے لیے وسائل اکٹھا کرنے کے بجائےپولیس کو قابل اعتماد خفیہ جانکاری جمع کرنی چاہیے تھی اور تفتیش کے لیے ٹکنالوجی کا استعمال کرنا چاہیے تھا۔ ورنہ ، ایسے لوگوں کے خلاف جھوٹی چارج شیٹ دائر کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے تھا، جن کا کردار ایک احتجاج کا حصہ بننے تک ہی محدود تھا۔
عدالت نے کہا، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ حکومت کا مقدمہ ثبوتوں سے عاری ہے، اس لیے محمد الیاس کے علاوہ تمام ملزمان کو ان تمام جرائم سے بری کیا جاتا ہے جن کے لیے انہیں اس کیس میں ملزم بنایا گیا تھا۔
عدالت نےکہا کہ الیاس کی کچھ تصویروں میں اسے ایک جلتا ہوا ٹائر پھینکتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور پولیس گواہوں نے اس کی قانونی طریقے سے شناخت کی تھی۔ جج نے کہا، اس لیے (ملزم محمد الیاس کے خلاف) الزامات طے کیے جائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ،یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ حقیقی مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے جانچ ایجنسی کو غیر جانبدارانہ انداز میں آگے کی تفتیش کرنے سے روکا نہیں گیاہے۔
عدالت نے کہا کہ ان ملزمان کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ کوئی چشم دید گواہ بھی نہیں ہے، جو پولیس کے دعوے کی تصدیق کر سکے کہ ملزمان اس جرم میں ملوث تھے۔اس نے یہ بھی کہا کہ جس علاقے میں احتجاج ہوا وہاں کوئی امتناعی احکامات نہیں تھے۔
عدالت نے الیاس کے خلاف الزام طے کرنے کے لیے 10 اپریل کی تاریخ مقرر کی ہے۔
تاہم، شرجیل امام ابھی جیل میں ہی رہیں گے کیونکہ وہ 2020 کے شمال–مشرقی دہلی میں ہوئے دنگوں کی سازش کے معاملے میں بھی ملزم ہیں۔ پولیس نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے بعد ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔
یو اے پی اے کے تحت اس معاملے کے ملزمین میں صفورہ زرگر اور آصف اقبال تنہا کے نام بھی شامل ہیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)