بی جے پی کی وضع کردہ تعریف کے مطابق ’اچھا مسلمان‘ کیسے بنا جائے-عارف محمد خان کے مرتب کردہ رہنما خطوط

بی جے پی کے اچھے مسلمانوں کو یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ مسلمانیت بنیادی طور پر ہندوستان کی قومی شناخت کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ کیونکہ اسلام بیرون ہند سے آیاہے اور مسلمانوں نے ابھی تک ہندوستان کی تہذیب و تمدن کو پوری طرح نہیں اپنا یا ہے لہٰذا اسلام میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کا بھارتی کرن ٹھیک طرح سے ہونا چاہئے۔

 بی جے پی کے اچھے مسلمانوں کو یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ مسلمانیت بنیادی طور پر ہندوستان کی قومی شناخت کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ کیونکہ اسلام بیرون ہند سے آیاہے اور مسلمانوں نے ابھی تک ہندوستان کی تہذیب و تمدن کو پوری طرح نہیں اپنا یا ہے لہٰذا اسلام میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کا بھارتی کرن ٹھیک طرح سے ہونا چاہئے۔

عارف محمد خان، فوٹو: پی ٹی آئی

عارف محمد خان، فوٹو: پی ٹی آئی

عارف محمد خان کا تقرربحیثیت گورنر کیرالہ اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک ایسے مسلمان  کی علامت ہیں جو بی جے پی کی وضع کردہ تعریف کے مطابق ایک اچھا مسلمان ہوتا ہے۔حالانکہ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ طلاق ثلاثہ کو جرم قرار دئے جانے کے حق میں ان کی جارحانہ تائید بھی میدان سیاست میں ان کی اِس نئی ترقی میں معاون ثابت ہوئی ہے پھر بھی بحیثیت گورنر ان کے تقررکی اہمیت کو یہ کہہ کر کم نہیں کیا جا سکتا کہ کلی  طورپر اس کی وجہ مسلم خواتین کے حقوق کے جارح علمبردار کے طور پر ان کی امیج ہے۔بحیثیت ایک’اچھا مسلمان’خان صاحب اُس سیاسی استعارے کی نمائندگی کرتے  ہیں جو تمام سیاسی جماعتوں کے نزدیک ملک کے عام مسلمانوں کی مثالی امیج ہونی چاہئے۔

تاہم بی جے پی کا’اچھا مسلمان’ کانگریس کے اچھے مسلمان سے واضح طور پر مختلف ہے اوروہ  موجودہ سیاسی ماحول سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔

اچھا مسلمان بننے کی شرطیں

بنیادی طور پر ہندوستانی سیاست میں ایک’اچھے مسلمان’ کی تعریف پر پورا اترنے کی تین شرطیں ہیں۔ثقافتی سرمائے کا مالک ہونا؛یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ ایک قانونی مسلم لیڈریا نمائندہ ہے اس کے پاس ثقافتی سرمایہ ہونا چاہئے۔کسی معروف خاندان سے تعلق، تعلیم یافتہ ہونا، سیاسی پس منظراور سیاسی طاقت تک رسائی،ثقافتی سرمائے کے لازمی اجزاء ہیں۔دقیانوسی علماء بنام آزاد خیال مسلمانوں میں عام فرق کا تذکرہ یہاں  بے محل ہے۔ آزادی کے بعد ابھرنے والے تمام قائدین کی پہلی نسل کا تعلق دولت مند اور طاقتور گھرانوں سے تھا۔ اپنا ثقافتی سرمایہ انہوں نے سیاست میں اپنا مقام بنانے کے لیے صرف کیا تھا۔

ثقافتی سرمائے کی سب سے زیادہ غیرمعذرت خواہانہ تفسیر 1990  کی دہائی میں ہندوستانی سیاست میں سیکولراور فرقہ پرست کیمپس کے درمیان شدید اختلافات کے بعد سامنے آئی تھی۔کچھ’ترقی پسند’مسلمانوں کی سیکولرزم کے لیے خدمات کا ذکر کرتے ہوئے مشیرالحسن نے اپنی کتاب  Legacy of Divided Nation: India’s Muslims Since Independence (اشاعت 1997 ) میں بحث کی ہے کہ ترقی پسند دانشواران کو سیکولر اقداراُن کے اپنے گھرانوں سے ورثے میں ملے تھے اور انھوں نے ہندوستان میں سیکولراقدار کوباقی رکھاہے۔

مشیر صاحب نے محمد حبیب (مؤرخ)، ان کے بھائی محمد مجیب اور ان کے بیٹے عرفان حبیب کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے، ان کے بقول، ہندوستان میں سیکولرزم کے فروغ میں بڑی خدمات انجام دی ہیں۔ مشیرصاحب نے صحافی سیما مصطفیٰ کے خاندان کا بھی تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ؛

‘رفیع احمد قدوائی کے گھرانے کا حصہ ہیں۔ ان کی دادی مجاہد جنگ آزادی اور سوشل ایکٹوسٹ تھیں؛ لندن میں مقیم صحافی حسن سرورکے والد بحیثیت سول سروینٹ حکومت برطانیہ کے ملازم ہونے کے باوجود کانگریس کے ہمدرد تھے اور ان کی والدہ نے معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے برقعے کو خیر باد کہا تھا۔'(ص: 320 )

ان شخصیات کی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر اس کے ساتھ ساتھ جو ثقافتی سرمایہ  انہیں ورثے میں ملا تھا اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

سیاسی طور پر درست ہونا

ثقافتی ورثہ  مسلمانوں کی اشرافیہ کمیونٹی کو ایسے اچھے مسلمانوں میں تبدیل نہیں کرتا جو حکومت وقت کی وضع کردہ تعریف سے مطابقت رکھتے ہوں۔ لہٰذا اپنے سیاسی اقدار کا مظاہرہ کرنے کے لیے  انہیں غالب سیاسی درستگی پربھی ایمان لانا پڑتا ہے۔1960 کی دہائی میں کانگریس کی مسلم قیادت مسلمانوں کو مستقل قومی دھارے میں شامل ہونے کی ترغیب دیا کرتی تھی۔ اس بات کو سمجھانے کے لیے کہ ہندوستان میں ایک مثالی مسلمان کا کیا کردار ہونا چاہئے وہ اپنی تقاریر اور تحاریر میں اکثر تاج محل جیسی علامات اور مغل شہنشاہ اکبرکا ذکر کیا کرتے تھے۔ فی الحقیقت کانگریس کی انتخابی مجبوری کے پیش نظر وہ اپنے وجود کو سختی کے ساتھ ہندوستان کے شاہانہ دور کی یاد گار کے طور پر پیش کرنے پر مجبور تھے۔

سیاسی جماعت کی فرمابرداری

‘اچھا مسلمان’بننے کے لیےسیاسی جماعت سے وفاداری اور اس کی فرمابرداری بہت ضروری ہے۔ شاہ بانو کیس میں کانگریسی مسلمانوں کا کردار اس کی ایک واضح مثال ہے۔ اُس وقت کانگریس سے بہت سے’ترقی پسند’مسلمان وابستہ تھے۔ مگر وہ کانگریس کے وفادار رہے اورکسی نے کانگریس کے مسلم پرسنل لاء بورڈ بالخصوص اس کے قائدمولانا علی میاں کو خوش کرنے اوراسے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کے طریقہ کار پر سوال نہیں اٹھایا۔ عارف محمد خان وہ واحد قائد تھے جنہوں نے 1986 میں  کانگریس کی اس سیاسی درستگی کی مخالفت کی تھی۔ کیونکہ شاہ بانو کیس پران کا موقف کانگریس سے مختلف تھا، لہٰذا وہ راجیوگاندھی حکومت سے مستعفی ہو گئے۔

بی جے پی کے’اچھے مسلمان’ کا امتیاز

بی جے پی کے لیے’اچھے مسلمان’ کی تعریف میں مذکورہ تین نکات کو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے۔ ظفر سریش والا، ظفر اسلام، مختار عباس نقوی، شاہ نواز حسین، نجمہ ہیپت اﷲ اور عارف محمد خان کے پاس اپنا ثقافتی سرمایہ ہے پھر بھی وہ غالب سیاسی درستگی کے اصول پر عمل کرتے ہیں اور مسلمانوں سے متعلق بی جے پی کی فکرکو نہایت ایمانداری کے ساتھ اپنائے ہوئے ہیں۔ البتہ وہ کانگریس کے اچھے مسلمانوں سے دو لحاظ سے مختلف ہیں۔

اول یہ کہ کانگریس کے’اچھے مسلمان’ نہرو کے’وحدت میں کثرت’ کےسیدھے سادے فلسفے کو بنیاد بنا کراپنی مسلمانیت مثبت انداز میں پیش کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی قوم پرستی کا دفاع کرنے کے لیے ان کی دلیل یہ ہوتی ہے ؛حالانکہ اسلام بیرون ہند سے یہاں آیا ہے مگر یہ ہندوستانی روایات کے ساتھ گھل مل گیا ہے اور اس طرح مسلمان حب الوطن بھی ہیں اور قوم پرست بھی۔اس کے بر عکس بی جے پی کے اچھے مسلمانوں کو یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ مسلمانیت بنیادی طور پر ہندوستان کی قومی شناخت کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ، کیونکہ اسلام بیرون ہند سے آیاہے اور مسلمانوں نے ابھی تک ہندوستان کی تہذیب و تمدن کو پوری طرح نہیں اپنا یا ہے لہٰذا اسلام میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کا بھارتی کرن ٹھیک طرح سے ہونا چاہئے۔

ظفر اسلام صاحب مشورہ دیتے ہیں کہ مسلمانوں کوخود ساختہ علیحدگی سے نجات حاصل کرنی چاہئے؛نجمہ ہیپت اللہ کی دلیل ہے کہ مسلمانوں کو پہلے اپنا محاسبہ کرنا چاہئے؛ اور یکساں سول کوڈ (جیسے کہ یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ ہے)پر عارف محمد خان کےموقف کی بنیاد آر ایس ایس کے بھارتی کرن کے پرانے فلسفے پر مبنی ہے۔دوسرے یہ کہ بی جے پی کے مسلمانوں کو یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ مسلمان نہ بی جے پی میں آتے ہیں نہ آنے سکتے ہیں۔ مسلمان بنام بی جے پی کا قضیہ کھڑا کرنے سے  بحیثیت قوم پرست اپنا مقام محفوظ  بنانے ہی میں ان کو مدد نہیں ملتی بلکہ مسلم مخالف رحجان کو بھی اس سے فروغ ملتا ہے جس کا محور ہندوستانی مسلمانوں کی ممکنہ علیحدگی پسندی اور/ یا انتہا پسندی والی سوچ ہے۔

لہٰذا عارف محمد خان جیسے قائدین کے لیے یہ نا گزیر ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کوایک ایسے مسئلے کے طور پر پیش کریں جو ہنوز حل نہیں ہو سکا ہے۔ آخر کار وہ’اچھے مسلمان’ کی عمدہ مثال ہیں۔

(ہلال احمد سی ایس ڈی ایس میں ایسو سی ایٹ پروفیسر ہیں اورحال میں شائع ہونے والی کتاب Siyasi Muslims: A Story of Political Islams in Indiaکے مصنف ہیں۔)

Next Article

بہار: الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ووٹر لسٹ سے 35.6 لاکھ نام باہر ہو جائیں گے

الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بہار میں ڈرافٹ ووٹر لسٹ کی اشاعت کے بعد 35.6 لاکھ سے زیادہ ووٹر ووٹر لسٹ سے باہر ہو جائیں گے۔ ان میں وہ لوگ شامل ہیں ،جن کی  یا تو موت ہوگئی ہے، یا بہار سے باہر چلے گئے ہیں یا پھر ان کے نام ایک سے زیادہ جگہوں پر درج ہیں۔

الیکشن کمیشن نے کہا کہ ریاست کے 1.59فیصد رائے دہندگان کی موت ہو چکی ہے، 2.2فیصد مستقل طور پر شفٹ ہو گئے ہیں اور 0.73فیصد ایک سے زیادہ جگہوں پر رجسٹرڈ پائے گئے ہیں۔ تصویر بہ شکریہ : ایکس

نئی دہلی: الیکشن کمیشن آف انڈیا کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بہار میں ڈرافٹ ووٹر لسٹ کی اشاعت کے بعد 35.6 لاکھ سے زیادہ رائے دہندگان ووٹر لسٹ سے باہر ہو جائیں گے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کی  یا تو موت ہو چکی ہے، یا بہار سے باہر چلے گئے ہیں، یا پھر ان کے نام ایک سے زیادہ جگہوں پر درج ہیں۔

بہار میں ووٹر لسٹ کے ‘اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر)’ پر اپنی تازہ ترین ریلیز میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس کے اہلکاروں کے ذریعے ‘گھر گھر جاکر’ سروے کے دو مرحلوں کے بعد کل ووٹروں میں سے 88.18فیصد نے اپنے فارم جمع کیے ہیں۔

واضح ہو کہ ریاست میں ووٹر لسٹ میں ترمیم کی یہ مشق اس سال نومبر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے چند ماہ قبل شروع کی گئی ہے۔

کمیشن کے مطابق، یہ 88.18 فیصد تعداد بہار میں 7,89,69,844 (7.8 کروڑ) ووٹروں کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان میں سے 83.66فیصد یا 6,60,67,208 (6.6 کروڑ) ووٹروں نے اپنے فارم جمع کرائے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے دیگر ووٹروں کی تفصیلات میں کہا کہ ریاست کے 1.59فیصد رائے دہندگان (12,55,620) کی موت ہوچکی ہے، 2.2فیصد مستقل طور پر منتقل ہو گئے (17,37,336) اور 0.73فیصد ووٹرز (5,76,479) ایک سے زیادہ جگہوں پر رجسٹرڈ پائے گئے۔

مجموعی طور پر یہ تعداد 35,69,435 یا 35.6 لاکھ سے زیادہ ووٹروں کی ہے۔ اس طرح ایس آئی آر کا تیسرا مرحلہ شروع ہونے سے پہلے ہی بہار میں ووٹر لسٹ سے 35.6 لاکھ سے زیادہ ناموں کو حذف کر دیا جائے گا۔

قابل ذکر ہے کہ ووٹر لسٹ کا مسودہ 1 اگست کو شائع کیا جائے گا۔

دریں اثنا، الیکشن کمیشن نے اس مرحلے میں ان لوگوں تک رسائی کے لیے اخبارات میں اس عمل کی تشہیر شروع کر دی ہے جو بہار سے عارضی طور پر باہر چلے گئے ہیں۔ کئی اخبارات نے صفحہ اول پر ایس آئی آر کے عمل کے بارے میں اشتہارات دیے ہیں۔

دی ٹریبیون کے صفحہ اول پر بہار ایس آئی آر پر الیکشن کمیشن کا اشتہار۔

الیکشن کمیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ ایسے ووٹر اپنے موبائل فون کا استعمال کرتے ہوئے ای سی آئی نیٹ ایپ کے ذریعے یا ووٹرزڈاٹ ای سی آئی ڈاٹ جی او وی ڈاٹ ان پر آن لائن فارم کے ذریعے (ایس آئی آرکے رہنما خطوط کے پیرا 3(ڈی) کے مطابق) آسانی سے فارم بھر سکتے ہیں۔ وہ اپنے فارم متعلقہ بی ایل او کو اپنے خاندان کے افراد کے ذریعے یا وہاٹس ایپ یا اس سے ملتے جلتے کسی آن لائن میڈیم کے ذریعے بھی بھیج سکتے ہیں۔

معلوم ہو کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اچانک ایس آئی آر جاری کرنے کے عمل کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ عدالت نے اس سلسلے میں کمیشن سے 28 جولائی تک جواب طلب کیا ہے۔

دریں اثنا، الیکشن کمیشن نے 11 دستاویزوں کی فہرست بھی تیار کی ہے جسے ووٹر اس عمل کے لیے جمع کرا سکتے ہیں۔

پچھلی سماعت میں سپریم کورٹ نے کمیشن سے کہا تھا کہ وہ اس فہرست میں ووٹر شناختی کارڈ، آدھار کارڈ اور راشن کارڈ کو شامل کرنے پر غور کرے ۔

دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق،کئی جگہوں پربی ایل او (بلاک سطح کے افسر) ص درست دستاویزرکھنے والوں سے بھی صرف آدھار کارڈ ہی لے رہے ہیں ۔

Next Article

بہار ووٹر لسٹ پر نظرثانی کے درمیان آسام کا مطالبہ – الیکشن کمیشن نظرثانی کے عمل میں این آر سی پر غور کرے

آسام کے حکام نے الیکشن کمیشن کو بتایا ہے کہ چونکہ یہ واحد ریاست ہے جس نے پہلے ہی این آر سی کی تیاری کا عمل شروع کر دیا ہے، اس لیے جب بھی الیکشن کمیشن ریاست کی انتخابی فہرست کے ایس آئی آر کے لیے اہلیت کے دستاویز کی فہرست کو حتمی شکل دے تو اس کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: آسام کے حکام نے الیکشن کمیشن (ای سی) سے کہا ہے کہ چونکہ یہ واحد ریاست ہے جس نے شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) کی تیاری کا عمل پہلے ہی شروع کر دیا ہے، اس لیے جب بھی ای سی اپنی ٹائم لائن طے کرے اور ریاست کی انتخابی فہرستوں کی ایس آئی آرکے لیے اہلیت کے دستاویزوں کی فہرست بنائے تو اس پہلو کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، آسام حکومت کے ذرائع نے کہا کہ چونکہ الیکشن کمیشن ووٹر لسٹ میں شامل کرنے کے لیے اہلیت کا فیصلہ کرتے ہوئے شہریت کے پہلو پر بھی غور کر رہا ہے – اور یہ دیکھتے ہوئے کہ آسام میں شہریت کی تصدیق کا عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے، این آر سی کے شائع ہونے کے بعد ایس آئی آر کے لیے قابل قبول دستاویزوں میں ایک بن سکتا ہے۔ اس لیے ریاست نے یہ درخواست  کی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب حزب اختلاف کی جماعتیں الزام لگا رہی ہیں کہ بہار ایس آئی آر عملی طور پر شہریت کی تصدیق کا عمل  ہے – یعنی پچھلے دروازے سے این آر سی – اور یہ الیکشن کمیشن کے دائرہ کار میں نہیں  ہے۔

اگر بہار میں ایس آئی آر کی مشق شروع ہونے کے بعد آسام کی درخواست کو قبول کر لیا جاتا ہے، تو اس کا واضح مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ریاست کے ایس آئی آر میں تاخیر ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آسام این آر سی – ریاست میں دہائیوں سے جاری آبادیاتی خدشات کو دور کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی نگرانی میں چلنے والا عمل – غیر یقینی صورتحال میں پھنسا ہوا ہے۔

معلوم ہو کہ آسام میں این آر سی ہندوستانی شہریوں کی شناخت اور انہیں غیر قانونی تارکین وطن سے الگ کرنے کے لیے ایک طویل مدتی اور حساس عمل ہے۔ 2019 میں این آر سی کا مسودہ شائع ہونے کے بعد سے، 3.3 کروڑ درخواست دہندگان میں سے تقریباً 19.6 لاکھ لوگ باہر رہ گئے ہیں۔ تاہم، اس این آر سی کو ابھی تک مطلع نہیں کیا گیا ہے۔

تب سے، بی جے پی کی قیادت والی دونوں ریاستی حکومتوں نے کہا ہے کہ وہ فہرست کو اس کی موجودہ شکل میں قابل قبول نہیں سمجھتے ہیں۔

آسام حکومت کا کہنا ہے کہ اس میں شامل اور خارج کیے گئے نام غلط ہیں، اور یہ کہ اس میں ‘اصل باشندوں’ کو شامل نہیں کیا گیا ہے جبکہ ‘غیر ملکیوں’ کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ، 24 مارچ 1974 – این آر سی کی آخری تاریخ – کے بعد غیر قانونی طور پر ریاست میں داخل ہونے والوں کی تعداد 19 لاکھ سے کہیں زیادہ ہے۔

سال 2019 کے این آر سی کو حتمی شکل دینے سے پہلے ہی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے دوبارہ تصدیق کا سوال اٹھایا گیا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے اسے مسترد کر دیا تھا۔

گزشتہ ماہ ایک خصوصی اسمبلی اجلاس میں وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے کہا کہ ریاستی حکومت ابھی بھی بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل اضلاع میں فہرست کے 20فیصد اور باقی اضلاع میں 10فیصد کی دوبارہ تصدیق کرنے کے عمل میں ہے۔

اخبار نے ایک ذرائع کے حوالے سے کہا،’این آر سی جاری ہونے والا ہے۔ اسے ایک یا دو ماہ میں، ممکنہ طور پر اکتوبر تک جاری کیا جائے گا۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘ہم محسوس کرتے ہیں کہ تصدیق کے بعد تیار کردہ این آر سی ڈیٹا – اور دوبارہ تصدیق کا عمل بھی جاری ہے – شہریت ثابت کرنے کے لیے ایک مثالی دستاویز ہوگا۔ یہ ان دستاویزوں میں سے ایک ہو سکتا ہے جن پر مکمل نظر ثانی کے لیے غور کیا جائے گا۔’

معلوم ہو کہ بہار میں ووٹر لسٹ پر خصوصی نظر ثانی کرنے کے الیکشن کمیشن کا فیصلہ تنازعات میں گھرا ہوا ہے ۔

Next Article

سال 2020 سے اب تک ہوائی جہاز کے انجن بند ہونے کے 65 واقعات، 17 ماہ میں 11 مے ڈے کال: رپورٹ

ایک آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن (ڈی جی سی اے) سے موصولہ جانکاری سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ہوائی جہاز کے انجن بند ہونے کے 65 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

علامتی تصویر۔تصویر بہ شکریہ: فلکر

نئی دہلی: حکومت ہند کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن (ڈی جی سی اے) سے آر ٹی آئی کے تحت حاصل کردہ معلومات میں انکشاف ہوا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ہوائی جہاز کے انجن بند ہونے کے 65 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

ٹائمز آف انڈیا کی آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں یہ  انکشاف ہوا ہے کہ 17 مہینوں میں ہوائی جہاز کے کاک پٹ سے 11 ‘مے ڈے’ یعنی ہنگامی کال کیے گئے۔

یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ تقریباً ہر ماہ ہندوستان میں کام کرنے والی ایئر لائنز میں انجن کی خرابی کے مسائل سامنے آتے ہیں اور یہ کتنا عام ہو گیا ہے ۔ اس سلسلے میں اخبار کو دی گئی ایک آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں ڈی جی سی اے نے کہا، ‘2020 سے 2025 (اب تک) ملک بھر میں پرواز کے دوران انجن بند ہونے کے کل 65 واقعات رپورٹ ہوئے۔’

ان تمام 65 معاملات میں پائلٹ ایک انجن کے ساتھ طیارے کو بہ حفاظت قریبی ہوائی اڈے پر اتارنے میں کامیاب رہے۔

ڈی جی سی اے کی طرف سے فراہم کردہ ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ 1 جنوری 2024 سے 31 مئی 2025 کے درمیان 11 پروازوں سے ‘مے ڈے’ کال موصول ہوئے، جس میں مختلف تکنیکی خرابیوں کی اطلاع دی گئی اور ہنگامی لینڈنگ کی درخواست کی گئی۔

اعداد و شمار میں 12 جون کو احمد آباد میں گر کر تباہ ہونے والی پرواز اےآئی171 اور19 جون کو ڈائیورٹ کی گئی انڈیگو کی گھریلو پرواز  شامل نہیں ہے ۔

اعداد و شمار کے مطابق، 11 میں سے 4 پروازوں نے تکنیکی خرابی کی وجہ سے مے ڈے کال جاری کیے تھے اور یہ طیارے حیدرآباد میں اترے تھے۔

اس سلسلے میں ایئر لائن پائلٹس ایسوسی ایشن آف انڈیا (اے ایل پی اے) کے سکریٹری انل راؤ نے اخبار کو بتایا، ‘ہوائی جہاز میں آگ لگنے، انجن میں خرابی جیسی سنگین ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنے پر فلائٹ کا عملہ مے ڈے کال دیتا ہے، جس کے لیے فوری لینڈنگ یا گراؤنڈنک  کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ ایسی صورتحال میں پرواز جاری رکھنا غیر محفوظ ہو جاتا ہے۔’

Next Article

کیا بہار میں ووٹر لسٹ رویژن کو لے کر بی جے پی بیک فٹ پر آ گئی ہے؟

ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق، ووٹر لسٹ میں ترمیم کو لے کر بہار میں بی جے پی بیک فٹ پر آ گئی ہے۔ بی جے پی کے لیے سروے کرنے والی ٹیم کے ایک ممبرنے دی نیو انڈین ایکسپریس کو بتایا، ‘جب ہم لوگوں کو کال کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ وہ بی جے پی سے کیا امید رکھتے ہیں، تو زیادہ تر لوگ ووٹر لسٹ میں ترمیم کو لے کر بی جے پی کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے اپلوڈ کی گئی ایک تصویر

نئی دہلی: اب تک کی میڈیا میں آ رہی خبریں  اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ بہار اسمبلی انتخابات سے عین قبل ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ، جو غریبوں اور پسماندہ طبقات کو حق رائے دہی سے محروم کر سکتا ہے اور ان کو ‘غیر ملکی‘ قرار دیا جا سکتا ہے، حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو انتخابی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔

تاہم، اب ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی خود اس معاملے پر بیک فٹ پر آ گئی ہے ۔

دی نیو انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ، بی جے پی کی اندرونی پری پول سروے ٹیموں کو عوام کے غصے کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ لوگ ووٹر لسٹ سے اپنےنام نکالے جانے کے خدشات کا اظہار کر تے ہوئے  بی جے پی سے ناراض ہیں۔

رپورٹ میں بی جے پی کے لیے سروے کرنے والی ٹیم کے ایک ممبر کے حوالے سے کہا گیا ہے، ‘جب ہم لوگوں کو کال کرتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں کہ وہ بی جے پی سے کیا امید رکھتے ہیں اور وہ لوگوں کے خوابوں کو پورا کرنے میں بی جے پی کی کس طرح مدد کریں گے، تو زیادہ تر لوگ ووٹر لسٹ میں ترمیم کو لے کر بی جے پی کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں۔

ٹیم کے ایک اور ممبر نے اخبار کو بتایا، ‘ہم 10 سے جن 6-7لوگوں سے بات کرتے ہیں، وہ کھل کر بی جے پی کے تئیں اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔’

بتادیں کہ بہار میں بی جے پی اور جے ڈی یو کچھ دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر نتیش کمار کی قیادت میں حکومت چلا رہی ہے۔

رپورٹ میں حاجی پور کے ایک ووٹر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان کے خاندان کے نام ووٹر لسٹ میں کئی دہائیوں سے درج ہیں لیکن اب ‘بی جے پی کے کہنے پر الیکشن کمیشن جو ووٹر لسٹ میں  ترمیم کروا رہا ہے، اس  میں ہم سے شہریت کا ثبوت مانگا جا رہا ہے۔’

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نئے قدم کے بعد بی جے پی کے پرانے حامیوں کو بھی پارٹی کے تئیں اپنی وفاداری کے بارے میں دوبارہ سوچنے پر مجبورہونا پڑ رہا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اس عمل کی وجہ سے خود بی جے پی کے بہت سے ووٹر پولنگ بوتھ سے باہر ہو سکتے ہیں۔

بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ‘یقین کریں یا نہ کریں، لیکن تقریباً 15-20 فیصد بی جے پی اور 10-15 فیصد جے ڈی یو ووٹر اس بار ووٹ نہیں ڈال سکیں گے کیونکہ ان کے پاس ضروری دستاویز نہیں ہیں۔ اگرچہ ان کے پاس آدھار اور ووٹر آئی ڈی ہے، لیکن اس نئی ترمیم میں انہیں قبول نہیں کیا جا رہا ہے۔’

قابل ذکر ہے کہ بدھ (9 جولائی) کو بائیں بازو کی جماعتوں، کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد نے اس ترمیمی عمل کے خلاف بہار بند کی کال دی تھی۔

Next Article

اتر پردیش: کانوڑ یاترا پر تبصرہ کرنے پر ٹیچر کے خلاف ایف آئی آر درج

اترپردیش کے بریلی میں سرکاری اسکول کے ٹیچر رجنیش گنگوار کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ انہوں نے دعائیہ اجتماع میں ایک نظم کے ذریعے ‘کانوڑ یاترا’ کے بجائے ‘گیان کے  دیپ جلانے’ کی بات کہی تھی۔ اس پردائیں بازو کے گروپوں نے اعتراض کیا تھا، جس کے بعد کیس درج کیا گیا ہے۔

تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا

نئی دہلی: اترپردیش کے بریلی میں ایک سرکاری اسکول کے استاد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق،انہوں  نے ایک نظم سنائی جس میں مبینہ طور پر مذہبی یاترا اور ‘توہم پرستی’ پر تعلیم کو ترجیح دینے کی بات کی گئی تھی۔

پانچ منٹ کے اس ویڈیو کا 26 سیکنڈ کا حصہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے، جس میں استاد رجنیش گنگوار کو دعائیہ اجتماع کے دوران ایک ہندی نظم پڑھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جس کے بول یہ ہیں، ‘کانوڑ لینے مت جانا۔ تم گیان کے دیپ جلانا۔ مانوتا کی سیوا کرکے ،سچے مانو بن جانا۔’

مکمل ویڈیو-

اس تبصرے کے بعد سوشل میڈیا پر ہندوتوا کے حامیوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا، جس میں اس نظم کو ساون کے مہینے میں نکلنے والے کانوڑیاترا پر تنقید کے طور پر دیکھا گیا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، یہ ایف آئی آر ‘کانوڑ سیوا سمیتی’ نامی تنظیم کی شکایت پر درج کی گئی ہے۔

اخبار نے بہیڑی پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او سنجے تومر کے حوالے سے بتایا کہ یہ مقدمہ بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعہ 353 کے تحت درج کیا گیا ہے، جو ‘پبلک ڈسٹربنس کو بڑھاوا دینے والے بیانات’ سے متعلق ہے۔ تومر نے کہا کہ ٹیچر رجنیش گنگوار کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے اور تحقیقات جاری ہے۔

پولیس کے مطابق یہ ویڈیو بریلی کے ایم جی ایم انٹر کالج کا ہے۔

ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے  اسکول کے پرنسپل اشوک کمار گنگوار نے کہا،’میں دو دن کی چھٹی پر تھا، استاد نے ہفتے کے روز اسکول کی ایک سرگرمی کے دوران یہ نظم سنائی، مجھے فون پر اس واقعے کا علم ہوا اور میں نے استاد سے وضاحت طلب کی ہے۔’