دو ہزار چھ کے ممبئی ٹرین دھماکے: جو برسوں پہلے جیل گئے یا بری کر دیے گئے، پولیس آج بھی ان کے خاندان کو ’تنگ‘ کرتی ہے

سال 2006کے ممبئی ٹرین دھماکہ کیس میں جن لوگوں کو عدالت نے مجرم قرار دیا  یا بری کر دیا ،  ان کے خاندانوں کو اب بھی پولیس کی مسلسل پوچھ گچھ اور نگرانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بری کر دیے گئے لوگ بھی خود کوریاست کی نظر میں اب تک مجرم جیسا محسوس کرتے ہیں۔

سال 2006کے ممبئی ٹرین دھماکہ کیس میں جن لوگوں کو عدالت نے مجرم قرار دیا  یا بری کر دیا ،  ان کے خاندانوں کو اب بھی پولیس کی مسلسل پوچھ گچھ اور نگرانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بری کر دیے گئے لوگ بھی خود کوریاست کی نظر میں اب تک مجرم جیسا محسوس کرتے ہیں۔

السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر

ممبئی: 11 جولائی 2006 کو ممبئی ٹرین بلاسٹ معاملے میں مبینہ رول کی وجہ سے جب شیخ محمدعلی عالم شیخ کوگرفتار کیا گیا تھا، تب ان کے بچے اسکول میں پڑھتےتھے ۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جب ممبئی کی اسپیشل مہاراشٹر کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ (مکوکا) عدالت میں مقدمہ چلتا رہا ، تب مختلف محکموں کی پولیس ہر جمعرات کو علی کے گھر جا کر اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتی تھی۔

‘میرے والد ان کی حراست میں تھے، پھر بھی وہ ہر ہفتے ہمارے گھر آتے اور فضول سوالات کرتے۔’ علی کے بیٹوں میں سےایک کہتے ہیں۔ 2015 میں جب مکوکا کورٹ نے علی اور دیگر 11 افراد کو مجرم قرار دیا اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی ۔ تب کہیں جاکر یہ دورے دھیرے دھیرے کم ہوگئے۔

لیکن تقریباً ایک دہائی بعد جب علی کے ایک بیٹے نے اپنی تعلیم مکمل کر کے شہر میں نوکری شروع کی، تو پولیس کے دورے دوبارہ شروع ہو گئے۔ ممبئی پولیس کمشنر کو دی گئی شکایت میں علی کی اہلیہ سعیدالنسا نے بتایا کہ کچھ نامعلوم پولیس اہلکار ان کے گھر آتے ہیں اور علی کے بارے میں پوچھتے ہیں، حالانکہ وہ گزشتہ 20 سال سے جیل میں ہیں۔

اب یہ ہراسانی مزید بڑھ گئی ہے – پولیس علی کے بیٹوں سے بھی رابطہ کرتی ہے اور ان سے بار بار وہی سوال کرتی ہے۔ علی کے بڑے بیٹے کہتے ہیں،’یہ  سوال  ہمیں سمجھ نہیں آتے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ پولیس کی طرف سے ایک اشارہ ہے کہ ہم ہمیشہ ان کی نگرانی میں ہیں۔’

پریشانیاں اور نگرانی

نگرانی صرف محمد علی کے خاندان تک محدود نہیں ہے۔ یہ کیس سے جڑے تقریباً ہر فرد تک پھیلا ہوا ہے، جن میں عبدالواحد شیخ بھی شامل ہیں — جنہیں تمام الزامات سے بری کر دیا گیا تھا اور 2015 میں رہا کر دیا گیا تھا۔

واحد شیخ اب جنوبی ممبئی کے ایک پرانے اردو اسکول میں استاد ہیں اور حال ہی میں انہوں نے قیدیوں کے حقوق پر پی ایچ ڈی کا مقالہ جمع کیا ہے۔ وہ بتاتے  ہیں کہ بری ہونے کے باوجود انہیں اور ان کے خاندان کو مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے۔

‘ہر چند دن بعد پولیس میرے دروازے پر دستک دیتی ہے یا مجھے فون کرتی ہے۔ میں سمن کے بغیر بات کرنے سے انکار کرتا ہوں – جو وہ کبھی نہیں لاتے۔’ شیخ کہتے ہیں۔

شیخ نے ہر بار کی اس طرح کی پولیس کارروائی کو دستاویزی شکل دی ہے اور بتاتے ہیں کہ انہوں نے کمشنر کے دفتر میں کتنی بار شکایت کی ہے اس کی گنتی بھی اب یاد نہیں ہے۔ شیخ مزیدکہتے ہیں،’شکایات اوپر تک جاتی ہیں، ہراسانی چند مہینوں کے لیے بند ہو جاتی ہے، پھر دوبارہ شروع ہو جاتی ہے۔’

شیخ نے نو سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزارا اور بری ہونے کے بعد سے وہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی کے اس مقدمے میں سزا پانے والے 12 افراد بے قصور ہیں۔ انہوں نے ‘انوسنس نیٹ ورک’ کے نام سے ایک مہم شروع کی ہے۔

قصوروار ٹھہرائے گئے 12 لوگوں  میں سے 5 – کمال انصاری، محمد فیصل عطا الرحمان شیخ، احتشام قطب الدین صدیقی، نوید حسین خان اور آصف خان کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ باقی سات افراد – تنویر احمد محمد ابراہیم انصاری، محمد ماجد محمد شفیع، شیخ محمد علی عالم شیخ، محمد ساجد، مرغوب انصاری، مزمل عطا الرحمان شیخ، سہیل محمود شیخ اور ضمیر احمد لطیف الرحمان شیخ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

سزا سنائے جانے کے فوراً بعد تمام مجرموں نے بامبے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ استغاثہ نے ان پانچوں مجرموں کی سزائے موت کی توثیق کے لیے ایک اپیل بھی دائر کی ہے – جو یہ ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ کیس ‘ریئرسٹ آف دی ریئر’ کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ اپیلیں ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں اور ان کے فیصلے اگلے ماہ متوقع ہیں۔

سال 2006 میں گرفتاری کے بعد سے تمام 12افرادجیل میں ہیں۔ انہیں گزشتہ دو دہائیوں میں صرف چند مواقع پر عارضی ضمانت دی گئی ہے، جیسے کہ جب کسی قریبی رشتہ دار کی موت ہوئی ہو۔ باقاعدہ پیرول یا چھٹی، جو عام طور پر قیدیوں کو ملتی ہے، عدالتوں کی طرف سے مسلسل مسترد کی جاتی رہی ہے۔

ہمیں سوالوں کی ایک فہرست تھما دی جاتی ہے

‘اتنے سالوں تک ان لوگوں کو حراست میں رکھنے کے بعد آپ اور کیا جاننا چاہتے ہیں؟’ ضمیر کے بڑے بھائی شریف پوچھتے ہیں۔

گرفتاری کے وقت ضمیر کی عمر 31 سال تھی اور اب وہ جلد ہی 50 سال کے ہو جائیں گے۔ 2006 کے سیریل بالسٹ کے واقعے میں قصوروار ٹھہرائے گئے ضمیر، جن پر 189لوگوں کی موت اور 824 کو زخمی کرنے کا الزام ہے، گزشتہ دو دہائیوں میں صرف ایک بار جیل سے باہر آئے – وہ بھی چند گھنٹوں کے لیے – جب چند سال قبل ان کی والدہ کا انتقال ہوا تھا۔ ‘اس کے باوجود پولیس آج تک ہمارے پاس آتی ہے اور اسی کیس کے بارے میں سوالات کرتی ہے جسے وہ خود پچھلے 20 سال سے دیکھ رہے ہیں۔’ شریف کہتے ہیں۔

پانچ سال پہلے تک شریف کے خاندان کو بھی پولیس کے ان بار بار دوروں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ‘وہ ضمیر کے بارے میں پوچھتے تھے، پھر میری ذاتی زندگی کے بارے میں بھی۔ میں کئی سالوں تک صبروتحمل کا مظاہرہ کرتارہا، لیکن جب انہوں  ہماری بہنوں اور ان کے خاندان کے بارے میں جانکاری مانگنی شروع کی  تو میں نے احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا،’ وہ بتاتےہیں۔

شریف نے کرائم برانچ کے ایک سینئر افسر کے خلاف شکایت درج کرائی، جس کے باعث کچھ وقت کے لیے پولیس کا آنا بند ہو گیا۔ تاہم، گزشتہ ہفتے جمعہ (30 مئی) کو دو پولیس اہلکار سادہ لباس میں دوبارہ ان کے گھر آئے اور وہی پرانے سوالات کرنے لگے۔

ان بے بنیاد پوچھ گچھ کے ذریعے جہاں پولیس ان خاندانوں کو مسلسل ہراساں کرتی رہی ہے، وہیں کچھ پولیس اہلکار دی وائر سے بات کرتے ہوئے اپنا دفاع کیا اور کہا کہ وہ  توصرف ‘اوپر سے آنے والے احکامات کی پیروی کر رہے ہیں۔’

‘ہمیں سوالات کی ایک فہرست تھما دی جاتی ہے، اور ہم صرف جا کر پوچھ لیتے ہیں،’ ٹرین بلاسٹ کے ایک مجرم کے گھر حال ہی میں گئے ایک سپاہی نے کہا۔

مسلسل ہراسانی

ممبئی ٹرین دھماکوں کے کیس میں قصوروار ٹھہرائے گئے افراد کے گھروں کا پولیس کا حالیہ دورہ شہر میں جاری پولیس کی وسیع تر پروفائلنگ مہم کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔

شیخ کا کہنا ہے کہ انہیں ممبئی کے مختلف حصوں سے ایسے لوگوں کے فون آتے ہیں جنہوں نے ممنوعہ اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) یا دیگر دہشت گردی کے مقدمات میں ٹرائل کا سامنا کیا ہے، لیکن عدالتوں سے انہیں بری کر دیا گیا ہے۔ ‘وہ بحالی کے لیے کوئی ڈیٹا بیس تیار نہیں کر رہے ہیں، بلکہ یہ ساری مشق بے گناہ لوگوں کے مجرمانہ پروفائل تیار کرنے کے لیے ہے۔ عدالت سے بری ہونے کے بعد بھی ریاست انہیں بے گناہ ماننے سے انکاری ہے۔’ شیخ نے اصرار کیا۔

اس طرح کی مسلسل ہراسانی سے تنگ آکر شیخ اور ان جیسے کئی دوسرے سابق قیدیوں نے اپنے گھروں کے ارد گرد سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر وا دیے ہیں۔

سال 2023میں دی وائر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں  شیخ نے کہا  تھاکہ یہ مجبوری میں اپنایا گیا راستہ ہے تاکہ خود کو اور اپنے خاندان کو پولیس سے محفوظ رکھاجا سکے، اور سب سے اہم – کسی طرح کے جھوٹے مقدمے میں پھنسایا نہ  جا سکے۔ دی وائر نے ملک بھر میں کئی ایسے سابق قیدیوں کا انٹرویو کیا تھا، جنہوں نے پولیس کی مداخلت سے بچنے کے لیے اپنے گھروں میں کیمرے لگوائے ہیں۔

شیخ کہتے ہیں کہ مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔ اکتوبر 2023 میں، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا، یہ الزام لگاتے ہوئے کہ وہ ممنوعہ تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف ائی) سے منسلک ایک معاملے میں مشتبہ ہیں۔ بعد میں انہیں لکھنؤ بلایا گیا، پوچھ گچھ کی گئی اور چھوڑ دیا گیا۔ ‘لیکن انہوں نے میرے گھر پر اس طرح چھاپہ مارا جیسے میں شہر میں چھپا ہوا کوئی بڑا دہشت گرد ہوں۔’

برسوں پہلے، جب دہلی ٹربیونل – جو وقتاً فوقتاً سمی پر پابندی کا جائزہ لینے کے لیے قائم کیا جاتا ہے – نے مہاراشٹر کا دورہ کیا تھا، تب  ریاستی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ شیخ سمی کا حصہ تھے۔ اس کے علاوہ انہیں ‘دہشت گردی کے معاملے میں قصوروار’ بھی کہاگیا، جو مکمل طور پر غلط تھا۔ شیخ کو اس غلط معلومات کو ہٹوانے کے لیے دہلی ہائی کورٹ جانا پڑا۔

‘عدالت نے مجھے تمام الزامات سے بری کر دیا ہے، میرے خلاف کوئی مقدمہ زیر التوا نہیں ہے، پھر بھی ریاست مجھے ایک قانونی شہری کے طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں ہے’۔ شیخ کہتے ہیں۔

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)