کیا حکومت کی جانب سے دانشوروں کو پالتو بنائے رکھنے کی جد و جہد یا دانش گاہوں میں انٹلی جنس بیورو کو بھیجنے کی ان کی حماقت ان کی بڑھتی ہوئی بدحواسی کا ثبوت ہے، یا ان کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ ہندوستان ایک بڑی عوامی تحریک کی دہلیز پر بیٹھا ہے۔
اشوکا یونیورسٹی کیمپس۔ (فائل فوٹو: انیرودھ ایس کے/دی وائر)
‘So you are the little woman who wrote the book that made this great (American) civil war’
(‘تو تم ہو وہ خاتون جس نےوہ کتاب لکھی، جس نے اس عظیم (امریکی) خانہ جنگی کو ممکن بنایا’)
[غلامی کی روایت کے خاتمے کے لیےشروع کی گئی خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد اس وقت کے امریکی صدر ابراہم لنکن کی جانب سے غلامی کی روایت کے خلاف لکھے گئے ناول ‘انکل ٹامز کیبن’ (1852) کی رائٹر ہیریئٹ بیچر اسٹو سے ملاقات پر کہے گئے الفاظ۔]
مصنفوں، فنکاروں، دانشوروں وغیرہ کی جانب سے حکمراں ہمیشہ ہی فکر مند ر ہے ہیں۔ مثال کے طور پر، انقلاب سے پہلے کے فرانس کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہاں کی بادشاہت نے اپنے پولیس محکمے کو اپنے عہد کے اہم مصنفوں اور فنکاروں کی جاسوسی کرتے رہنے کی ہدایت کی تھی۔ ہم 18ویں صدی کے پولیس محکمے کے ملازمین کی مشکلات کو سمجھ سکتے ہیں جنہیں ‘خونخوار مجرموں اور سیاسی شخصیات’ کے علاوہ مصنفین، فنکاروں پر اپنی فائلیں رکھنا پڑتی تھیں۔ (دی اسٹیٹس مین، ہندوستان ٹائمز، نئی دہلی، 26 ستمبر 2006)
یہاں بتاتے چلیں کہ اس جاسوسی کی منظم تفصیل مسٹر برونو فلگینی کی کتاب میں ملتی ہے، جس کا عنوان ہے’رائٹرز پولیس’- دراصل فرانسیسی پارلیامنٹ کے اس ملازم کو یہ ذمہ داری ملی تھی کہ وہ پارلیامنٹ لائبریری کے پرانے دستاویز کھنگالے اور اس انتہائی بورنگ کام کے دوران اسےیہ ‘خزانہ’ ہاتھ آیا تھا۔
اگر ہم اپنےیہاں دیکھیں تو موجودہ حکمرانوں کا رویہ اس معاملے میں کچھ مختلف نظر نہیں آتا، بلکہ وہ کبھی کبھی ڈھائی سو صدی سے پہلے کے فرانسیسی بادشاہوں سے ایک قدم آگے ہی نظر آتے ہیں۔
فرانس کی راج شاہی میں بیٹھے ہوئے لوگ – جن کو یقیناً اس وقت یہ گمان نہیں رہا ہوگا کہ چند دہائیوں کے اندر ان کا پورا شیرازہ بکھرنے والا ہے اور ایک عوامی بغاوت کے ذریعے ان کواقتدار سے بے دخل کرجائے گا – دراصل وہ اس بات کےحوالے سے خاصے محتاط تھے کہ انہوں نے اپنے ملازمین کو یہ بھی ہدایت کر رکھی تھی کہ وہ اپنی سرگرمیوں میں زیادہ نرمی اختیار کریں اور ان قلمکاروں، فنکاروں اور دانشوروں کوغیر ضروری طور پر ہراساں نہ کریں، جس ‘نیو انڈیا’ میں ہمارے پہنچنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں ،اس کے سفیروں نے تو اس عاجزی سےگویابہت پہلے توبہ کر لی ہے۔
کچھ عرصہ قبل پارلیامنٹ کے اجلاس میں ٹرانسپورٹ، سیاحت اور ثقافت کی پارلیامانی کمیٹی نے پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپنی
رپورٹ پیش کی تھی، جس میں مستقبل میں ‘ایوارڈ واپسی’ جیسے کسی واقعے سے سرکار کونہ گزرنا پڑا،اس کی بات کی گئی تھی اور یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ مستقبل میں ممکنہ ایوارڈ حاصل کرنے والوں سےباقاعدہ یہ
انڈرٹیکنگ لی جا سکتی ہے، یعنی یہ لکھوایا جا سکتا ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی واقعہ کے خلاف احتجاجاً اپنا ایوارڈ واپس نہیں کریں گے۔
یاد کیا جاسکتا ہے کہ سال 2015 میں کنڑ اسکالر پروفیسر کلبرگی کے قتل کے خلاف مختلف زبانوں میں سرگرم 39 ادیبوں اور تخلیق کاروں نے اپنے ایوارڈ حکومت کو واپس کیے تھے۔ جہاں ہندی کے ادیب اور شاعر اُدے پرکاش نے اس کی شروعات کی تھی، وہیں بعد میں اس میں مختلف زبانوں کے کئی مشہور نام جیسے نین تارا سہگل، اشوک واجپائی، منگلیش ڈبرال جیسے کئی بڑے نام شامل ہوئے تھے۔ ایک طرح سے کہیں کہ اس واقعہ کی وجہ سے مودی سرکار کو نہ صرف ملک کے اندر بلکہ باہر بھی کئی ناخوشگوار لمحات کا سامنا کرنا پڑا تھا، یعنی ‘بدنامی’ جھیلنی پڑی تھی، جب دنیا کے بڑے اخبارات نے اس معاملے کو نمایاں طور پر شائع کیا تھا۔
غور طلب ہے کہ پارلیامانی کمیٹی کی ان سفارشات – جو کسی بھی آزاد مزاج قلمکار، تخلیق کار کے لیے انتہائی ذلت آمیز ہیں – کے حوالے سےملک میں چرچہ شروع ہی ہوئی تھی کہ حکومت کی خدمت میں حاضر محکمہ جاسوس کا ایک کارنامہ سرخیوں میں آ گیا ہے۔
پتہ چلاکہ چند روز قبل انٹلی جنس بیورو کی ایک ٹیم نے
بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ملک کے معروف نجی ادارے اشوکا یونیورسٹی کا دروازہ کھٹکھٹایا اور وہاں کام کرنے والے ایک پروفیسر سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔
ہندوستان کی اکیڈمک دنیا میں بے مثال کہا جا سکنے والا ان کایہ کارنامہ خاموشی سے نہیں بلکہ عوام کی نظروں کے سامنے انجام دیا گیا۔ متعلقہ پروفیسر سے ان کی ملاقات کی خواہش میں بس اتنا ہی راز تھا کہ شعبہ معاشیات کے اس سابق پروفیسر سبیہ ساچی داس کا ایک
تحقیقی مقالہ – جو ابھی مسودہ یعنی ڈرافت کی شکل میں تھا– جس میں 2019 کے انتخابات پر روشنی ڈالی گئی تھی، اس کے نتائج نے زبردست ہنگامہ برپا کیا تھا۔
چونکہ پروفیسر داس شہر سے باہر تھے ،اس لیے انٹلی جنس بیورو کی ٹیم ان سے ملاقات نہیں کر سکی، جس کے بعد ٹیم نے خواہش ظاہر کی کہ وہ پروفیسر داس کے شعبہ کے دیگر ساتھیوں سے مسئلے پربات کرنا چاہیں گے۔ قابل غور ہے کہ ان کے ساتھیوں نے ایسی کسی بھی رسمی ملاقات سے صاف انکار کر دیا۔ انہوں نے افسران سے اپنے سوالات، اپنے تجسس کو ایک خط میں درج کرنے اور اس کے لیے ایک رسمی خط لکھنے کی بات کہی۔جب محکمہ جاسوسی کے ان افسران نےایسا کوئی رسمی خط دینے سے انکار کر دیا تو اساتذہ سے بھی ان کی ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔
کچھ ہی گھنٹوں میں ٹیم وہاں سے رخصت ہو گئی، حالانکہ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ جلد واپس آئے گی۔
§
ملک کے اکادمک ورلڈکی تاریخ میں بے مثال قرار دیے گئے اس واقعے پر زیادہ سے زیادہ بات کی جانی چاہیے، لیکن اس سے پہلے بعض اور حقائق سے واقف ہونا بھی ضروری ہے۔
تعلیمی دنیا کے کام کرنے کے طریقے یا تحقیق کی دنیاسے واقف لوگ جانتے ہیں کہ اپنے متعلقہ شعبوں کے اسکالرزاپنے ڈرافٹ پیپر— ایسی ویب سائٹ پر ڈالتے ہیں، جہاں ان کے شعبے کے لوگ یا دیگر اسکالرز اپنی آراء بھیجتے ہیں اور ان کے جوابات دینے کے بعد اسکالر اس پیپر کو عوامی اشاعت کے لیے کسی جرنل کو ارسال کرتے ہیں۔ یعنی ڈرافٹ/مسودہ ریسرچ پیپر سےمطبوعہ ریسرچ پیپر تک کا ایک سفر ہوتا ہے۔
پروفیسرسبیہ ساچی داس کے مقالے، جس کا عنوان ہے ’
ڈیموکریٹک بیک سلائیڈنگ ان دی ورلڈ لارجیسٹ ڈیموکریسی‘(دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں جمہوری پسپائی) میں ‘2019 کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے ‘ہیرا پھیری ‘ کا خدشہ ظاہر کیا تھا’ اسی نوعیت کا تھا۔
یہ الگ بات ہے کہ مسودہ منظر عام پر آتے ہی بی جے پی کی طرف سے زبردست ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا اور تعلیمی آزادی کی پرواہ کیے بغیر اشوکا یونیورسٹی کی طرف سےیہ
بیان جاری کیا گیا کہ پروفیسر داس کی تحقیق سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔آخر کار صورتحال ایسی بنی تھی کہ پروفیسر سبیہ ساچی داس نے اپنے عہدے سے
استعفیٰ دے دیا۔
غور طلب ہے کہ اس مقالےپر حکمران جماعت کی طرف سے برپا کیا گیا ہنگامہ، یونیورسٹی کی انتظامیہ کی طرف سے اچانک سجدہ ریز ہوجانا، ایسی پیش رفت تھی جس کی وجہ سے روشن خیال طبقے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی، لیکن اس بات کا اندازہ کسی کو بھی نہیں تھا کہ عام دنوں کی طرح یہ واقعہ بھی دب جائے گا یا چند اخباری مضامین تک محدود رہ جائے گا۔
چند سال قبل جب پروفیسر پرتاپ بھانو مہتہ جو یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے، نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تو کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا۔ درحقیقت پروفیسر مہتہ- جو اسی اشوکا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہونے کے ساتھ ساتھ انڈین ایکسپریس میں اپنے کالموں کے لیے بھی معروف تھے،جو حکومت کے خلاف انتہائی تنقیدی موقف پیش کرتے تھے۔
لیکن پروفیسر سبیہ ساچی داس کے استعفیٰ کے بعد اکادمک دنیا کے ردعمل نے تاریخ رقم کردی۔
عام طور پر اپنے غصہ کوجذب کرنے والی اکادمک دنیا نے ایک مختلف انداز میں فعالیت کا ثبوت دیا۔ سب سے پہلے اشوکا یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات کے
پروفیسر پلاپرے بالاکرشنن نے پروفیسر سبیہ ساچی داس کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے
استعفیٰ دے دیا۔ پروفیسر بالاکرشنن نے نہ صرف ملک اور بیرون ملک کی معروف یونیورسٹیوں جیسے کہ آکسفورڈ وغیرہ میں پڑھایا ہے بلکہ وہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن، یو این ڈی پی وغیرہ جیسے اداروں کے مشیر کے کردار بھی ادا کرتے رہے ہیں اور ان کی کئی کتابیں معروف ہیں۔
یہی نہیں، بنیادی طور پر ملک کے چار سو سے زیادہ ماہرین معاشیات نے پروفیسر داس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ایک
بیان جاری کیا اور اشوکا یونیورسٹی سے استعفیٰ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
غورطلب ہے کہ خود اشوکا یونیورسٹی کے کئی شعبہ جات نے ‘تعلیمی آزادی’ کے تحفظ کے لیے بیانات جاری کیے اور انتظامیہ سے کہا کہ وہ اس آزادی کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ محکموں کی جانب سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ پروفیسر داس اور پروفیسر بالاکرشنن کو فوری طور پر ان کے عہدوں پر بحال کریں۔
اس میں ایک اور جہت کا اضافہ یہ ہوا کہ یونیورسٹی کی
اسٹوڈنٹ پارلیامنٹ نے اس مطالبے کی حمایت کی۔ بتایا جاتا ہے کہ طالبعلموں کی جانب سے اس مطالبے کو لے کر ہڑتال پر جانے کی وارننگ بھی دی گئی۔
§
محکمہ جاسوسی کے افسران کی بغیر کسی پیشگی اطلاع کے یونیورسٹی کیمپس میں بے خوف انٹری (جسے ایک طرح سے ان کا چھاپہ بھی سمجھا جا سکتا ہے) یقیناً تشویشناک ہے۔
کیا یہ کہنا درست ہے کہ اس نجی یونیورسٹی میں انٹلی جنس بیوروکی موجودگی دراصل یونیورسٹی کو آگاہ کرنے کے لیے ہے کہ وہ ان دونوں پروفیسروں کو واپس لانے کے منصوبے کو ہمیشہ کے لیے بھول جائے – جیسا کہ کہا جا رہا ہے – اور اس طرح کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جو اس کے مستقبل کے لیے ٹھیک نہ ہو۔
یہی نہیں، یہ ایک طرح کی وارننگ بھی ہے – یونیورسٹی انتظامیہ اس بات پر بھی غور کرے کہ اگلے ماہ (ستمبر 2023) اس کے ایف سی آر اے لائسنس کی تجدید ہونے والی ہے اور مرکزی حکومت کے لیے ناقابل قبول اس کا کوئی بھی ایسا فیصلہ اس میں رکاوٹ پیدا کرے گا۔
دراصل، ایف سی آر اے لائسنس کی تجدید حکومت کے پاس ایک ایسا ہتھیار ہے کہ یہ بڑے بڑے اداروں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ صرف چند ماہ قبل سینٹر فار پالیسی ریسرچ کا ایف سی آر اے لائسنس یہ کہہ کر
منسوخ کر دیا گیا تھا کہ یہ ‘قانون کے اہتماموں کی خلاف ورزی کر رہا ہے’ اور اس کی وجہ سے اسے اپنے تمام عملے، ریسرچ اسکالرز کو ہٹانا پڑا۔
سن 1973 سے سینٹر فار پالیسی ریسرچ 21ویں صدی میں ہندوستان کو درپیش چیلنجز پر اپنی تحقیق کر رہا تھا اور اس کی شبیہ کہیں سے بھی حکومت مخالف نہیں تھی۔ حکومت کی طرف سے رسمی وجہ جو بھی بتائی گئی ہو، لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی کچھ تحقیق— کا فوکس حکومت کے قریبی سمجھے جانے والے کچھ صنعتی گھرانوں پر تھا، کےنتائج حکومت کو ناگوار گزرے تھے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ‘اشوکا یونیورسٹی’ کے معاملے میں بات کس طرح آگے بڑھتی ہے۔ کیا یہ ادارہ اپنے عزم پر قائم رہے گا یا حکام کو خوش کرنے کے لیے جھک جائے گا، یہ سمجھنا ضروری ہے۔
ویسے بات جس طرح بھی آگے بڑھے، اس پورے واقعے سے امید کی ایک چھوٹی سی کرن بھی نظر آتی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ نو سال سے زائد عرصے سے، جب سے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ-بی جے پی کی قیادت میں موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے، اس کی مسلسل کوشش ہے کہ تعلیمی دنیا پر اپنی گرفت مضبوط کی جائے۔ تعلیمی اداروں کے کیمپس جو بہت سی تحریکوں میں کی قیادت میں سرفہرست رہے ہیں ان کو اپنے کنٹرول میں لایا جائے۔
اس کے لیے ان کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ نصاب میں ریڈیکل تبدیلیاں کرنے کے علاوہ تمام تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں اہم عہدوں پر ‘ہندو راشٹر’ کی تعمیر کرنے والے خیالات کے موافق لوگوں کی بھرتی کے علاوہ پالیسی کی سطح پر بھی ریڈیکل تبدیلیاں کرنے کے ارادے نظر آتے ہیں۔ جس طرح سے نئی تعلیمی پالیسی کو عوامی مشاورت کے بغیر نافذ کیا گیا وہ بھی تشویشناک ہے۔
معلوم ہو کہ انہی کی ہدایت پر مختلف تعلیمی اداروں میں
فوجی ٹینک بھیجنے کا
منصوبہ بنایا گیا تھا تاکہ بچوں میں ‘قوم پرستی’ کا جذبہ ابھارا جا سکے یا انہی کے طوفانی دستےجواہر لال نہرو یونیوسٹی میں طلبہ اور اساتذہ پر حملے میں نظر آئے—جن کے خلاف تمام ترشواہد کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
اشوکا یونیورسٹی کا یہ واقعہ صرف اس حقیقت کو ہی اجاگر کرتا ہے کہ حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود کیمپس میں اب بھی ہلچل زندہ ہے۔ غلط کے خلاف احتجاج اور انصاف کے لیے کھڑے ہونے کا جذبہ طلبہ اور دیگر کمیونٹی میں ابھی بخوبی زندہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبعلموں، اساتذہ اور دیگر اسکالرز جو پورے دل سے آئین ہند کے اصولوں اور اقدار پر یقین رکھتے ہیں اس میں آگے ہیں اور یہ یقیناً ایک مثبت پیش رفت ہے۔
آخر میں پھر واپس پیرس کی طرف لوٹتے ہیں جہاں سے شروعات کی تھی۔
اگر ہم ایک بار پھر ‘رائٹرز پولیس’ پر نظر ڈالیں تو تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح فرانسیسی حکومت کی طرف سے آزادانہ سوچ کے بہاؤ کو روکنے کے لیے کھڑی کی گئی تمام رکاوٹیں ایک ایک کر کے منہدم ہوئیں اور 18ویں صدی کے آخر میں فرانس کا انقلاب دنیا بھر کے فکرمند لوگوں کے لیے ایک امید بن کر سامنے آیا۔ مصنفین، فنکاروں کی نگرانی کی ان کی کوشش باستیا ضلع پر حملے کو روک نہیں سکی۔
کیا یہ کہنا مناسب ہے کہ حکومت کی جانب سے دانشوروں کو پالتو بنائے رکھنے کی کوشش یا یونیورسٹیوں میں جاسوس بھیجنے کی ان کی حماقت ان کی بڑھتی ہوئی بدحواسی کا ہی ثبوت ہے، اور ان کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ ہندوستان ایک بڑی عوامی تحریک کی دہلیز پر بیٹھا ہوا ہے۔
(سبھاش گاتاڈے بائیں بازو کے کارکن، مصنف اور مترجم ہیں۔)