مؤخر روداد: غزہ ٹریبونل اپنی بنیاد میں ایک شہری عدالت ہے، جس کی بنیاد لندن میں 2024 کے آخر میں ڈالی گئی۔ جب ریاستیں خاموش رہیں، جب عالمی عدالتیں بے بس ہو گئیں، جب سلامتی کونسل کی میز پر بار بار ایک ہی ملک کا ویٹو ظلم کی سیاہی کو تحفظ دیتا رہا، تو انسانوں نے خود فیصلہ کیا کہ ضمیر کی عدالت قائم کی جائے۔

رچرڈ فالک غزہ ٹریبونل کی سماعت سے خطاب کرتے ہوئے، فوٹو: افتخار گیلانی
ترکیہ کے عروس البلاد استنبول کے مرکز میں واقع استنبول یونیورسٹی کے تاریخی ‘آنر ہال’ میں خزاں کی دھوپ ایک عجیب سکون کے ساتھ اتری ہوئی تھی۔ پتھروں کی ان بلند محرابوں میں ٹھہری ہوئی روشنی کے اندر کچھ نہ کچھ حرکت تھی۔
شاید یہ ان قدموں کی لرزش تھی جن پر صدمے سے لرزتی ہوئی گواہیاں آ رہی تھیں، شاید یہ وہ نظریں تھیں جو ایک بے نام ہچکچاہٹ کے ساتھ ہال کی دیواروں پر چسپاں تصویروں سے بچنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
یا پھر شاید یہ تاریخ کی سانس تھی، جو، جانے کیوں، اس ہال میں محسوس ہو رہی تھی۔
فلسطین ویسے تو پچھلی آٹھ دہائیوں سے اسرائیلی جبر کے شکنجے میں کسمسا رہا ہے اور یہ سب کچھ ترقی یافتہ اور انسانی حقوق کے علمبردار مغرب کی آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار غزہ پر اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ، جو دنیا کے ہر ڈرائنگ روم تک براہِ راست پہنچی، نے کہیں نہ کہیں مغربی سماج کا ضمیر جھنجھوڑ دیا ہے۔
حکومتیں تو ا ب بھی اپنے تزویراتی مفادات کے نفع و نقصان میں الجھی ہوئی ہیں، مگر ان ممالک کی عام آبادی بڑی حدتک اسرائیلی پروپیگنڈہ کے اثر سے باہر آچکی ہے۔
فریڈم فلوٹیلا سے لے کر عالمی غزہ ٹریبونل تک، جس نے حال ہی میں استنبول میں اپنی آخری سماعت کے بعد فیصلہ سنایا، یہ سب اشارہ کرتے ہیں کہ مغربی عوام کے ضمیر نے اپنی حکومتوں کے تزویراتی جواز قبول نہیں کیے ہیں۔
انہوں نے فلسطین کے حق میں کھڑے ہونے کو ہی سچ جانا اور اسی کا ساتھ دیا۔ اسی کڑی کی ایک شکل کے بطور حال ہی میں استنبول یونیورسٹی کے ہال میں ایک ہفتہ تک جاری غزہ ٹریبونل کی آخری سماعتیں تھیں ۔
ایک ہفتہ تک یہ ہال کبھی عدالت بن جاتا، کبھی درسگاہ، کبھی تعزیتی چبوترہ اور کبھی ایک ایسی جگہ جہاں انسان اپنے ہی وجود سے سوال کرنے لگتا تھا۔
دراصل غزہ ٹریبونل کی استنبول نشست نہ صرف ‘اخلاقی فیصلے’ کا موقع تھی بلکہ، زیادہ گہری بات یہ کہ ہر شخص کے دل میں ایک ہی بات تھی؛ غزہ کی کہانی کو بہرحال محفوظ رکھنا ہے۔
ہال میں داخل ہوتے ہی پہلی چیز جو نظر آتی تھی، وہ کونے میں رکھا ہوابڑا سا بورڈ تھا جسے ‘وال آف ہوپ’کہا گیا۔
اس پر ہاتھ سے لکھے گئے پیغامات لگے تھے، جن میں غم بھی تھا، ضد بھی اور وعدے بھی۔ ایسے وعدے جو شاید زندگی کی تلخیوں میں ٹوٹ جائیں، لیکن دل کی دیوار پر ہمیشہ کے لیے درج ہو جائیں۔
وہاں کسی نے ترک زبان میں لکھا تھا؛
’ آوازیں دبائی نہیں جاتیں، وہ رخ بدل لیتی ہیں ۔‘
انگریزی میں ایک ننھے سے کاغذ پر لکھا تھا؛
’ سچ ملبے کی تہوں سے بھی سر اٹھا کر زندہ رہتا ہے۔‘
اس ایک جملے میں غزہ کے ملبے سے اٹھتی ہوئی صدائیں سنی جا سکتی تھیں۔
ہال کے دوسرے حصے میں ‘دی لیونگ آرکائیو’ کی نمائش تھی، جو بظاہر چند ٹوٹی پھوٹی اشیا پر مشتمل تھی مگر حقیقت میں وہ پورا شہر تھی۔بدقسمت غزہ کی پٹی۔
ایک جلا ہوا وائلن، ایک ٹوٹا ہوا کیمرہ، ایک ایسی نوٹ بک جس کے ورق آدھے راکھ بن چکے تھے، ایک بچے کا کھلونا جس کے رنگ بارود کی سیاہی سے ماند پڑ گئے تھے۔
یہ اشیاء کسی میوزیم کی طرح نہیں رکھی گئی تھیں، بلکہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ابھی بھی اپنے مالکوں کی سانسوں سے گرم ہوں، جیسے جنگ نے انہیں کسی لمحے میں اچانک روک دیا ہو۔
اسی دوران ٹریبونل کی جیوری نے آرڈر آرڈر کہہ کر سبھی کو خاموش کرادیا ۔ ایک کے بعد ایک گواہیاں شروع ہوگئیں۔ یہ وہ مقام تھا جہاں دل اور دماغ دونوں بیک وقت شکست قبول کرتے نظر آتے تھے۔
غزہ کے خان یونس علاقہ سے آئے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ کیسے جنریٹر بند ہو جانے پر وہ بچوں کے اعضا بغیر بے ہوشی کے کاٹتے رہے۔ اس کی آواز میں وہ لرزش تھی جو صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جس نے ظلم کو چھوا ہو۔
ایک استاد نے کہا کہ اسکول پر حملے کے بعد بچے پنسل اٹھانے سے ڈر گئے ہیں۔ ان کی انگلیاں بھی کانپتی ہیں، جیسے پنسل نہیں، کوئی بارودی ڈنڈی ہاتھ میں تھمائی جا رہی ہو۔

فوٹو:افتخار گیلانی
ایک صحافی نے بتایا کہ کیسے اس کا نیوز روم پہلے پناہ گاہ بنا، پھر مردہ خانے میں بدل گیا۔
وہ کہہ رہا تھا؛
’ میں خبر لکھتا رہا، مگر آخر میں خود خبر بن گیا۔‘
ہر گواہی کے ساتھ ہال کے اندر سکوت کی تہیں گہری ہوتی جا رہی تھیں۔ لوگ اپنی سانسیں بھی آہستہ لیتے تھے۔ کہیں کہیں کسی کی ہچکی دب نہ پاتی، لیکن مجموعی ماحول میں سلیقہ اور شائستگی تھی۔
غزہ ٹریبونل اپنی بنیاد میں ایک شہری عدالت ہے، جس کی بنیاد لندن میں 2024 کے آخر میں ڈالی گئی۔ جب ریاستیں خاموش رہیں، جب عالمی عدالتیں بے بس ہو گئیں، جب سلامتی کونسل کی میز پر بار بار ایک ہی ملک کا ویٹو ظلم کی سیاہی کو تحفظ دیتا رہا، تو انسانوں نے خود فیصلہ کیا کہ ضمیر کی عدالت قائم کی جائے۔
یہی وہ لمحہ تھا جب پروفیسر رچرڈ فالک، ہلال ایلور، راجی سورانی، پینی گرین، کریگ موخیبر، مائیکل لنک جیسے ماہرین جمع ہوگئے۔ ان سب نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں وہ سوال دیکھا جو دنیا میں کروڑوں انسان پوچھ رہے تھے۔
اگر عالمی ادارے ناکام ہو جائیں تو انصاف کہاں جائےگا؟ جواب سادہ تھا؛ لوگوں کے پاس، ان کے ضمیر کے پاس۔ ٹریبونل اسی جواب کا عملی اظہار تھا۔
اس کے تین بڑے چیمبرز تھے ۔بین الاقوامی قانون، عالمی نظام اور تاریخ و اخلاقیات۔ ان تینوں چیمبرز نے پورے ایک سال گواہیوں، تصاویر، عالمی قوانین، بین الاقوامی رپورٹوں، سیٹلائٹ کا ڈیٹا، پناہ گزینوں کے بیانات، ڈاکٹروں کے ریکارڈ، اور صحافیوں کی رپورٹس کو جمع کیا۔ پھر ایک ‘ضمیر کی جیوری’ قائم کی گئی، جس میں دنیا بھر کی معتبر شخصیات شامل تھیں۔
اس جیوری نے لندن اور بوسنیا اور ہرزگونیا کے دارالحکومت سراجیوو میں ایک سال تک سماعتیں کیں۔ آخری سماعت ایک ہفتہ تک حال ہی میں استبول میں منعقد ہوئی۔
سماعت کے دوران جب جب اسرائیل کی طرف سے عائد جبری بھکمری پر گفتگو ہوئی تو ہال میں کچھ آنکھیں جیسے پتھر ہو گئیں۔ ایک گواہ نے بتایا کہ غزہ میں ایسے لوگ ہیں جو ایک ماہ تک صرف پانی اور آٹے کی دھول پر زندہ رہے۔ ایک ماہر نے شہادت دی کہ مٹی میں ایسے زہریلے کیمیکل پائے گئے جو آئندہ نسلوں کے لیے بھی موت کا پیغام ہیں۔ گھروں کی تباہی پر ایک فلسطینی نوجوان نے کہا؛
’ہم گھر دوبارہ بنا لیں گے، مگر جن یادوں کا ملبہ بنا دیا گیا ہے، انہیں کون اٹھائے گا؟ ‘
ان گواہیوں کے بیچ میں وٹنیس آئی نامی ایک صحافتی منصوبے نے بتایا کہ وہ کیسے میٹا ڈیٹا کو محفوظ رکھتے ہیں تاکہ ریکارڈ کسی ڈیجیٹل حملہ سے محفوظ رہے۔
ترک انسانی حقوق تنظیم مظلوم دیر نے اپنی فیلڈ رپورٹس پیش کیں اور یاد دلایا کہ ’عینی شہادت مستقبل کی عدالت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔‘
یہ ٹریبونل اخلاقی ہی سہی ، مگر اس کے سامنے پیش کئی گئی شہادتیں چونکہ عدالتی کاروائی اور جانچ پڑتال کے عمل سے گزر گئیں، اس لیے ان کو مستقبل کی کسی فوجداری عدالت کےلیے محفوظ رکھا جائےگا۔
ہال میں ہر جگہ تاریخ اپنے آپ کو لکھ رہی تھی۔ دیوار پر جو میموریل لگا تھا اس پر ان استادوں اور صحافیوں کے نام درج تھے جو اکتوبر 2023 سے قتل ہوئے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے آخری لمحے تک سچ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی، اور جن کی موت بھی سچ کے ریکارڈ کا حصہ بن گئی۔
اسی دوران عالمی شخصیات بھی گواہی کے کمرے میں داخل ہوئیں، مگر بطور مشہور شخص نہیں،بلکہ ضمیر کے گواہ کی آواز بن کر وہ کٹہرے میں کھڑے ہوگئے۔
ہندوستانی ادیبہ ارندھتی رائے نے ویڈیو لنک کے ذریعے کہا؛
’غزہ وہ نسل کشی ہے جو لائیو اسٹریم ہو رہی ہے۔‘
امریکی اداکارہ مارشیا کراس نے کہا؛
’ ہسپتال قبرستان بن چکے، خاندان مٹا دیے گئے جبکہ دنیا دیکھتی رہی۔‘
عالمِ دین عمر سلیمان نے کہا؛
‘ہمدردی کو استقامت میں بدلنے کا وقت ہے۔’
برطانوی نغمہ نگار اور گلوکار راجر واٹرز جب مائیک پر آئے تو ان کی آواز میں غصہ اور دکھ دونوں تھے۔ انہوں نے کہا؛
’خاموشی ظلم کی شریکِ جرم ہے۔‘
یہ وہ جملہ تھا جس پر ہال میں دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔
سماعتوں کے دوران ہال کے اندر ایک عجیب سا تضاد تھا۔باہر استنبول کی رونقیں، لوگوں کی آمد و رفت، ٹرام کی گھنٹی، گلیوں میں بہتی ہوئی زندگی؛ اور اندر ایک ایسی خاموشی جس میں لفظ ہی آواز تھے، لفظ ہی چیخ تھے، لفظ ہی ماتم۔

فوٹو؛ غزہ ٹریبونل
ہال کے پیچھے چھوٹے شیشے کے کمروں میں مترجم مسلسل پانچ زبانوں میں ترجمہ کرتے رہے۔ کبھی ترکی سے عربی، کبھی بوسنیائی سے انگریزی، کبھی انگریزی سے فرانسیسی۔ یہ ترجمے صرف الفاظ نہیں پہنچا رہے تھے، یہ دکھ کا بار ایک دل سے دوسرے دل تک اُٹھا رہے تھے۔
شرکت کرنے والے لوگ آتے جاتے رہے مگر ہال خالی نہ ہوا۔ کوئی طالبعلم اپنی نوٹ بک کھولے بیٹھا تھا جیسے کوئی تاریخی جملہ لکھنا چاہتا ہو، کوئی بزرگ اپنی لاٹھی کے سہارے خاموش بیٹھا ہلکی ہلکی سانس لے رہا تھا، اور کچھ ایسی مائیں تھیں جو شاید اپنے بچوں کے چہروں کو یاد کرکے یہاں بیٹھی تھیں۔
گواہیاں جب تیز لہجے میں سنا دی جاتیں تو ہال پر گھٹا ٹوپ سکوت چھا جاتا۔ لیکن جب یکجہتی کی آواز بلند ہوتی تو وہی ہال تالیوں سے بھر جاتا۔ انسان کبھی خاموشی میں مضبوط ہوتا ہے، کبھی شور میں۔ یہاں دونوں ایک ساتھ چل رہے تھے۔
وقفوں میں لوگ صحن میں نکلتے جہاں ترکش چائے کی ابلتی ہوئے کیتلی سے بخارات اٹھ رہے ہوتے۔ وہاں ایک لمبا سا بینر لٹکا تھا؛
’ضمیر بھی مزاحمت ہے۔‘
اور عجیب بات ہے کہ یہ جملہ اس لمحے ہر شخص کی آنکھوں میں لکھا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ وہ طالبعلم جس کی آنکھوں میں پہلی بار نسل کشی کی حقیقی معنویت اتر رہی تھی، وہ بوڑھی بوسنیائی خاتون جو اپنے سراجیوو کے زخموں کو پالتی آئی تھی، وہ ترک استاد جو دیوارِ امید پر اپنے شاگردوں کے لیے کچھ لکھ رہی تھی۔ سب کے اندر ‘ضمیر’ ایک زندہ شعور کی طرح دھڑک رہا تھا۔
اسی وقفے میں ایک بوسنیائی خاتون نے رپورٹرز سے کہا؛
’یہ سماعت مجھے سراجیوو کی بو اور خاموشی یاد دلا رہی ہے۔ ہم نے وہاں بھی یہی سنا تھاکہ یادداشت ہی طاقت ہے اور مزاحمت کا ہتھیار بھی ہے۔‘
جو لوگ جسمانی طور پر اس ہال میں نہیں پہنچ سکے تھے، ان کی آوازیں بھی در و دیوار میں گونج رہی تھیں۔ غزہ کے ڈاکٹروں اور صحافیوں کی ویڈیو گواہیاں۔کبھی کمزور انٹرنیٹ کے باعث کٹتی ہوئی، کبھی پس منظر میں ملبے کی چیخیں سنائی دیتیں۔
ایک سرجن نے اپنے ان ساتھیوں کے نام پڑھے جو آپریشن کرتے ہوئے مارے گئے۔ ایک استاد نے اپنی کلاس کے آخری بچے کا حاضری رجسٹر اٹھا کر دکھایا۔ اور جب اس نے کہا کہ ’ یہ سب میرے بچوں کے نام ہیں‘، تو ہال پر ایسا سناٹا اترا جیسے ہر شخص نے اپنے دل کا بوجھ زمین پر رکھ دیا ہو۔
یہ سب کچھ صرف جذبات نہیں تھے۔ اس کے پیچھے ایک مضبوط علمی و عملی ڈھانچہ تھا۔ ٹریبونل نے مخصوص ورکشاپس بھی رکھی تھیں جہاں لوگوں کو سکھایا گیا کہ گواہی لینے کے آداب کیا ہیں، جنگ کے دوران میٹا ڈیٹا کیسے محفوظ رکھا جاتا ہے، کس طرح تصویری ریکارڈ کو قانونی شہادت میں بدلا جاتا ہے، اور بین الاقوامی قانون کے تحت نسل کشی کی تعریف اور اس کے اصول کیا ہیں۔
ایک تربیت کار نے کہا؛
’ ہم صرف نسل کشی کو ریکارڈ نہیں کر رہے، ہم مستقبل کی عدالت کے لیے بنیاد تیار کر رہے ہیں۔‘
یہ جملہ سن کر لگتا تھا کہ شاید دنیا کا اجتماعی حافظہ بھی اتنا ہی کمزور ہو چکا ہے جتنا انسانی بدن، جہاں ایک جھٹکے سے یادیں گرجاتی ہیں۔ لیکن اس ٹریبونل نے جیسے حافظے کو مضبوط کرنے کا عہد کیا تھا۔
پھر وہ لمحہ آیا جس کے لیے استنبول کی یہ نشست بلائی گئی تھی۔ ہال میں گہری خاموشی تھی۔ مترجم رکے ہوئے تھے، کیمرے تیار تھے، اور لوگوں کے چہروں پر جیسے کوئی مقدس انتظار لکھا تھا۔جیوری کی سربراہ لندن اسکول آف اکانومکس کی عالمی شہرت یافتہ پروفیسر کرسٹین چنکن نے ٹریبونل کا فیصلہ پڑھناشروع کیا۔ انہوں نے ان الفاظ سے شروع کیا؛
’ جب قانون طاقت سے دب جائے،تو ضمیر آخری عدالت بن جاتا ہے۔‘
اس ایک جملے نے ہال میں وہ شدت بھر دی جسے بیان کرنے کے لیے الفاظ کم پڑ جائیں۔ فیصلہ پڑھا گیا کہ عالمی ضابطوں کی بنیاد پر، سینکڑوں گواہیوں، رپورٹوں، شواہد، اور بین الاقوامی قانون کے مطابق اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا مرتکب ہوا ہے۔
Throughout the Gaza Tribunal Final Hearings, numerous conferences, book signings, thematic discussions, music performances, and many other cultural, artistic, activist, and academic events were held, featuring many distinguished guests.#GazaTribunal pic.twitter.com/azaqIg3zgc
— Gaza Tribunal (@gazatribunal) November 7, 2025
فیصلے کے الفاظ نہ جذباتی تھے، نہ غصے سے بھرے ہوئے۔ وہ بالکل سخت، بالکل واضح، اور بالکل ٹھوس تھے۔ جیسے کسی پتھر پر لکھی ہوئی تحریر۔ جیوری نے کہا کہ یہ نسل کشی مخصوص طریقوں سے کی گئی۔
بڑی تعداد میں قتل، غذائی وسائل کی تباہی، ماؤں اور بچوں کو نشانہ بنانا، گھروں اور انفراسٹرکچر کو مٹانا، تعلیم کو تباہ کرنا، صحافیوں کو قتل کرنا، صحت کے نظام کو ختم کرنا، اور سیاسی قیادت کو دبانا۔
فیصلے میں آٹھ قسم کے مخصوص جرائم کی نشاندہی کی گئی—قحط کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا۔گھروں کو منظم طریقے سے تباہ کرنا۔زمین اور پانی کو زہر آلود کرنا۔ماں اور بچے کی صحت پر حملہ۔تعلیمی نظام پر ضرب۔صحافیوں پر حملے۔جنسی تشدد۔اور قیادت کے خاتمے کی کوشش۔
جیوری نے کہا کہ یہ سب واقعات’ایک منظم اور مربوط نسل کشی کی معماریاں’ہیں، جن کا مقصد ایک قوم کی زندگی کی بنیادوں کو گرادینا ہے۔
فیصلے کا دوسرا حصہ عالمی طاقتوں کے کردار پر تھا۔ جیوری نے کھلے الفاظ میں امریکہ اور مغربی حکومتوں کو’مادی اور اخلاقی شریکِ جرم’ قرار دیا۔ کہا گیا کہ اسلحہ، ٹکنالوجی، ڈپلومیسی، میڈیا کے بیانیے، اقتصادی سرمایہ کاری، یہ سب اس ظلم کو جاری رکھنے میں براہ راست کردار ادا کر رہے ہیں۔
اسے ‘سیاسی معیشتِ نسل کشی’ کہا گیا۔ ایک ایسا لفظ جس میں بہت کچھ چھپا ہوا ہے۔سلامتی کونسل کی مفلوجی کو بھی اس فیصلے میں بے نقاب کیا گیا۔اور پھر جیوری کی سربراہ نے فیصلہ میں ایک کرارا جملہ ادا کیا۔ ’ جب عالمی نظام غزہ کو نہ روک پائے،تو وہ دنیا میں کہیں بھی ظلم روکنے کے قابل نہیں رہتا۔‘
جیوری کے فیصلہ کے بعد معمر امریکی پروفیسر اور اقوام متحدہ کے ایک سابق مشیر رچرڈ فالک نے اپنے خطاب میں’امن کے عمل’ کو ‘نوآبادیاتی مکاری’ کہا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسا سفارتی ڈھانچہ ہے جو ظالم کی زبان میں لکھا جاتا ہے اور جس میں مظلوم کی آواز غائب ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کی لڑائی زمین کی لڑائی نہیں بلکہ ‘جواز’کی لڑائی ہے۔ ایک ریاست قانون کو مٹانے کی کوشش کر رہی ہے، اور ایک قوم اپنی شناخت، اپنے نام اور اپنے حق کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
فیصلے کے بعد جب سفارشات پڑھ کر سنائی گئیں تو ایسا لگا جیسے یہ محض اجلاس نہیں، ایک عالمی تحریک کا آغاز ہے۔ سفارشات میں بتایا گیا کہ وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 377-اے، جسے ‘متحد ہو کر امن قائم کرو’‘ کی قرارداد بھی کہا جاتا ہے، کو نافذ کروایا جائے۔
یہ قرارداد جو 1950 کی دہائی میں امریکی ایما پر جنگ کوریا کو رکوانے کےلیے پاس کی گئی تھی یہ اصول طے کرتی ہے کہ اگر سلامتی کونسل اپنے پانچ مستقل اراکین کے باہمی عدم اتفاق کے باعث بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے درکار اقدام کرنے میں ناکام ہو جائے، تو جنرل اسمبلی اس معاملے کو فوراً زیر غور لائے گی۔
یہ قرارداد جنرل اسمبلی کو اختیار دیتی ہے کہ وہ رکن ممالک کے لیے ایسے اجتماعی اقدامات کی سفارش کرے جو عالمی امن کے قیام یا بحالی کے لیے ضروری ہوں، اور ان سفارشات میں ضرورت پڑنے پر طاقت کے استعمال کی اجازت بھی شامل ہو سکتی ہے۔
سفارشات میں اسرائیل کی بین الاقوامی اداروں سے معطلی، جنگی سرمایہ کاری سے انخلا، تعلیمی اداروں میں آگاہی، عدالتوں کو ریکارڈ بھیجنا، یونیورسٹیوں میں بریفنگ، ٹریڈ یونینوں کی شمولیت، عوامی سماعتوں کو جاری رکھنا شامل تھے۔ یعنی وہ سبھی اقدامات ہیں جو اس فیصلہ اور غزہ کے درد کو زندہ رکھیں گے۔
اسی دوران یہ بات بھی بار بار کہی گئی کہ یہ جدوجہد کسی مذہب کے خلاف نہیں۔ یہودیوں کے خلاف بھی نہیں۔ یہ صہیونیت کے سیاسی ڈھانچے کے خلاف ہے جو نسل پرستی کو اصول بنا چکا ہے۔
سیشن کے اختتام میں ہال ایک لمحے کو بالکل جامد ہو گیا۔ پھر تالیاں بجنے لگیں۔ کچھ لوگ دھیرے دھیرے رونے لگے۔ ایک کونے سے دوسرے تک ہچکیاں سنائی دے رہی تھیں۔ چند افراد نعرے لگا کر غم کا اظہار کر رہے تھے۔
کچھ ایک دوسرے کو ایسے دیکھتے جیسے وہ ایک بڑی ذمہ داری لے کر جا رہے ہوں۔ باہر صحن میں بچے، بوڑھے، اساتذہ، طلبہ سب ملے جلے چہروں کے ساتھ کھڑے تھے۔
ایک بچے نے ‘دیوارِ امید’ پر پتنگ بنائی اور لکھا؛ ‘ثبات’۔
ایک ترک استاد نے لکھا؛’میں یہ فیصلہ اپنی کلاس میں پڑھاؤں گی۔’
ایک نوجوان انگریز ڈاکٹر نے کہا؛’میں غزہ کے لیے رضاکارانہ مشن پر جانا چاہتا ہوں۔‘
قریب ہی ایک اسکرین پر رچرڈ فالک کے وہ الفاظ گردش کر رہے تھے؛
’جائز فتح وہی پاتا ہے جو سچ کو صبر سے تھامے رکھتا ہے۔ ‘
یہ جملہ یوں لگتا تھا جیسے ہال کی چھت سے اتر کر ہر شخص کے دل میں جگہ بنا چکا ہو۔آخر میں جب لوگ جانے لگے تو ایک فلسطینی طالبعلم نے کہا؛
’یہ کوئی ٹریبونل نہیں تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں دنیا نے پہلی بار سننے کی کوشش کی۔‘
Throughout the Gaza Tribunal Final Hearings, numerous conferences, book signings, thematic discussions, music performances, and many other cultural, artistic, activist, and academic events were held, featuring many distinguished guests.#GazaTribunal pic.twitter.com/V8jsIapdUS
— Gaza Tribunal (@gazatribunal) November 12, 2025
اور شاید یہی وہ فتح تھی جو اس ٹریبونل نے حاصل کی۔ اس نے دنیا کی توجہ کو خاموشی کی گہری دلدل سے نکال کر سچ کے کنارے کھڑا کر دیا۔
چلتے چلتے میں نے سنا،ہال کے در و دیوار جیسے کہہ رہے ہوں؛
’خاموشی غیر جانبدار نہیں ہوتی۔ خاموشی شریکِ جرم ہوتی ہے۔ ‘
شام ہو چکی تھی مگر اونچی محرابوں میں اٹکی چاندنی اور باہر صحن میں آبنائے باسفورس اور بحیرہ مارمرہ کی نمی نے مل کر اس جگہ کو ایک ایسے منظر میں ڈھال دیا تھا جوبتارہا تھا کہ انسان جب بڑے دکھ سہتا ہے تو ایسی ہی جگہیں جنم لیتی ہیں، جہاں آوازوں کے پہریدار نہیں ہوتے بلکہ یادوں کے محافظ بیٹھے ہوتے ہیں۔
اگر دنیا کی عدالتیں نہیں بولتیں تو لوگ خود اپنی عدالت قائم کرتے ہیں۔ انہی احساسات کے ساتھ استنبول کا سفر تمام ہو اور میں واپس انقرہ کی طرف روانہ ہوگیا۔