نیا ہندوستان پُرانا مسلمان: ادبی مجلہ ’اثبات‘ کا دستاویزی شمارہ

تاریخ، ادب اور صحافت کے بامعنی امتزاج کو پیش کرتی یہ تحریریں آج کے ہندوستان اور مسلمان سے مکالمہ قائم کرتی ہیں اور اس سیاست کو سمجھنے میں بھی مدد کرتی ہیں جہاں ⸺کرسی⸺ کی بنیاد ہی نفرت اور تشدد پر ٹکی ہوئی ہے۔ جس کا واحد مقصد مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو عام کرنا، اس رویے کو نارملائز کرنا اور اپنا الو سیدھا کرنا ہے۔

تاریخ، ادب اور صحافت کے بامعنی امتزاج کو پیش کرتی یہ تحریریں آج کے ہندوستان اور مسلمان سے مکالمہ قائم کرتی ہیں اور اس سیاست کو سمجھنے میں بھی مدد کرتی ہیں جہاں ⸺کرسی⸺ کی بنیاد ہی نفرت اور تشدد پر ٹکی ہوئی ہے۔ جس کا واحد مقصد مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو عام کرنا، اس رویے کو نارملائز کرنا اور اپنا الو سیدھا کرنا ہے۔

تصویر بہ شکریہ: فیس بک

تصویر بہ شکریہ: فیس بک

’نیا ہندوستان پرانا مسلمان:ہندوستانی مسلمانوں کے گزشتہ 75 سال‘،سہ ماہی ’اثبات‘ کا دو جلدوں پرمشتمل خصوصی اورصحیح معنوں میں دستاویزی شمارہ ہے۔ یوں تواشعر نجمی کا رسالہ ’اثبات‘ اپنے موضوعات ،اسلوب وانداز اور پیشکش کی وجہ سے ادبی دنیا میں پہلے ہی منفرد شناخت رکھتا ہے، لیکن حال کے بعض شماروں خصوصی طو رپر’مزاحمت نمبر‘ نے مزاحمت کے نئے نئے معنی وضع کرکے ادب اور اس کی شعریات کو مرتب کرنے کی غیر معمولی سعی کی ہے۔

ایسے میں ہمارے زمانے میں ہندوپاک کے کسی خلاق ذہن مدیرکا نام لینا ہوتو میں سب سے پہلےاشعر نجمی کا نام لوں گی، آپ چاہیں تو یہاں ان کے رسالہ کےسرقہ نمبر یا عریاں اور فحش نگاری نمبر وغیرہ کو بھی یاد کرسکتے ہیں اور ان کے ادارتی کمالات کی داد دے سکتے ہیں۔

بہرحال، تقریباً 1600 صفحات پر مشتمل پیش نظر شمارے (نیا ہندوستان اور پرانا مسلمان) کو موضوع کی مناسبت سے دیکھا جائے تو شاید یہ نیا نہ لگے کہ آپ اور ہم اسی وجودی بحران کا شکار ہیں جس کا بیانیہ اس کتاب میں پھیلا ہوا ہے۔

ہندوستان کا مسلمان آج اپنے ان بنیادی حقوق کے لیے بھی جدوجہد کر رہا ہے جو اسے آئین سے حاصل ہیں۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نئے ہندوستان میں ’ہندو-مسلم کر کے‘ ستّا میں آئی حکومت کے لیے دستور ہند کا کوئی مطلب نہیں ہے؟ اور وہ اس کی جگہ کسی اور کتاب کی پیروی کرتے ہوئے ہندوستان کو ’ہندو راشٹر‘بنانا چاہتے ہیں؟

ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ  یہ ’نیا ہندوستان ‘کیا ہے؟ اور اس نئے ہندوستان میں مسلمانوں کی شناخت کیا ہے؟ کیا ہمارا نام ہماری شناخت کے لیے کافی ہے؟ ہماری فکر، نقطہ نظر، خیال کیا صرف اس’ نام‘ سے جڑا ہوتا ہے؟ یا سمجھ لیا جاتا ہے۔ آپ نے نام بتایا اور اگلے نے سمجھ لیا کہ آپ کون ہیں، کیا ہیں، آپ کے خیالات کیا ہیں۔

اس ’نئے ہندوستان‘ میں مسلمانوں کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ کئی دفعہ سفر کے دوران ٹی ٹی ای کو نام بتاتے ہوئے شاید آپ نے بھی گھورتی نظروں کو محسوس کیا ہوگا۔ جیسے آپ کا نام ہی آپ کے مجرم ہونے کی دلیل ہو۔ شاید یہی وہ ’نیا ہندوستان‘ہے جہاں⸺ پرانا مسلمان⸺ زندہ درگور ہے۔

ماب لنچنگ ہو یا گئو کشی کے شک میں پیٹ پیٹ کر مار ڈالنے کا واقعہ ہو، بغیر ٹرائل اوربغیر جرم ثابت ہوئے سالوں جیل میں قید رکھنا ہو یا ان کے گھروں پر بلڈوزر چلانا ہو، کسی کا انکاؤنٹر کرنا ہو یا کسی غریب ٹھیلے والے کی سبزیاں اور پھل برباد کر کے اس کی روزی روٹی پر حملہ کرنا ہو، گو کہ اس نئے ہندوستان میں مسلمان ہونا ہی جرم ہے۔

ہمارےدرمیان سے ثقافتی ہم آہنگی ،رواداری ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہندو-مسلم کرکے ہی اب الیکشن لڑے جا رہے ہیں اور جیتےبھی جا رہے ہیں۔ حالانکہ اسی نئے ہندوستان میں⸺ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں⸺ جن کے لیے ایک خاص کمیونٹی کو ٹارگیٹ کرنا اب تک نارملائز نہیں ہوا ہے۔

لیکن سوال یہ بھی ہے کہ جب شر پسند عناص کو حکومت کی حمایت حاصل ہو جائے توکیا اعداد وشمار کوئی معنی رکھتے ہیں؟ ہمارا سماج بدل رہا ہے۔ اس نئے سماج میں مسلمانوں کی حیثیت ’دوجی‘ ہے۔ اور ان کی شناخت ہی ان کا جرم ہے۔ اس کتاب کو اسی سیاسی اور المناک بیانیہ نے جنم دیا ہے۔

اس موضوع پرصحافی- صحافتی ادارے ، مضامین، گراؤنڈ رپورٹس شائع کرتے رہتے ہیں۔ اس نوع کی بیش قیمتی تحریریں اس شمارے میں بھی شامل کی گئی ہیں۔ ادبی تحریروں میں بھی ممکن ہے اس موضوع پر آپ نے کافی کچھ پڑھ رکھا ہو۔ لیکن مدیر نے ہندوستانی مسلمانوں کےجس 75 سالہ تاریخی، سیاسی، سماجی اور وجودی بیانیہ کو ہمارے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے اورتحریروں کے انتخاب میں جس بوقلمونی کا مظاہرہ کیا ہے اس میں نہ صرف جدت نمایاں ہے بلکہ یہ ان کی تحقیقی سرگرمی سے بھی عبارت ہے۔

اس نئے ہندوستان میں ہندوستانی مسلمانوں کے گزشتہ 75 سالوں کا یہ بیانیہ اشعر نجمی صاحب نے ایک جگہ سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے یہ کام مشکل ترین رہا ہوگا، اس کا اندازہ فہرست سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ جہاں ادبی تحریریں بھی ہیں، کچھ پرانی کچھ نئی اور صحافتی بھی۔ یہ امتزاج کسی رسالے کے لیے اپنے آپ میں ذرا منفرد ہے جہاں منٹو،عصمت کے ساتھ رویش کمار اور سدھارتھ وردراجن کو پڑھا جا سکتا ہے۔

اشعر نجمی، تصویر بہ شکریہ: فیس بک

اشعر نجمی، تصویر بہ شکریہ: فیس بک

مدیر نے ہمارے سامنے اس مسئلہ کو ایک صحافی اور بیدار ذہن آرٹسٹ کی نظر سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہر باب کی شروعات میں نظم اورآخر میں  فکشن کا باب  اسی کوشش کی ایک کڑی کہا جا سکتا ہے۔ کئی تاریخ دانوں کی تحریریں بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سکے کے دونوں پہلو کو پیش کرنے کی کوشش بھی کتاب میں نظر آتی ہے۔یعنی اختلاف رائے کو بھی جگہ دی گئی ہے۔

مدیر نےموضوع اورتھیم سے متعلق منفردتحریروں/تراجم/ مضامین/ رپورٹس /افسانے/نظم کو اس دستاویزی شمارے میں شامل کیا ہے۔ ان میں زماں و مکاں کی قید نہیں ہے بلکہ اس کتاب میں کئی زمانے ملتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ تحریریں مختلف زمانوں میں لکھی گئی ہیں جن کی تفصیل تحریر کے آخر میں دی گئی ہے۔ مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تحریروں پر مشتمل یہ 75 سالہ بیانیہ ہمیں اپنا محاسبہ کرنے اور وجود ی تشخص سے جڑے سوالوں کا سامنا کرنے کی دعوت بھی دیتا ہے۔

تاریخ، ادب اور صحافت کے بامعنی امتزاج کو پیش کرتی یہ تحریریں آج کے ہندوستان اور مسلمان سے مکالمہ قائم کرتی ہیں اور اس سیاست کو سمجھنے میں بھی مدد کرتی ہیں جہاں ⸺کرسی⸺ کی بنیاد ہی نفرت اور تشدد پر ٹکی ہوئی ہے۔ جس کا واحد مقصد مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو عام کرنا، اس رویے کو نارملائز کرنا اور اپنا الو سیدھا کرنا ہے۔

تیرہ ابواب پر مشتمل یہ شمارہ کم و بیش عصر حاضر کے ان تمام مسائل کا احاطہ کرتا ہے جن سےہندوستانی مسلمان دوچارہیں۔ چاہے وہ شہریت قانون ہو، آبادی میں اضافہ کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرائے جانے کا پروپیگنڈہ ہو،ان کی بدترتعلیمی صورتحال ہو، دلت-پسماندہ مسلمانوں کے ریزرویشن کا سوال ہو، مدرسوں کو نشانہ بنایا جانا ہو،مسلمانوں کے روزگارکو نشانہ بنایا جانا ہو،وقف بورڈ سے متعلق بل ہو،مسلم پرسنل لاء بورڈ کے حقوق محدود کرنا ہو، طلاق ثلاثہ قانون ہو یا مسلمانوں کے خلاف بڑھتا تشدد ،یہ تمام ڈسکورس اس ضخیم شمارے  کا حصہ ہیں۔

تاریخی پس منظر کے ساتھ یہ کتاب عصر حاضر کے مسلمانوں کے مسائل سے بخوبی معاملہ کرتی ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ماضی اور حال کے آئینے میں ہندوستان میں مسلمان کی تصویر یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔ان باریکیوں کو بھی سمجھا جا سکتا ہے جو کئی دفعہ تاریخی بیانیہ سے غائب کر دی جاتی ہیں۔ پھر یہ تو گودی میڈیا کا دور ہے۔ اس دور میں اس طرح کے دستاویز کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔

تصویر بہ شکریہ: فیس بک

تصویر بہ شکریہ: فیس بک

سیاسی حکمت عملی نے مسلمانوں کو صرف ’دوجا ‘ہی نہیں بنایا بلکہ ان کی حب الوطنی پر بھی سوالیہ نشان لگا یا ہے۔آپ مسلمان ہیں تو ملک سے محبت کیا ہی کریں گے۔ ’راشٹرواد‘ کی تعریف میں مسلمانوں کا شمار ہی کہاں ہے؟شاید یہ نفرت نئی نہ ہو پر شدت ،اس کے کھلے اظہار اور تشددکو نارملائز کر دینے کو ضرور نیا کہا جا سکتا ہے۔

کسی ایک مذہب کو خطرے میں بتا کر دوسرے مذہب کے لوگوں کی نسل کشی اور اس پر ملک کی عوام کا زیرو ردعمل بھی شاید نیا ہے۔یہاں تک کہ اب بچے بھی اس مذہبی نفرت سے اچھوتے نہیں رہے۔ ان کے درمیان بھی ہندو-مسلم کی تفریق اپنی جگہ بنا چکی ہے۔

ایک طرف سب سے بڑی جمہوریت کہا جانے والا یہ ملک اپنے ہی وزیراعظم کی دروغ گوئی کے بوجھ تلے دبا جا رہا ہے۔ وہیں دوسری طرف غریبی، بے روزگاری انتہا پر ہونے، بنیادی سہولتوں کے فقدان کے باوجود آئے دن فرقہ وارانہ فسادات معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔’حکومت‘ کرنے کی تمام نوآبادیاتی حکمت عملی ہمارے سیاسی رہنما آج بھی آزما رہے ہیں اور حیرت ہے کہ ان کا یہ تجربہ اب تک  کامیاب بھی رہا ہے۔

مثال کے طور پر زبان کے مذہبی تشخص کو ہی لیں لے۔اردو کے مسلمان ہو جانے کا بیانیہ نوآبادیاتی دور میں ضرور پیدا ہوالیکن اسے مستحکم کرنے میں ہمارے رہنماؤں نے بخوبی اپنا کردار ادا کیا ہے۔

تعلیمی درسگاہوں میں حالات اب یہ ہیں کہ دوسرے مضامین پڑھانے والےاساتذہ کرام منچ سے اگر کسی ایسی ہستی کے بارے میں کچھ بولنا چاہتے ہیں جو مسلمان ہے تو اس کے لیے انھیں اردو کا استعمال ضروری معلوم پڑتا ہے اور وہ دو-چار اردو کے لفظ آکر پوچھتےبھی ہیں ۔

دن بہ دن یہ بتانا ،سمجھانا مشکل بلکہ مشکل ترین ہوتا جا رہاہے کہ اردو کا کسی مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں۔شاید میں ہی ایک دن تھک کر یہ سمجھانے کی کوشش چھوڑ دوں گی۔مجھے خوشی ہے کہ زبان  کی اس سیاست کو بھی مدیر نے اپنے اس خاص شمارے/کتابی سلسلہ میں جگہ دی ہے۔اس کے علاوہ  ہندوستان میں اردو صحافت کے کردار کو بھی بریکٹ کیا ہے۔کتاب میں شامل نظم ’اردو‘ سے چند اشعار:

بہت سمجھے تھے ہم ا س دور کی فرقہ پرستی کو

زباں بھی آج شیخ وبرہمن ہے ہم نہیں سمجھے

اگر اردو پہ بھی الزام ہے باہر سے آنے کا

تو پھر ہندوستاں کس کا وطن ہے ہم نہیں سمجھے

مجموعی طور پر کہوں تو اگر آپ اس ’نئے ہندوستان‘ کو سمجھنا چاہتے ہیں، اس ہندوستانی مسلمان کےدکھ -درد/مسائل سے معاملہ کرنا چاہتے ہیں،اس کے وجودی بحران کو سمجھنا چاہتے ہیں، اس سیاست کو سمجھنا چاہتے ہیں جس نے مسلمان کودوئم درجے کا شہری بنا دیا ہے تو تاریخی پس منظر کے ساتھ یہ ڈسکورس آپ کو اثبات کے اس نئے شمارے ’نیا ہندوستان پرانا مسلمان:ہندوستانی مسلمانوں کے گزشتہ 75 سال‘ میں مل جائے گا۔

 ہمیں یہ کتاب اس لیے بھی پڑھنی چاہیے کہ اپنے ماضی اور حال کی بنا پر اپنی کمیوں کو سمجھ سکیں، اپنا محاسبہ کر سکیں اور اپنے حقوق کی لڑائی جاری رکھ سکیں۔ آج مسلمان کیوں ایک آسان نشانہ بن چکا ہے، اس میں ہماری کوتاہیوں کا قصور کتنا ہے؟ تعلیم  حاصل کرنا کیوں اہم ہے۔ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے۔ مسئلہ کا حل تبھی نکالا جا سکتا ہے جب مسئلہ کا اعتراف ہو۔

اشعر نجمی صاحب کا شکریہ کہ انھوں نے اس موضوع پر جامع تحقیقی مواد فراہم کرنے کی بے مثال سعی کی ہے۔

بہرحال، میں سمجھتی ہوں کہ اثبات کا یہ شمارہ ملک کی تمام اہم لائبریریوں کے علاوہ ہر اردو پڑھنے والے کی میز پر ہونا چاہیے۔

دو جلدوں پر مشتمل یہ دستاویزی شمارہ موبائل نمبر 9372247833 اور 9910482906 پر رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔

Next Article

اتراکھنڈ میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی سیاست

عوام کی توجہ ہٹانے اور ووٹ حاصل کرنے کے لیےاتراکھنڈ کو فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے ذریعے سماجی تصادم کی ایک نئی تجربہ گاہ میں تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ ایک حساس ہمالیائی ریاست کے طور پر اس کی شناخت مٹائی جا رہی ہے۔

حال ہی میں اتراکھنڈ میں بی جے پی کی ڈبل انجن سرکارنے ان لوگوں کو مضطرب کر دیا ہے، جو ریاست میں سماجی تصادم اور نسلی تعصب میں اضافہ کے امکان سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ اتراکھنڈ میں مقامی بنام بیرونی جنون اور عوامی عدم اطمینان کے واقعات میں اضافہ کامشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی حکومت کے تین سال کا جشن منانے کے لیے کروڑوں کے بجٹ کو وزیر اعلیٰ کے چہرے کو چمکانےکی  فضول خرچی میں بہایا جا رہا ہے۔ بے روزگاری،نقل مکانی، روایتی کاشتکاری کے خاتمے، گھوٹالوں اور بدعنوانی کے چرچے عام ہیں۔

ریاست کے تین اضلاع میں مغل ناموں والے پندرہ مقامات کے نام تبدیل کر دیے گئے ۔ اس میں دہرادون کا ایک قدیم علاقہ میانوالا بھی شامل ہے۔ یہ گاؤں راجپوت میاں کی نسلوں  کا آبائی گاؤں ہے۔ آج بھی یہاں کے راجپوت اپنے ناموں میں  میاں لگاتے ہیں۔ چونکہ یہ نام مسلمانوں  سے ملتا جلتا ہے، اس لیے جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتی حکومت کو نام بدلنے پر شدید عوامی غصہ کا سامنا  کرنا پڑ رہاہے۔

مسائل کا  حل نہیں

ڈھائی دہائی قبل ریاست کے الگ ریاست بننے کے بعد بننے والی حکومتوں کی ناکامیوں کی وجہ سے یہاں سے نقل مکانی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ سابق وزیر اعلی ترویندر سنگھ نے اتراکھنڈ کے چار میدانی علاقوں میں غیر قانونی کان کنی کے ریکیٹ پر اپنی پارٹی کی حکومت اور وزیر اعلیٰ دھامی پر حملہ کرتے ہوئے ریاستی بی جے پی اور حکومت میں اندرونی کشمکش کو مزید تیز کر دیا۔ ترویندر فی الحال ہریدوار لوک سبھا سیٹ سے ایم پی ہیں۔

اسے پشکر سنگھ دھامی کو ہٹانے کی مہم سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم، سابق کابینہ وزیر اور ٹہری کے بی جے پی ایم ایل اے کشور اپادھیائے نے کہا کہ غیر قانونی کان کنی ایک لاعلاج بیماری ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ صاف ستھرے ہونے کا دعویٰ کرنے والے تمام سابق وزرائے اعلیٰ کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔

اتراکھنڈ میں امن و امان کی خراب صورتحال اور حکومت اور مجرموں کے درمیان گٹھ جوڑ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 18 ستمبر 2022 کو رشی کیش کے قریب 19 سالہ انکیتا بھنڈاری کے قتل کا الزام بی جے پی اور آر ایس ایس کے ایک طاقتور رہنما ونود آریہ کے بیٹے پلکیت پر لگایا گیا تھا ۔ انکیتا کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ وزیر اعلیٰ دھامی سی بی آئی انکوائری اس لیے  نہیں  ہونےدے رہے ہیں کیونکہ اس قتل کے پیچھے ریاستی بی جے پی کے ایک عہدیدار کا ہاتھ ہے۔

اتراکھنڈ میں بھی ہماچل کی طرز پر سخت زمینی قوانین کے لیے ایک طویل عرصے سے تحریک چل رہی ہے۔ لیکن 2018 میں نریندر مودی حکومت نے دہلی سے ریاست پر زمین کا ایسا قانون مسلط کر دیا، جس نے یہاں کے نازک پہاڑوں کو بیش قیمتی زمینوں کی خرید و فروخت کی منڈی میں تبدیل کر دیا۔

ریاستی اور مرکزی حکومت کی غلط پالیسیوں، زراعت، جنگل، زمین، سرکاری وسائل اور معاشی سرگرمیوں پر بیرونی ریاستوں سے آنے والے لوگوں نے پورے پہاڑ کو کامرشیل ہب  بنا دیا ہے۔ بی جے پی سخت زمینی قوانین اور اصل تحریک کو کچلنے کے لیےحربے اپنا رہی ہے۔ دو مقامی سیاسی کارکنوں، آشوتوش نیگی اور آشیش نیگی کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا۔

سماجی نفرت کو فروغ دینا

بی جے پی اور سنگھ پریوار سے وابستہ درجنوں تنظیمیں ریاست کے کچھ حصوں میں آباد مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے ریاستی حکومت کے وزراء اور کئی عہدیدار مقامی باشندوں اور باہر کے لوگوں کے درمیان دشمنی بڑھا رہے ہیں۔

ریاست کی تشکیل کے بعد پہلی بار ریاست کے سینئر کابینہ وزیر پریم چند اگروال کی طرف سے اسمبلی کے اندر مقامی پہاڑی باشندوں کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے کے بعد ریاست بھر میں ایک تحریک پھیل گئی اور پھر انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ لوگ ان سے اس لیے بھی ناراض ہیں کیونکہ انہوں نے انکیتا بھنڈاری قتل کیس کو چھپانے اور اس قتل میں بی جے پی کے وی آئی پی  کے مبینہ کردار کے بارے میں سچائی کو چھپانے کے بارے میں بیانات دیے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ دھامی حکومت ایک وزیر کے استعفیٰ سے بھی محفوظ نہیں ہے۔ دھامی پارٹی ہائی کمان کو وضاحت دینے کے لیے دہلی دوڑ لگاتے  رہتے ہیں۔

یو سی سی ریاست کو کیسے بدلے گا؟

اس سال کے شروع ہوتے ہی حکومت نے ریاستی اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلایا اور یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کو اکثریت کے زور پر پاس کرایا۔ یو سی سی کے بارے میں نہ تو اپوزیشن کو کچھ بتایا گیا اور نہ ہی عام لوگوں کو معلوم ہے کہ اس کے نفاذ کے بعد عوام کی تقدیر کیسے بدلنے والی ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کپل سبل کا کہنا ہے کہ اتراکھنڈ میں بی جے پی کا یہ منصوبہ ملک کے آئین میں مداخلت ہے۔ ایسا قانون بنانے کا اختیار صرف ملک کی پارلیامنٹ کو ہے۔ یہ شق ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 44 کو غیر مؤثر بنانے کی کوشش ہے۔ کسی بھی ریاستی حکومت کو ان اختیارات میں ترمیم کرنے کی اجازت دینا جو صرف ملک کی پارلیامنٹ کو حاصل ہیں غیر قانونی اور آئین کے خلاف ہے۔

قابل ذکر ہے کہ دو سال قبل ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ نے اتراکھنڈ میں یو سی سی بنانے کے حوالے سے کہا تھا کہ اس کے بعد آہستہ آہستہ ملک کی تمام ریاستیں اتراکھنڈ جیسا قانون بنائیں گی اور اس کے بعد پارلیامنٹ قانون پاس کرے گی۔ لیکن ایک ریاست کس طرح مرکزی قانون کو صرف اپنی ریاست میں نافذ کر سکتی ہے اور من مانی طور پر ایک نظیر بنا سکتی ہے؟

دراصل عوام کی توجہ ہٹانے اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے اتراکھنڈ کو فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے ذریعے سماجی تصادم کی نئی تجربہ گاہ بنایا جا رہا ہے۔ اس طرح ایک حساس ہمالیائی ریاست کے طور پر اس کی شناخت مٹائی جا رہی ہے۔

(اوما کانت لکھیڑا سینئر صحافی ہیں۔)

Next Article

روزہ یا پیسے کا جھگڑا: رمضان میں ’تبدیلی مذہب‘ کے الزام میں یوپی کی مسلم خاتون گرفتار

اتر پردیش کے جھانسی میں رمضان کے دوران ایک 40 سالہ مسلم خاتون کونابالغ ہندو لڑکی کا’مذہب تبدیل’ کروانےکے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ لیکن خاتون کا کہنا ہے کہ پڑوسی ہندو خاندان  نے ان سے لیا گیا قرض واپس کرنے سے بچنے کے لیے ‘فرضی کہانی’ بنائی ہے۔

نئی دہلی: ملک بھر میں رمضان کا مقدس مہینہ عام طور پر پرامن طور پر گزرا اور حال ہی میں عید الفطر منائی گئی۔ لیکن اتر پردیش کے جھانسی کے ایک محلے میں مبینہ طور پر روزہ رکھنے کا معاملہ ایک مجرمانہ معاملے کا موضوع بن گیا ہے۔

الزام ہے کہ پڑوس کی ایک مسلم خاتون نے مبینہ طور پر ایک نابالغ ہندو لڑکی کو اسلام قبول کرنے کے لیے بہلایا۔ اس معاملے میں 40 سالہ مسلم خاتون شہناز کو گرفتار کیا گیا ہے۔

دی وائر کی جانب سے دیکھے گئے دستاویزوں کے مطابق، اس خاتون نے بعد میں ایک مقامی عدالت میں دعویٰ کیا کہ تبدیلی مذہب  کا پورا معاملہ ایک مالی تنازعہ کی وجہ سے بنایا گیا ہے ۔

کیاہے معاملہ؟

جھانسی میں ایک ایف آئی آر 13 مارچ کو درج کی گئی،  جب ایک ہندو شخص نے الزام لگایاکہ اس کی 16 سالہ بیٹی کو اس کے پڑوس کی دو مسلم خواتین نے رمضان کے دوران روزہ رکھنے کے لیےبہلایا،  تاکہ اسے اسلام قبول کرنے کے لیے آمادہ کیا جا سکے۔

باپ نے کہا،’انہوں نے میری بیٹی کو بہلا پھسلا کریہ یقین دلایا کہ اگر وہ روزہ رکھے گی تو اس کے گھر میں برکت آئے گی۔ وہ امیر ہو جائے گی اور وہ اسے مناسب مدد فراہم کریں گے۔’

ہم اس شخص کی شناخت ظاہر نہیں کر رہے ہیں کیونکہ اس سے ان  کی نابالغ بیٹی کی پرائیویسی متاثر ہو سکتی ہے۔

لڑکی کے والد کا الزام ہے کہ ان کی بیٹی نے تین چار روزے رکھے اور نماز بھی پڑھی۔

شکایت کنندہ کے مطابق،  13 مارچ کوکلیدی ملزم شہناز زبردستی ان کے گھر میں داخل ہوئی اور ایک کمرے کو اندر سے بند کر کے پھانسی لگا کر خودکشی کرنے کی کوشش کی۔ یہ کمرہ شکایت کنندہ کے بھائی کا تھا۔ جب ہندو خاندان نے پولیس کو بلانے کے لیے 112 پر کال کی تو خاتون وہاں سے بھاگ گئی، لیکن جانے سے پہلے  ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرنے کی دھمکی دی۔ اسی دوران کچھ ہندو دائیں بازو کے کارکن بھی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے مسلم خواتین پر جبری تبدیلی مذہب کا الزام لگایا۔

اس کے بعد، شہناز اور کشناما نامی دو خواتین کے خلاف اتر پردیش کے غیر قانونی تبدیلی مذہب کی روک تھام کے قانون 2021 کی دفعہ 3 اور 5 (1) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ تحقیقات کے دوران پولیس نے بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دیگر دفعات بھی شامل کیں، جن میں جان سے مارنے کی دھمکی، املاک کو تباہ کرنے کی دھمکی اور  جان بوجھ کر توہین کرنا تاکہ امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو، شامل ہے۔

شہناز کا کیا کہنا ہے؟

شہناز نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ مقامی عدالت میں دائر اپنی ضمانت کی درخواست میں انہوں  نے کہا کہ ہندو خاندان نے انہیں پھنسانے کے لیے ‘فرضی کہانی’ بنائی ہے کیونکہ وہ ان سے لیے گئے قرض کی ادائیگی سے بچنا چاہتے تھے۔

شہناز کے مطابق، کچھ عرصہ قبل جب ہندو شخص بیمار ہوا تو اس کی اہلیہ نے شہناز سے 50 ہزار روپے ادھار لیے اور 10 دن میں واپس کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن رقم واپس نہ ہونے پر شہناز کئی بار ان  کے گھر گئی اور رقم واپس مانگی۔ انہوں  نے کہا، ‘ان  کی بیوی نے ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتی تھی۔’

شہناز نے الزام لگایا کہ 13 مارچ کو صبح 10 بجے جب وہ ان کے گھر پیسے مانگنے گئی تو پڑوس کا بھائی، جو اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ اسی گھر میں رہتا تھا، نے اسے ایک کمرے میں بند کر دیا اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی۔

‘میں نے زور سے چلایا تو پڑوسی جمع ہو گئے۔’ انہوں نے کہا۔

شہناز نے الزام لگایا کہ لڑکی کے والد نے دائیں بازو کی تنظیموں کے لوگوں کو بلایا، جنہوں نے پولیس کو بلایا اور انہیں بچانے کے لیے جھوٹی کہانی بنا دی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس نے ان کی شکایت درج کرنے سے انکار کر دیا۔

انہوں نے واضح طور پر اس بات کی تردید کی کہ انہوں  نے نابالغ لڑکی کو اسلام قبول کرنے کو کہا یا اسے روزے رکھنے اور نماز پڑھنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے یہ بھی دلیل دی کہ لڑکی کے گھر میں اس کے والدین، بہن بھائی اور چچا اور چچی سمیت کئی لوگ رہتے ۔ ‘اگر لڑکی نے واقعی روزہ رکھا ہوتا تو اس کے گھر والوں کو ضرور معلوم ہوتا۔’ انہوں نے کہا۔

روزے کے عمل میں آدمی کو سورج نکلنے سے پہلے کھانا کھانا پڑتا ہے اور پھر سارا دن روزہ رکھنے کے بعد غروب آفتاب کے وقت افطار کرنا پڑتا ہے۔ شہناز نے کہا،’اگر لڑکی ایک بھی  روزہ  رکھتی تو گھر والوں کو ضرور پتہ چل جاتا’۔

شہناز کی درخواست ضمانت مسترد

گزشتہ 26 مارچ کو جھانسی کے ایڈیشنل سیشن جج وجئے کمار ورما نے شہناز کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ عدالت نے کہا کہ شہناز متاثرہ کی پڑوسی ہیں  اور وہ گواہوں یا شواہد پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

چھتیس گڑھ پولیس نے محمد زبیر کے خلاف پاکسو کیس میں کلوزر رپورٹ داخل کی

چھتیس گڑھ پولیس نے فیکٹ چیکر محمد زبیر کے خلاف  2020 میں ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے لیےپاکسوایکٹ کے تحت درج معاملے کو بند کر دیا ہے۔ اس کے بعد زبیر نے کہا ہے کہ ‘سچائی کو پریشان کیا جا سکتا ہے، لیکن شکست نہیں دی جا سکتی!’

محمد زبیر۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@zoo_bear)

نئی دہلی: چھتیس گڑھ پولیس نے آلٹ نیوز کے فیکٹ چیکراور صحافی محمد زبیر کے خلاف پاکسو ایکٹ کے تحت درج کیس میں کلوزر رپورٹ داخل کی ہے۔ ریاستی حکومت نے حال ہی میں چھتیس گڑھ ہائی کورٹ کو یہ جانکاری دی۔

یہ کیس  2020 میں زبیر کی طرف سے ایکس (سابقہ ​​ٹوئٹر) پر کی گئی پوسٹ کے سلسلے میں  درج کیا گیا تھا۔

لائیو لا کے مطابق، چھتیس گڑھ حکومت کے وکیل نے چیف جسٹس رمیش سنہا اور جسٹس اروند کمار ورما کی بنچ کے سامنے یہ جانکاری دی۔

اب عدالت نے زبیر کی درخواست نمٹا دی ہے، جس میں انہوں نے ان کے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کی استدعا کی تھی۔ ایف آئی آر انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 67، تعزیرات ہند کی دفعہ 509بی  اور پاکسو ایکٹ کی دفعہ 12 کے تحت درج کی گئی تھی۔

کیاتھا معاملہ؟

زبیر نے ایکس پر 2020 میں جگدیش سنگھ نامی شخص کو ٹیگ کرتے ہوئے ایک پوسٹ کی تھی۔ انہوں نے سنگھ سے پوچھا تھا کہ کیا سوشل میڈیا پر گالی گلوچ کرنا ان کے لیے درست ہے، خاص طور پر جب ان کی پروفائل تصویر میں ان کی پوتی دکھائی دے رہی تھی۔

زبیر نے پوسٹ میں لکھا تھا: ‘ہیلو جگدیش سنگھ، کیا آپ کی پیاری پوتی کو معلوم ہے کہ آپ سوشل میڈیا پر لوگوں کو گالیاں  دیتے ہیں؟ میرا مشورہ ہے کہ آپ اپنی پروفائل تصویر تبدیل کرلیں۔’

اس پوسٹ میں زبیر نے لڑکی کے چہرے کو دھندلا کر دیا تھا،اس کے باوجود جگدیش سنگھ نے نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس سے شکایت کی تھی۔

اس کے بعد نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس نے اس سلسلے میں دہلی اور رائے پور پولیس کو خط لکھا، جس کے بعد رائے پور پولیس نے ایف آئی آر درج کی۔ زبیر نے اس ایف آئی آر کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔

عدالت کا فیصلہ

اکتوبر 2020 میں ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ زبیر کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہ کی جائے۔ 2024 میں، عدالت نے جگدیش سنگھ کو ایکس پر زبیر سے معافی مانگنے کا حکم دیا۔

زبیر کا بیان

گزشتہ 2 اپریل 2024 کو زبیر نے ایکس  پر لکھا : ‘اس معاملے میں، نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کے سابق چیئرمین پریانک قانون گو نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا اور میرے خلاف پروپیگنڈہ  چلایا۔ انہوں نے دہلی اور رائے پور پولیس کو خط لکھ کر دعویٰ کیا کہ میرا ٹوئٹ ایک نابالغ لڑکی کو ہراساں کرنے والا تھا۔ لیکن گزشتہ سال دہلی کی عدالت نے شکایت کنندہ کو مجھ سے سر عام معافی مانگنے کا حکم دیا تھا۔ اور اب چھتیس گڑھ پولیس نے کلوزر رپورٹ درج کر کے مجھے بے قصور قرار دیا ہے۔’

زبیر کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کل 10 ایف آئی آر درج ہیں، جن میں سے اب دو کو خارج کر دیا گیا ہے۔ اس موقع پر وہ لکھتے ہیں، ‘سچ پریشان ہو سکتا ہے، لیکن شکست نہیں دی جا سکتی۔ انصاف کی جیت ہوتی  ہے!’

قابل ذکر ہے کہ محمد زبیر نے حکومت اور بی جے پی کے گمراہ کن دعوے کو بے نقاب کرنے والے فیکٹ چیکنگ  رپورٹس شائع کی ہیں، جس کی وجہ سے وہ ہندوتوا کے حامیوں اور پروپیگنڈہ چلانے والوں کے نشانے پر رہتے ہیں۔ اتر پردیش پولیس نے ان کے خلاف ہیٹ اسپیچ دینے والے یتی نرسنہانند سے متعلق پوسٹ کرنے پر بھی ان کے خلاف کیس  درج کیا ہے ۔

Next Article

گزشتہ پانچ سالوں میں حکومت نے مغلیہ دور کی صرف پانچ عمارتوں سے 548 کروڑ روپے سے زائد کی آمدنی حاصل کی

پارلیامنٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، اتر پردیش میں تاج محل، نئی دہلی میں قطب مینار اور لال قلعہ، مہاراشٹر میں آگرہ قلعہ اور رابعہ درانی کا مقبرہ سیاحوں کے لیے پانچ مقبول  ترین مغل یادگار ہیں۔ 20-2019 سے 2023-24 تک کی مدت میں حکومت نے ان پانچ مقاما ت میں ٹکٹوں کی فروخت سے 548 کروڑ روپے کمائے ہیں۔

نئی دہلی: سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ ملک کے سابق مسلم حکمرانوں کے ذریعے تعمیر کردہ پانچ مقبول ترین  یادگاروں سے گزشتہ پانچ سالوں میں مرکزی حکومت کو سینکڑوں کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی ہے ۔

گزشتہ 3 اپریل کو وزارت ثقافت کی جانب سے پارلیامنٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، اتر پردیش میں تاج محل، نئی دہلی میں قطب مینار اور لال قلعہ، مہاراشٹر میں آگرہ قلعہ اور رابعہ درانی کا مقبرہ سیاحوں میں مغلوں کی پانچ سب سے مقبول ترین یادگاریں ہیں۔

سال 2019-20 سے 2023-24 تک کی پانچ سالہ مدت کے دوران مرکزی حکومت نے ان پانچ یادگاروں پر ٹکٹوں کی فروخت سے 548 کروڑ روپے کمائے،اس کے علاوہ متعلقہ شعبوں میں ہزاروں لوگوں کے لیے براہ راست اور بالواسطہ روزگار بھی پیدا ہوئے ۔

اطلاعات کے مطابق، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے سال 2023-24 میں آگرہ شہر میں تمام محفوظ یادگاروں کی دیکھ بھال پر 23.52 کروڑ روپے خرچ کیے، جبکہ اس سال صرف تاج محل کے ٹکٹوں کی فروخت سے 98.5 کروڑ روپے آمدنی ہوئی۔

سری نگر کے ایک سماجی کارکن راجہ مظفر بھٹ نے کہا، ‘ایسے وقت میں جب مغل حکمرانوں کا بی جے پی لیڈروں کے ذریعے مذاق اڑایا جا رہا ہے، وہی حکومت ان کے مقبروں اور تاریخی مقامات سے بھاری آمدنی حاصل کر رہی ہے۔ یہ منافقت ان  کے دوہرے کردار کو بے نقاب کرتی ہے۔ ‘

معلومات کے حق (آر ٹی آئی) کے تحت ایک درخواست میں انکشاف ہوا ہے کہ 2019-20 اور 2023-24 کے درمیان پانچ سالوں میں 2.2 کروڑ سیاحوں نے اتر پردیش کے آگرہ شہر میں واقع اوریونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ اور ملک میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی مغل یادگار تاج محل کا دورہ کیا، جس سے 297.33 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔

سری نگر کے ایم ایم سجا کی جانب سے دائر ایک آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں اے ایس آئی نے بتایاہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے وزیر اعظم کے طور پر حلف لینے کے ایک سال بعد سال 2015 سے ستمبر 2024 کے آخر تک  تاج محل میں ٹکٹوں کی فروخت سے 535.62 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی ہے۔

اے ایس آئی، جو مرکزی وزارت ثقافت کے تحت آتا ہے، تاج محل دیکھنے کے لیے گھریلو سیاحوں سے 50 روپے وصول کرتا ہے، جبکہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے یہ فیس 1100 روپے ہے۔ تاج محل کے مرکزی مقبرے کو دیکھنے کے لیے تمام سیاحوں کو الگ ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے جس کی قیمت 200 روپے ہے۔

یہ عمارت 17ویں صدی کے مغل بادشاہ شاہجہاں نے اپنی اہلیہ ممتاز محل کی یاد میں بنوائی تھی۔ تاج محل 1632 اور 1648 کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا اور اسے دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

بی جے پی کے کئی رہنمااور ہندوتوا تنظیم بغیر کسی ثبوت کے دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ تاج محل ایک ہندو مندر تھا جو شاہجہاں کے دور سے بہت پہلے بنایا گیا تھا۔ تاہم، اے ایس آئی نے ان دعووں کو مسترد کیا ہے ۔

قابل ذکر  ہے کہ 4 اپریل 2023 کو آسام کے بی جے پی ایم ایل اے روپ جیوتی کرمی نے کہا تھا کہ انہوں نے پی ایم مودی سے سفارش کی تھی کہ تاج محل کو گرا کر اس کی جگہ مندر بنایا جائے۔

قطب مینار ملک کی دوسری مقبول ترین مغل عمارت

پارلیامنٹ میں پیش کیے گئے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، قطب مینار ملک میں مغلوں کی دوسری مقبول ترین یادگار ہے، جسے پانچ سال کے عرصے میں 92.13 لاکھ سیاحوں نے دیکھا، جس سے 63.74 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔

اگر 2014 سے پچھلے پانچ سالوں کا اوسط لگایا جائے تو جنوبی دہلی کے مہرولی علاقے میں قطب الدین ایبک اور شمس الدین التمش کی تعمیر کردہ 12ویں صدی کی یادگار نے دس سالوں میں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو ٹکٹوں کی فروخت سے تقریباً 178.08 کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کی ہے۔

ماضی میں وشو ہندو پریشد نے دعویٰ کیا تھا کہ قطب مینار ایک ‘وشنو استمبھ (ستون)’ ہے، اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ قطب مینار کمپلیکس میں ہندو ڈھانچے کو دوبارہ تعمیر کیا جائے، جنہیں ‘یادگار بنانے کے لیے منہدم کر دیا گیا تھا۔’

لال قلعہ، جہاں وزیر اعظم ہر سال یوم آزادی پر ترنگا جھنڈا لہراتے ہیں اور اس کی فصیل سے قوم سے خطاب کرتے ہیں، ملک میں مغلوں کی تیسری مقبول ترین یادگار ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، پانچ سال کی مدت میں تقریباً 90 لاکھ سیاحوں نے لال قلعہ کا دورہ کیا، جس سے 54.32 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔

مغل شہنشاہ شاہجہاں نے 1639 میں تعمیر کیا تھا، اس تاریخی قلعے سے اے ایس آئی  نے  2014 سے اوسطاً دس سال کے تخمینہ کے مطابق، ٹکٹوں کی فروخت سے تقریباً 140 کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کی ہے۔

آگرہ قلعہ، جو یونیسکو کا عالمی ثقافتی ورثہ بھی ہے، ملک میں مغلیہ  دور کی چوتھی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی یادگار ہے، جس کا دورہ 2019-2020 سے 2023-2024 تک 69.61 لاکھ سیاحوں نے کیا، جس سے 64.84 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔

اے ایس آئی کے اعداد و شمار کے مطابق، 1565 میں مغل شہنشاہ اکبر کی طرف سے تعمیر کردہ اس قلعہ میں  مودی کے اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد 2015 سے لے کر ستمبر 2024 تک تقریباً دو کروڑ سیاح آئے، جس سے کل 178.83 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔

آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں اے ایس آئی نے کہا کہ حکومت نے قلعہ میں کم از کم 35 لوگوں کو ملازمت دی ہے۔

اورنگ آباد، مہاراشٹر میں واقع رابعہ درانی کا مقبرہ ملک میں پانچویں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی مغل یادگار ہے۔ یہ مقبرہ 1660 میں مغل بادشاہ اورنگزیب کے بیٹے اعظم شاہ نے اپنی والدہ دلرس بانو بیگم کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔

بی بی کا مقبرہ کے نام سے مشہور اس مقبرے کو سال 2019 سے 2024 تک 42.14 لاکھ سیاحوں نے دیکھا اور اس عرصے میں 68.51 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔

آر ٹی آئی درخواست میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ اے ایس آئی قومی دارالحکومت دہلی میں کم از کم ایک درجن مرکزی طور پر محفوظ مغل یادگاروں کا انچارج ہے۔

ان میں خان خانہ، سلطان گڑھی مقبرہ، تغلق آباد قلعہ، ہمایوں کا مقبرہ، حوض خاص قلعہ، صفدر جنگ مقبرہ، کوٹلہ فیروز شاہ اور پرانہ قلعہ شامل ہیں، جن سے پانچ سال کے عرصے میں ٹکٹوں کی فروخت سے مجموعی طور پر 42 کروڑ روپے سے زائد کی کمائی ہوئی ہے۔

اگرچہ مغلوں کی یادگاروں نے سرکاری خزانے میں اہم حصہ ڈالا ہے،  لیکن بی جے پی اور پارٹی سے وابستہ ہندوتوا گروپوں نےاپنی  اکثریتی سیاست کے تحت ملک کے سابق اسلامی حکمرانوں پر مسلسل ‘لوٹ کھسوٹ ‘ کا الزام لگایا ہے۔

حزب اختلاف کی جماعتوں نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی مغلوں کی تعمیر کردہ یادگاروں کو گرانے کی سازش کر رہی ہے، جنہوں نے 1526 سے 1857 تک برصغیر کے بیشتر حصوں پر حکومت کی تھی۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

آر ٹی آئی بمقابلہ پرائیویسی: حکومت کیا چھپانا چاہتی ہے؟

حکومت ہند کے ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ  سے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کو کمزور کیے جانے کا خدشہ ہے۔ اس نئے قانون کی ایک دفعہ آر ٹی آئی ایکٹ میں براہ راست ترمیم کرتی ہے، جس سے سرکاری ایجنسیوں کو معلومات چھپانے کے لیے مزید چھوٹ مل سکتی ہے۔ اس بارے میں ٹرانسپرینسی ایکٹوسٹ  انجلی بھاردواج سے بات چیت۔