غزہ: اسپتال پر اسرائیلی حملے میں 500 افراد ہلاک، اسرائیل نے ’مس فائر‘ فلسطینی راکٹ کو مورد الزام ٹھہرایا

بتایا گیا ہے کہ اسپتال میں مرنے والوں کی تعداد میں مزید اضافے کا اندیشہ ہے۔ 1982 میں لبنان کے صابرہ اور شتیلا میں اسرائیلی فوج اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں قتل عام کے بعد کسی ایک واقعے میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔

بتایا گیا ہے کہ اسپتال میں مرنے والوں کی تعداد میں مزید اضافے کا اندیشہ ہے۔ 1982 میں لبنان کے صابرہ اور شتیلا میں اسرائیلی فوج اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں قتل عام کے بعد کسی ایک واقعے میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔

فضائی حملے کے بعد غزہ کا ہسپتال۔ (تصویر بہ شکریہ:ایکس /@Birzeit University)

فضائی حملے کے بعد غزہ کا ہسپتال۔ (تصویر بہ شکریہ:ایکس /@Birzeit University)

نئی دہلی: فلسطین کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ منگل کی رات غزہ  پٹی میں ایک اسپتال پر اسرائیلی فضائی حملے میں کم از کم 500 فلسطینی ہلاک ہوگئے۔

سوشل میڈیا پر سامنے آئے ایک ویڈیو فوٹیج میں غزہ شہر کے الاہلی ہسپتال میں بم گرنے کے بعد آگ کے شعلے بلند ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

بتایا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں غزہ کے سینکڑوں رہائشی بھی شامل ہیں، جنہوں نے غزہ  پٹی پر اسرائیلی بمباری سے بچنے کے لیے ہسپتال کے احاطے میں پناہ حاصل کی تھی کیونکہ اسرائیلی ڈیفنس فورس (آئی ڈی  ایف)  حماس کے زیر کنٹرول فلسطینی علاقے پر زمینی کارروائی شروع کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ اسرائیل نے وادی غزہ کے شمال میں غزہ پٹی کو پوری طرح سے خالی کرنے کا حکم دیتے ہوئے شمالی غزہ کے تمام 22 اسپتالوں کو نوٹس دے دیا تھا۔ گزشتہ ہفتے جاری ہونے والے اس انتباہ کو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ‘مریضوں اور زخمی افراد کے لیےسزائے موت ‘ کہا تھا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ‘شمالی غزہ میں بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد اسپتالوں میں یا اس کے آس پاس کی کھلی جگہوں پر پناہ لے رہے ہیں، جو نہ صرف تشدد سے محفوظ مقامات تصور کیے جاتے ہیں، بلکہ ان تنصیبات کو ممکنہ حملوں سے بچانے کی ایک کوشش بھی ہے۔ اگر صحت کی سہولیات پر بمباری کی گئی تو ان کی جان بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔

اسرائیل نے اسلامی جہاد کو مورد الزام ٹھہرایا، فوج کے ‘ڈیجیٹل وار’ یونٹ نے لی تھی دھماکے کی ذمہ داری

جیسے ہی منگل کی رات کے فضائی حملے سے ہونے والے خوفناک نقصان کے بارے میں معلومات سامنے آئیں،اسرائیلی فوجی ترجمان نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ یہ واضح نہیں ہےکہ ہسپتال پر بمباری کس نے کی تھی۔ ہارتز نے ان کے حوالے سے کہا، ‘ہم معلومات اکٹھی کرکے عوام کو اپ ڈیٹ کریں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ اسرائیلی فضائی حملہ تھا یا نہیں۔’

اس کے فوراً بعدآئی ڈی ایف نے باضابطہ طور پر’متعددانٹلی جنس ذرائع’ کا حوالہ دیتے ہوئے فلسطینی اسلامی جہاد کو مورد الزام ٹھہرایا، جس کے لیے اس نے دعویٰ کیا کہ یہ ‘اسپتال پر گرنے والا ایک ناکام راکٹ لانچ تھا’۔ ادھر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ٹوئٹ کیا کہ’غزہ میں ‘ وحشی دہشت گردوں نے ہسپتال پر حملہ کیا تھا، آئی ڈی ایف پر نہیں۔’

غور طلب ہے کہ اب تک اسرائیل پر داغے گئے کسی بھی فلسطینی راکٹ سے اتنی تباہی یا اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں نہیں ہوئیں جتنی غزہ کے اسپتال میں ہوئی ہیں۔

غزہ میں بی بی سی کے نامہ نگار نے بتایاہے کہ دھماکے کی شدت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ اسرائیلی فضائی حملے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ حماس کے راکٹوں نے کبھی اس پیمانے کے دھماکے نہیں کیے ہیں۔

دراصل، ہسپتال پر حملے کے فوراً بعد کیے گئے ایک ٹوئٹ میں، اسرائیلی فوج کی ‘ڈیجیٹل وار’ ٹیم میں کام کرنے والے ایک معروف سوشل میڈیا انفلوئنسرنے بمباری کو اسپتال کے اندر ‘حماس کے دہشت گرد اڈے’ کے خلاف اسرائیلی فضائیہ کی جانب سےایک کامیاب حملہ قرار دیاتھا’۔تاہم، ٹوئٹ کو تھوڑی دیر بعد ڈیلیٹ کر دیا گیا، غالباً ہلاکتوں کے پیمانے کو دیکھتے ہوئے۔

Hananta-Naftali-Tweet

جبکہ سرکاری اسرائیلی بیانیہ میں اس واقعے کو ‘مس فائر’ہوئے فلسطینی راکٹ کو اس واقعے کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے، تو اسرائیلی حکومت کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل نے ایک ویڈیو فوٹیج کے ساتھ ٹوئٹ کیا ہے جس میں مبینہ طور پر اسلامی جہاد کے راکٹ کو مس  فائر ہوتے دکھایا گیاتھا۔

لیکن پھر اس ٹوئٹ کوہٹادیا گیا اور ویڈیو کے بغیر دوبارہ پوسٹ کیا گیا، شاید اس لیے کہ فلسطینی راکٹ لانچ کیے جانے کے ویڈیو پر ٹائم اسٹیمپ ہسپتال پر بمباری کے تقریباً 30 منٹ بعد تھا؛

ٹائمز آف اسرائیل نے تصدیق کی ہےکہ ٹوئٹ کو’ویڈیو کو ہٹانے کے ارادے سے ایڈٹ کیا گیا تھا کیونکہ کچھ لوگوں نے نشاندہی کی تھی کہ دکھایا گیا وقت ہسپتال کے دھماکے کے 40 منٹ بعد کا تھا اور ایک ویڈیو میں توآنے والے دنوں کی ایک  تاریخ لکھی تھی۔

جبکہ اسرائیل اب اس بات سے انکار کر رہا ہے کہ اس نے الاہلی ہسپتال کو نشانہ بنایا ہے، کینٹربری کے آرچ بشپ کے ایک بیان کے مطابق، 14 اکتوبر کو اینگلیکن سے چلنے والی تنصیب پر اسرائیلی راکٹ حملے میں چار افراد زخمی ہو گئے تھے۔

عرب ممالک، ڈبلیو ایچ او، ایم ایس ایف نے بم دھماکے کی مذمت کی

سعودی عرب، لبنان اور متحدہ عرب امارات جیسے عرب ممالک کے ساتھ ساتھ ڈبلیو ایچ او نے فوری طور پر اس بم دھماکے کی مذمت کی ہے۔

اقوام متحدہ کی ایجنسی نے ایک بیان میں کہا، ‘ڈبلیو ایچ او غزہ پٹی کے شمال میں الاہلی عرب اسپتال پر حملے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ ہسپتال کام کاج ہو رہا تھا، جہاں مریض، صحت اور نگہداشت کے کارکنان، اور اندرونی طور پر بے گھر افراد پناہ لے رہے تھے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق سینکڑوں افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ جس ہسپتال کو حملے کا نشانہ بنایا گیا وہ غزہ  پٹی کے شمال میں واقع ان 20 ہسپتالوں میں سے ایک تھا جنہیں اسرائیلی فوج نے وہاں سے نکل جانے کی ہدایت کی تھی۔ تاہم، موجودہ عدم تحفظ، بہت سے مریضوں کی نازک حالت اور ایمبولینسز، عملہ، صحت کے مناسب نظام، بستروں کی گنجائش اور بے گھر افراد کے لیے متبادل پناہ گاہ کی کمی کے پیش نظر، اس طرح کی ہدایت پر عمل کرنا ناممکن تھا۔

ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ یہ ‘شہریوں کے فوری تحفظ اور صحت کی دیکھ بھال کا مطالبہ کرتا ہے’۔ علاقہ چھوڑنے کا حکم واپس لیا جانا چاہیے۔ بین الاقوامی انسانی قانون کی پیروی کی جانی چاہیے، جس کا مطلب ہے کہ صحت کی خدمات کو فعال طور پر محفوظ کیا جانا چاہیے اور انہیں کبھی نشانہ نہ بنایا جائے۔

صحت کے شعبے میں کام کرنے والے ایک سرکردہ بین الاقوامی این جی او ایم ایس ایف نے کہا ،’ غزہ شہر میں ہسپتال، جو مریضوں کا علاج کر رہا تھا اور غزہ کے بے گھر لوگوں  کی دیکھ بھال کر رہا تھا، پر حالیہ اسرائیلی بمباری سے وہ  خوفزدہ ہے۔ یہ نسل کشی ہے۔ یہ پوری طرح سے ناقابل قبول ہے۔

بدھ کی رات ہونے والے بم دھماکے کی زد میں آنے والے الاہلی اسپتال کے ڈاکٹروں نے ایک پریس کانفرنس کی تھی؛

بتایا جا رہا ہے کہ ہسپتال میں مرنے والوں کی تعداد میں مزید اضافے کا اندیشہ ہے۔ لبنان کے صابرہ اور شتیلا میں 1982 میں اسرائیلی افواج اور اس کے پھلانگی اتحادیوں کے قتل عام کے بعد کسی ایک واقعے میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق، 10 لاکھ سے زیادہ فلسطینی- غزہ کی آبادی کا تقریباً نصف – اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں اور 400000 سے زیادہ بے گھر ہوئے ہیں جو جنوبی علاقے  میں اسکولوں اور دیگر مقامات پت پہنچے ہیں۔ اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کا کہنا ہے کہ غزہ میں اس کے ہر عملے کے لیے اب بھی دن کے لحاظ سےصرف 1 لیٹر پانی ہے۔

بائیڈن کے ساتھ عرب رہنماؤں کی ملاقات منسوخ

دریں اثنا ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق، غزہ شہر میں ہسپتال میں ہونے والے دھماکے میں سینکڑوں افراد کی ہلاکت کے بعد عرب رہنماؤں نے اردن کے دارالحکومت عمان میں امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ اپنی مجوزہ ملاقات کو منسوخ کر دیا ہے۔

اردن کے شاہ عبداللہ سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے والے تھے، جس میں محصور غزہ کی پٹی میں شہریوں کو انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے پر بات چیت ہونی تھی۔ اس میں مصری صدر عبدالفتاح السیسی اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس بھی شرکت کرنے والے تھے۔

اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ عمان میں علاقائی رہنماؤں اور امریکی صدر کے درمیان سربراہی اجلاس اب ایک ایسے وقت ہوگا جب فریقین فلسطینیوں کے خلاف جنگ اور قتل عام کے خاتمے پر متفق ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ ”خطے کو دہانے پر دھکیل رہی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ اردن سربراہی اجلاس اس وقت منعقد کرے گا جب سب اس بات پر متفق ہوں گے کہ اس کا مقصد ”جنگ کو روکنا، فلسطینیوں کی انسانیت کا احترام کرنا اور وہ امداد فراہم کرنا ہے، جس کے وہ مستحق ہیں۔”

حملے کے خلاف زبردست مظاہرے

ڈی ڈبلیو نے رپورٹ کیا ہے کہ، اسرائیلی حملوں کے خلاف فلسطینیوں نے منگل کی رات مغربی کنارے کے کئی شہروں کی سڑکوں پر زبردست احتجاج کے دوران پتھراؤ کیا اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے خلاف نعرے بازی کی۔ سیکورٹی فورسز نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور اسٹن گرینیڈ فائر کیے۔

ہسپتال پر ہونے والے حملے سے مشتعل مظاہرین لبنان کے دارالحکومت بیروت میں امریکی سفارت خانے کے باہر جمع ہوئے، جہاں آگ زنی کے واقعات پیش آئے۔ ایک اور گروپ فرانسیسی سفارت خانے کے باہر جمع ہوا اور مبینہ طور پر عمارت پر پتھراؤ کیا۔

لبنان کے حزب اللہ عسکریت پسند گروپ نے مسلمانوں اور عربوں سے ”شدید غصے کا اظہار کرنے کے لیے فوری طور پر سڑکوں اور چوراہوں پر نکل آنے” کا مطالبہ کیا۔

طرابلس اور لیبیا کے دیگر شہروں میں بھی سینکڑوں افراد فلسطینی پرچم اٹھائے جمع ہوئے اور غزہ والوں کی حمایت میں نعرے لگائے۔

ایران کے دارالحکومت تہران میں برطانوی اور فرانسیسی سفارت خانوں کے ساتھ ہی ترکی اور اردن میں اسرائیلی سفارت خانوں کے باہر بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔