انڈیا اتحاد کی کوآرڈینیشن کمیٹی کا پہلا اجلاس بدھ کو نئی دہلی میں این سی پی سربراہ شرد پوار کی رہائش گاہ پر ہوا تھا، جہاں 12 جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان ذات پر مبنی مردم شماری کے موضوع پر اتفاق رائے قائم ہو گیا۔
نئی دہلی: ‘انڈیا’ اتحاد نے اپنی کوآرڈینیشن کمیٹی کی پہلی میٹنگ میں ان نیوز اینکرز کی فہرست بنانے کا فیصلہ کیا، جن کے شوکا اتحادی جماعتیں بائیکاٹ کریں گی۔ کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے بنگلورو اور ممبئی میں کی بیٹھکوں میں اشارہ دیا تھا کہ اتحادی جماعتوں کے درمیان ‘پروپیگنڈہ’ میڈیا کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
رابطہ کمیٹی نے ممبئی کے اجلاس کے بعد تشکیل دی گئی میڈیاسب–کمیٹی کو ان ٹیلی ویژن (ٹی وی) اینکروں کے نام دینے اور بائیکاٹ کرنے کے لیے مجاز بنایا ہے، جو مبینہ طور پر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ دشمنی کا رویہ رکھتے ہیں۔
کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں شریک تمام 12 جماعتوں کی جانب سے بات کرتے ہوئے کانگریس کے جنرل سکریٹری (تنظیم) کے سی وینوگوپال نے کہا، ‘کوآرڈینیشن کمیٹی نے میڈیا سب–کمیٹی کو ان اینکروں کا نام طے کرنےکو کہاہے جن کے شو پر’انڈیا’ اتحاد کی کوئی پارٹی اپنا نمائندہ نہیں بھیجے گی۔’
اس میٹنگ میں سیٹوں کی تقسیم پر پہلے دور کی بات چیت بھی ہوئی، جس کے پیچیدہ ہونے کا امکان ہے۔ وینوگوپال نے کہا کہ ‘انڈیا’ اتحاد کی 26 جماعتوں کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کی بات چیت کو ‘جلد سے جلد’ حتمی شکل دی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اتحاد ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کا مسئلہ اٹھائے گا۔
ذات پر مبنی مردم شماری
ممبئی اجلاس میں منظور کی گئی سیاسی قرارداد میں ذات پر مبنی مردم شماری کا مسئلہ واضح طور پر ندارد تھا۔
کچھ خبروں میں ایسا ہونے کی بنیادی وجہ اس بارے میں آل انڈیا ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے غیر فیصلہ کن حالت کو بتایا گیا تھا۔ تاہم، کانگریس اور زیادہ تر جماعتیں، خاص طور پر سماج وادی پارٹی (ایس پی)، جنتا دل (یو) اور راشٹریہ جنتا دل جیسی پارٹیاں پہلے ہی ملک بھر میں ذات پر مبنی مردم شماری کرائے جانے کے حق میں مہم چلا رہی ہیں۔
گزشتہ ماہ ممبئی اجلاس سے قبل بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے کہا تھا کہ ان کے یہاں ریاستی سطح پر ذات پر مبنی مردم شماری پہلے ہی مکمل ہو چکی ہے اور حتمی رپورٹ جلد سامنے آنی چاہیے۔ دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی ذات پات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو مودی حکومت کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے، جو اس کے بارے میں غیر فیصلہ کن حالت میں ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا اتحاد میں شامل تمام پارٹیاں ذات پر مبنی مردم شماری کے حق میں ہیں، وینوگوپال نے کہا کہ یہ فیصلہ میٹنگ میں موجود نمائندوں نے کیا تھا۔ انہوں نے کہا، ’یہاں موجود لوگوں نے یہ فیصلہ کیا ہے، ہم دوسروں سے بھی بات کرنے جارہے ہیں۔‘
‘جانچ ایجنسیوں کا غلط استعمال’
بدھ (13 ستمبر) کو نئی دہلی میں این سی پی کے سربراہ شرد پوار کی رہائش گاہ پر میٹنگ ہوئی اور اس میں 26 پارٹیوں کے اتحاد کے 12 نمائندے- شرد پوار (این سی پی)، کے سی وینوگوپال (کانگریس)، ٹی آر بالو (ڈی ایم کے) ، تیجسوی یادو (آر جے ڈی)، سنجے راؤت (شیو سینا ادھو ٹھاکرے)، سنجے جھا (جے ڈی یو)، ہیمنت سورین (جے ایم ایم)، راگھو چڈھا (اے اے پی)، ڈی راجہ (سی پی آئی)، عمر عبداللہ (نیشنل کانفرنس)، محبوبہ مفتی (پی ڈی پی) اور جاوید علی (سماج وادی پارٹی) شامل تھے۔
ٹی ایم سی کے ابھیشیک بنرجی میٹنگ میں شریک نہیں ہو سکے کیونکہ انہیں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے کولکتہ میں سمن کیا ہوا تھا۔
ابھیشیک بنرجی کی غیر موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے وینوگوپال نے اپوزیشن لیڈروں کے خلاف مودی حکومت کی جانب سے جانچ ایجنسیوں کے مبینہ غلط استعمال پر تنقید کی۔
انہوں نے کہا، ‘ابھیشیک بنرجی میٹنگ میں شامل نہیں ہو سکے کیونکہ انہیں ای ڈی نےسمن کیا ہے – جو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور وزیر اعظم کی انتقامی سیاست کا نتیجہ ہے۔’
بنرجی ریاست میں اسکول نوکریوں کے گھوٹالے کی تحقیقات کے سلسلے میں ای ڈی کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ اس سے قبل ان کی پارٹی نے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ وہ ‘دھمکی دینے کے ہتھکنڈوں کے سامنے نہیں جھکیں گے’۔
The truth?
THEY are scarED. pic.twitter.com/6BsxmQQXh2
— All India Trinamool Congress (@AITCofficial) September 13, 2023
پہلی مشترکہ ریلی
میٹنگ کے بعد نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ سیٹ شیئرنگ سسٹم میں ایسی سیٹوں پر توجہ دی جانی چاہیے جہاں ‘انڈیا’ اتحاد کی جماعتوں کے پاس سیٹیں نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘میں نے جو تجاویز پیش کی ہیں اور جس پر ہمیں بحث کرنی ہوگی، ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو سیٹیں ‘انڈیا’ اتحاد کے ممبران کے پاس پہلے سے موجود ہیں، ان پر بات نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں ان سیٹوں پر بات کرنی چاہیے جو بی جے پی یا این ڈی اے یا ان پارٹیوں کے پاس ہیں جو ان میں سے کسی بھی اتحاد کا حصہ نہیں ہیں۔ کیونکہ اتحاد کے پاس جو سیٹیں ہیں ان پر تب تک بحث نہیں کی جانی چاہیے جب تک کہ ان سیٹوں پر فائز پارٹی اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہو۔’
اتحاد نے اکتوبر کے پہلے ہفتے میں انتخابی ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں اپنی پہلی مشترکہ ریلی منعقد کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ کہا گیا ہے کہ وہاں ‘بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری اور بی جے پی کی بڑے پیمانے پر کرپشن’ کے ایشوز اٹھائے جائیں گے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)