صحافی پرشانت کنوجیا کو ایک ٹوئٹ کی وجہ سے18 اگست کو یوپی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ سوموار کو یوپی سرکار نے ہائی کورٹ میں دائر ان کی ضمانت عرضی پر جواب دینے کے لیے چار ہفتے کاوقت مانگا ہے، جس کے لیے عدالت نے اجازت دے دی ہے۔
نئی دہلی: گزشتہ18اگست کو ایک ٹوئٹ کرنے کی وجہ سے اتر پردیش پولیس کے ذریعے گرفتار کئے گئےآزادصحافی پرشانت کنوجیا کو ابھی ایک مہینےاور جیل میں رہنا ہوگا۔دراصل، الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش سرکار کی اس درخواست کو قبول کر لیا ہے جس میں اس نے کنوجیا کی ضمانت عرضی پر جواب دینے کے لیے چار ہفتےکا وقت مانگا تھا۔
اس سے پہلے لکھنؤ میں سیشن عدالت نے کنوجیا کی ضمانت عرضی خارج کر دی تھی، جس کے بعد 8 ستمبر کو انہوں نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔جب سوموار کو لکھنؤ بنچ کے جسٹس دنیش کمار سنگھ کےسامنے ان کا معاملہ آیا، توجج نے آرڈر دیا کہ اس معاملے کو چار ہفتے میں لسٹ کیا جائے۔
پولیس کے ذریعے پرشانت کے خلاف 17 اگست کو حضرت گنج تھانے کے ایک پولیس اہلکارکی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا تھا، ‘پرشانت کنوجیا کے ذریعے چھیڑ چھاڑ کی گئی تصویر سے سشیل تیواری کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پرشانت نے لکھا تھا کہ یہ تیواری کی ہدایت ہے کہ ایودھیا کے رام مندر میں شودر، او بی سی، ایس سی ایس ٹی کے داخلہ پرپابندی ہونی چاہیے اور سب لوگ اس کے لیے آواز اٹھائیں۔’
آگے کہا گیا تھا، ‘اس کوسشیل تیواری کی پوسٹ کے اسکرین شاٹ کے بطور شیئر کیا جا رہا تھا…سوشل میڈیا پر شیئرہوئی پوسٹس کا اسکرین شاٹ منسلک ہے۔ اس طرح کے قابل اعتراض پوسٹ مختلف کمیونٹی میں نفرت پھیلانے والا،سماجی ہم آہنگی پر برااثر ڈالنے والا اورمذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والا ہے جس سے امن وامان متاثر ہو سکتا ہے۔’
اس کے علاوہ کمپیوٹر سے متعلق معاملوں کے لیے ان پر آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 66 کے تحت بھی معاملہ درج کیا گیا ہے۔اس معاملے کی شروعات ہندوتوا کارکن سشیل تیواری کے ایک فیس بک پوسٹ سے ہوتی ہے جو ایک ہندو آرمی نام کی تنظیم کے سربراہ ہیں۔اس فیس بک پوسٹ میں تیواری نے اپنی ایک تصویر پوسٹ کی تھی اور لکھا تھا، ‘یوپی ایس سی سے اسلامک اسٹڈی فوراً ہٹاکر ویدک اسٹڈی جوڑا جائے، سب لوگ ایک ساتھ آواز اٹھائیں۔’
حالانکہ، کچھ نامعلوم لوگ اس تصویر کو بدلے ہوئے لفظوں کے ساتھ مشتہر کرنے لگے، جس میں لکھا تھا، ‘رام مندر میں شودروں، او بی سی، ایس سی، ایس ٹی کے داخلہ پر پابندی رہےگی سب لوگ ایک ساتھ آواز اٹھائیں۔’
پولیس کاالزام ہے کہ کنوجیا نے اس بدلی ہوئی تصویر کو ٹوئٹ کیا اور ان کے خلاف آئی پی سی کی نو دفعات لگائی گئی۔اس میں آئی پی سی کی نو دفعات کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں153 اے/بی(مذہب، زبان، نسل وغیرہ کی بنیاد پر کمیونٹی میں نفرت پھیلانے کی کوشش)، 420 (دھوکہ دھڑی)، 465(دھوکہ دھڑی کی سزا)، 468(بےایمانی کے ارادے سے دھوکہ دھڑی)، 469(ہتک عزت کے مقصد سے دھوکہ دھڑی) 500 (ہتک) 500 (1) (بی) 505(2) شامل ہیں۔
اسلام کو نشانہ بنانے والا تیواری کا بنیاد پیغام بھی آئی پی سی کی دفعہ153اے، 153بی اور 505(2) کے تحت آتے ہیں لیکن پولیس نے یہ جانتے ہوئے بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی کہ انہوں نے ان پیغامات کو چھپوایا اور مشتہر کروایا۔اس کے علاوہ بھی تیواری کے کئی ویڈیو مشتہر ہوئے ہیں، جن میں مسلمانوں کے خلاف بھڑکاؤ اور فرقہ وارانہ پیغامات ہیں۔
اس سے پہلے سال 2019 میں بھی پرشانت کنوجیا کو یوپی پولیس کے ذریعےوزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر کیے ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔
تب سپریم کورٹ کےآرڈرکے بعد پرشانت کو رہا کیا گیا تھا۔اس وقت بھی ان کے خلاف حضرت گنج تھانے میں معاملہ درج ہوا تھا۔پولیس کا الزام تھا کہ پرشانت نے وزیراعلیٰ پر قابل اعتراض تبصرہ کرتے ہوئے ان کی امیج خراب کرنے کی کوشش کی تھی۔اس معاملے میں جسٹس اندرا بنرجی اور جسٹس اجئے رستوگی کی بنچ نے اتر پردیش سرکار کی اس دلیل کو خارج کر دیا تھا کہ کنوجیا کو الہ آباد ہائی کورٹ میں جانے کے بجائے سیدھے سپریم کورٹ آنے کا کوئی حق نہیں تھا۔
بنچ نے پرشانت کنوجیا کی گرفتاری پر سوال اٹھاتے ہوئے کافی سخت تبصرہ کیا تھااور مجسٹریٹ کے ذریعےکنوجیا کو 11 دن کی عدالتی حراست میں بھیجنے کی تنقیدکی تھی۔سپریم کورٹ نے کہا تھا، ‘شہری کی آزادی مقدس ہے اور اس سے سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کو آئین کے ذریعے یقینی بنایا گیا ہے اور اس کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی ہے۔’
پرشانت کے ٹوئٹ کے سلسلے میں کورٹ نے کہا تھا، ‘خیالات الگ ہو سکتے ہیں، انہوں نے (پرشانت)شاید اس ٹوئٹ کو پبلش یا لکھا نہیں ہوگا، لیکن کس بنیاد پر گرفتاری ہوئی ہے۔’ کورٹ نے مانا تھا کی گرفتاری اور حراست غیرقانونی ہے اور اس سے ذاتی آزادی کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔