امریکی ریسرچ فرم ہنڈن برگ نے اپنی نئی رپورٹ میں سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا (سیبی) کی چیف مادھبی بچ کے خلاف اپنی آمدنی چھپانے اور اپنے شوہر کی کمپنی کو فائدہ پہنچانے کے الزام عائد کیے ہیں۔ اس کے علاوہ، اڈانی گروپ کے اسٹاک ہیرا پھیری اور مالی بے ضابطگیوں سے متعلق معاملے میں سیبی کی جانچ کی غیر جانبداری پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
نئی دہلی: امریکی ریسرچ فرم ہنڈن برگ – جس نے گزشتہ سال اپنی رپورٹ میں اڈانی گروپ کے خلاف کمپنی کے شیئروں کی قیمت میں ہیرا پھیری کرنے کا الزام لگایا تھا – نے اپنے ایک نئے اور سنسنی خیز انکشاف میں سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا (سیبی) کی چیف مادھبی بچ اور ان کے شوہر پر اڈانی گروپ کے خلاف کارروائی کرنے کے معاملے میں ‘مفادات کے ٹکراؤ’ کے الزام عائد کیے ہیں۔ وِہسل بلور دستاویزوں کا حوالہ دیتے ہوئے ہنڈن برگ نے کہا ہے کہ سیبی کی چیئرمین مادھبی بُچ اور ان کے شوہر دھول بُچ کی’اڈانی منی اسکیم میں استعمال ہونے والے دونوں آف شور (غیر ملکی)فنڈ میں حصے داری ہے۔’
بتادیں کہ 2023 میں ہنڈن برگ ریسرچ کی رپورٹ میں اڈانی گروپ کے خلاف لگائے گئے الزامات کے بعد گروپ کی جانب سے کی گئی مبینہ بے ضابطگیوں کے حوالے سے کئی تحقیقات شروع کی گئی تھیں، لیکن ایسی کوئی خاص ریگولیٹری کارروائی نہیں دیکھی گئی۔ ہنڈن برگ کے تازہ ترین انکشافات میں اس نے سیبی کی چیئرمین بچ اور ان کے شوہر کے خلاف سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان کے اسٹاک مارکیٹ ریگولیٹر کی چیئرپرسن کی حیثیت سے مادھبی بچ کےطرف سے دیے گئے کچھ بیانوں سے انہیں اور ان کے شوہر کو ذاتی فائدہ ہونے کا امکان ہے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے اگورا کنسلٹنگ کی ملکیت کی وجہ سے ‘کنسلٹنسی’ کے ذریعے کمائی ہوئی کل آمدنی کا انکشاف نہیں کیا، جو سیبی کے چیف کے طور پر ان کی تنخواہ سے ‘4.4 گنا’ زیادہ ہو سکتی ہے۔
ہنڈن برگ نے الزام لگایا کہ ‘مرکزی دھارے کے ہزاروں معروف آن شور ہندوستانی میوچوئل فنڈ پروڈکٹس کے موجود ہونے کے باوجود، دستیاب دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ مادھبی بچ اور ان کے شوہر کے پاس ایک غیر ملکی ملٹی لیئرڈ آف شور فنڈ میں حصے داری تھی- جس کی دیکھ ریکھ ایک ایسی کمپنی کر رہی تھی جس کے تار وائر کارڈ گھوٹالے سے جڑے تھے-مبینہ اڈانی فنڈ گھوٹالے میں ونود اڈانی کے ذریعے اس فنڈ کا کافی استعمال کیا گیاتھا۔’
ہنڈن برگ نے جن دستاویزوں کا حوالہ دیا ہے، ان کے مطابق، ‘مادھبی بچ اور ان کے شوہر دھول بُچ نے پہلی بار 5 جون 2015 کو سنگاپور میں آئی پی ای پلس فنڈ 1 میں اپنا اکاؤنٹ کھولا۔’ ہنڈن برگ کا کہنا ہے کہ برموڈا اور ماریشس کے یہ آف شور فنڈ گوتم اڈانی کے بھائی ونود اڈانی کے ذریعے استعمال کیے گئےتھے۔
ہنڈن برگ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہسل بلور سےموصولہ دستاویزوں کے مطابق، بچ کی سیبی کے چیف کے طور پر تقرری سے دو ہفتے قبل، مادھبی کے شوہر دھول بچ نے ماریشس کے فنڈ ایڈمنسٹریٹر ٹرائیڈنٹ ٹرسٹ کو خط لکھا تھا۔ یہ ای میل گلوبل ڈائنامک اپارچیونٹی فنڈ (جی او ڈی ایف) میں ان کی اور ان کی اہلیہ کی سرمایہ کاری کے حوالے سے تھا۔ اپنے خط میں دھول نے انہیں اکاؤنٹ چلانے کے لیے واحد مجاز شخص بنائے جانے کی درخواست کی تھی۔
سپریم کورٹ کی ماہرین کی کمیٹی کی 6 مئی 2023 کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سیبی نے اڈانی کے غیر ملکی شیئر ہولڈروں کو فنڈ فراہم کرنے والوں کے بارے میں اپنی تحقیقات میں ‘کوئی نتیجہ اخذنہیں کیا’۔ ہنڈن برگ کا کہنا ہے کہ انہیں ‘یہ حیرت انگیز نہیں لگتا کہ سیبی اس جانچ کے پیچھے جانے کا خواہش مند نہیں تھا، جس کا ایک سرا اس کے اپنے چیئرمین سے جڑتا تھا۔’
اپنی جنوری 2023 کی رپورٹ میں ہنڈن برگ نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے دیگر فنڈز کے علاوہ، ای ایم ریسرجنٹ فنڈ اور ایمرجنگ انڈیا فوکس فنڈ نامی ماریشس کی دو اکائیوں کی پہچان کی ہے۔ یہ دونوں انڈیا انفو لائن (جو اب 360 ون کہلاتے ہیں) سے منسلک تھیں اور اس کے عملہ ان کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ ان فنڈز کے ٹریڈنگ پیٹرن کے مطابق الزام یہ تھے کہ انہوں نے اڈانی کی کمپنیوں کے شیئروں کو مصنوعی طریقے سےبڑھایا۔
ہنڈن برگ کا کہنا ہے کہ اس کے نتائج کو اگست 2023 میں فنانشل ٹائمز کی طرف سے کی گئی ایک تحقیقات سے تقویت ملی ، جس میں ای ایم ریسرجنٹ اور ایمرجنگ انڈیا فوکس فنڈز کے ‘خفیہ دستاویز’ ہاتھ لگے۔ اس سے یہ سوال اٹھا کہ کیا اڈانی نے اپنے کاروباری ساتھیوں کو ‘مکھوٹے’ کے طور پر استعمال کیا تھا تاکہ ‘ہندوستانی کمپنیوں کے لیےان اصولوں سے نجات حاصل کی جا سکےجو شیئر کی قیمتوں میں ہیرا پھیری کرنے سے روکتے ہیں۔’
سیبی نے ابھی تک ان فنڈز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ 27 جون، 2024 کوسیبی نے ہنڈن برگ کو ‘وجہ بتاؤ’ نوٹس بھی نہیں بھیجا تھا۔ سیبی نے کہا تھا کہ ہنڈن برگ کا انکشاف ‘نامکمل اور ناکافی’ ہے۔ سیبی نے ہنڈن برگ کو ‘لاپرواہ’ قرار دیا تھا کیونکہ اس نے اپنی رپورٹ میں ایک ایسے بروکر کا حوالہ دیا تھا جس پر اس لیے پابندی لگائی گئی تھی کہ اس کا کہنا تھا کہ ‘سیبی اچھی طرح سے جانتا تھا کہ اڈانی جیسی کمپنیوں نے قواعد کی خلاف ورزی کرنے کے لیے پیچیدہ غیر ملکی اکائیوں کا استعمال کیا ہے، اور ریگولیٹر (سیبی) بھی ان اسکیموں کا حصہ ہے۔
ہنڈن برگ نے الزام لگایا کہ اپریل 2017 سے مارچ 2022 تک، ‘جب مادھبی بچ سیبی میں کل وقتی ممبر اور چیئرپرسن تھیں، تو ان کے پاس اگورا پارٹنرس نامی سنگاپور کی ایک آف شور کنسلٹنگ فرم میں 100 فیصد حصے داری تھی’ اور 16 مارچ 2022 کو ،سیبی کی چیئرمین کے طور پر اپنی تقرری کےدو ہفتے بعد انہوں نے خاموشی سے یہ شیئر اپنے شوہر کو منتقل کر دیے۔’
ہنڈن برگ نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ مادھبی بچ فی الحال اگورا ایڈوائزری نامی ایک ہندوستانی کنسلٹنگ کمپنی میں 99فیصد حصہ داری رکھتی ہیں، جہاں ان کے شوہر ڈائریکٹر ہیں اور 2022 میں اس کمپنی نےکنسلٹنگ سے 261000 ڈالر کا ریونیودرج کیا تھا، جو ’سیبی میں ان کی اعلان کردہ تنخواہ سے 4.4 گنا ہے۔ ‘
دھول بچ اور بلیک اسٹون
سیبی کے کل وقتی رکن کے طور پر مادھبی بچ کے دور میں بلیک اسٹون کے مشیر کے طور پر دھول بچ کی تقرری پر بھی ہنڈن برگ نے سوال اٹھائے ہیں۔ الزام ہے کہ مادھبی بچ کا عوامی طور پر یہ کہنا کہ وہ رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ (آر ای آئی ٹی) کی حمایت کرتی ہیں،اس نے بلیک اسٹون کو ترجیحی طور پر فائدہ پہنچایا۔ بلیک اسٹون نے مائنڈ اسپیس اورنیکسس سلیکٹ ٹرسٹ – ہندوستان کے بالترتیب دوسرے اور چوتھے آر ای آئی ٹی-کو اسپانسرکیا تاکہ آئی پی او کے لیے فنڈاکٹھا کرنے کے لیےسیبی کی منظوری حاصل کی جا سکے۔
ہنڈن برگ کا کہنا ہے کہ سوال یہ ہے کہ کیا اسے مفادات کے ٹکراؤ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے یا ایک قبضے کے طور پر؟ لیکن اس نے مزید کہا ہے کہ، ‘کسی بھی صورت میں، ہمیں نہیں لگتا کہ اڈانی معاملے میں سیبی پر ایک غیر جانبدار ثالث کے طور پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے نتائج ایسے سوال پیدا کرتے ہیں جن کی مزید تفتیش کی جانی چاہیے۔ ہم اضافی شفافیت کا خیرمقدم کرتے ہیں۔‘
مادھبی بچ اور دھول بچ نے کی ان الزامات کی تردید
انڈین ایکسپریس کے مطابق، مادھبی بچ اور ان کے شوہر دھول بچ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ رپورٹ میں لگائے گئے بے بنیاد الزامات اور اعتراضات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ ایک مشترکہ بیان میں انہوں نے کہا، ‘ان تمام الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ ہماری زندگی اور مالیاتی حالت ایک کھلی کتاب ہے۔‘
انہوں نے کہا، ‘ تمام ضروری دستاویز گزشتہ سالوں میں وہ سیبی کے سامنے پیش کر چکے ہیں۔ ہمیں کسی بھی اور تمام مالیاتی دستاویز-جن میں وہ دستاویز بھی شامل ہیں جو اس دور سے متعلق ہیں جب ہم مکمل طور پر عام شہری تھے – کو کسی بھی اتھارٹی کے سامنے پیش کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔’
انہوں نے مزید کہا، ‘یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہنڈن برگ ریسرچ، جس کے خلاف سیبی نے نفاذ کی کارروائی کی ہے اور وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا ہے، نے اس کے جواب میں کردار کشی کی راہ کا انتخاب کیا ہے۔’
اس ‘میگا اسکیم’ کی جانچ جے پی سی سے کرانے کی ضرورت : کانگریس
ہنڈن برگ کے انکشافات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کانگریس نے کہا ہے کہ یہ ’حیران کن‘ ہے کہ ملک کے سیکورٹیز مارکیٹ ریگولیٹر کو چلانے والے شخص کے پاس ’ایسے فنڈز میں مالیاتی حصہ داری ہوگی‘ جس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ ان کا استعمال سیبی کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اڈانی گروپ کی کمپنیوں میں بڑی حصہ داری حاصل کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔‘
ایک بیان میں، کانگریس لیڈر جئے رام رمیش نے تازہ ترین انکشافات کو ‘اڈانی میگا اسکیم کی جانچ کرنے میں سیبی کی حیران کن ہچکچاہٹ’ سے جوڑا۔
انہوں نے کہا، ‘سپریم کورٹ کی ماہرین کی کمیٹی نے اس کا خصوصی طور پر نوٹس لیا تھا۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں نشاندہی کی تھی کہ سیبی نے 2018 میں غیر ملکی فنڈ کے آخری مستفید (یعنی اصل ملکیت) سے متعلق رپورٹنگ کی ضروریات کو کمزور کر دیا تھا اور 2019 میں اسے مکمل طور پر ہٹا دیا تھا۔‘
ماہرین کی کمیٹی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘اس سے سیبی کے ہاتھ اس حد تک بندھ گئے کہ اس پر غلط کاموں کا شبہ ہوتاہے لیکن اسے متعلقہ ضوابط میں مختلف شرائط کی تعمیل بھی نظر آتی ہے… یہ وہ تضاد ہے جس کی وجہ سے سیبی اس معاملے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچا ہے۔‘
رمیش نے کہا، ‘ہنڈن برگ کا نیا انکشاف مادھبی بچ کے سیبی چیف بننے کے فوراً بعد 2022 میں گوتم اڈانی کی ان کے ساتھ لگاتار دو ملاقاتوں کے بارے میں نئے سوال کھڑے کرتا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت سیبی مبینہ طور پر اڈانی کے لین دین کی جانچ کر رہی تھی۔‘
حکومت سے کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘حکومت کو اڈانی کی سیبی تحقیقات میں مفادات کے تمام ٹکراؤ کو ختم کرنے کے لیے فوراً کارروائی کرنی چاہیے۔ سچائی یہ ہے کہ ملک کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کی جو مبینہ ملی بھگت نظر آ رہی ہے، اسے اڈانی میگا گھوٹالے کی جامع تحقیقات کے لیے ایک جے پی سی (جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی) کی تشکیل سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔‘