ہریانہ الیکشن: کیا اس بار بھی بی جے پی کے باغی پارٹی کا کھیل بگاڑ دیں گے؟

گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی سے بغاوت کرنے کے بعد آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے والے 5 امیدوار جیت کر اسمبلی پہنچے تھے، جبکہ باغیوں نے کئی سیٹوں پر بی جے پی کا کھیل بگاڑ دیا تھا۔ نتیجتاً، پارٹی اکثریت سے محروم رہ گئی تھی۔ اس بار بھی کم از کم 18 سیٹوں پر بی جے پی کے باغی آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں۔

گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی سے بغاوت  کرنے کے بعد آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے والے 5 امیدوار جیت کر اسمبلی پہنچے تھے، جبکہ باغیوں نے کئی سیٹوں پر بی جے پی کا کھیل بگاڑ دیا تھا۔ نتیجتاً، پارٹی اکثریت سے محروم رہ گئی تھی۔ اس بار بھی کم از کم 18 سیٹوں پر بی جے پی کے باغی آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں۔

وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی (درمیان) اور بی جے پی کے باغی چہرے۔

وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی (درمیان) اور بی جے پی کے باغی چہرے۔

نئی دہلی / بھیوانی / چرخی دادری: نوے رکنی ہریانہ اسمبلی میں اکثریت کے لیے 46 نشستیں درکار ہیں۔ 2019 کے اسمبلی انتخابات میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اکثریت سے صرف 6  سیٹوں سے دور رہتے ہوئے 40 پر سمٹ گئی تھی۔ جوڑ توڑ کی مدد سے اس نے جن نایک جنتا پارٹی (جے جے پی) اور آزاد ایم ایل اے کی مدد سے حکومت بنائی۔

اس وقت بی جے پی کے اکثریت سے محروم رہنے  میں اس کے باغی لیڈروں کا قابل ذکر رول  تھا۔ انتخاب میں 7 آزاد امیدواروں نےکامیابی حاصل کی تھی، جن میں سے 5 بی جے پی کے باغی تھے۔ باغیوں نے کئی دوسری سیٹوں پر بھی بی جے پی کا کھیل بگاڑ دیا تھا۔

اس بار بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔ 29 ستمبر کو بی جے پی نے 8 اسمبلی حلقوں سے آزاد انتخاب لڑنے والے 8 باغیوں کو 6 سال کے لیے پارٹی سے نکال دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ریاست کی کل 18 سیٹوں پر بی جے پی کے لیے  اس کے 22 باغی لیڈرمسئلہ بنے ہوئے ہیں، جن میں سے تین سیٹوں پر ایک سے زیادہ باغی لیڈر آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔

اٹھارہ  میں سے 3 سیٹیں وہی ہیں جو بی جے پی2019 میں باغی امیدواروں  کی وجہ سے ہار گئی تھی۔

تین سیٹیں جہاں ایک سے زیادہ لیڈروں نے بی جے پی کے خلاف بغاوت کی ہے

حصار، پرتھلا اور سفدوں میں بی جے پی کے ایک سے زیادہ باغی لیڈرآزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔

حصار

حصار ریاست کی ہاٹ سیٹ میں سے ایک بن گئی ہے۔ یہاں بی جے پی کے امیدوارلگاتار  دو بار کے ایم ایل اے اور ریاستی حکومت میں وزیر ڈاکٹر کمل گپتا ہیں، جنہیں پارٹی کے تین باغیوں- ساوتری جندل، گوتم سردانہ اور ترون جین کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ملک کی امیر ترین خاتون ساوتری جندل بی جے پی ایم پی نوین جندل کی ماں  ہیں۔ ساوتری 2009 میں حصار سے کانگریس کی ایم ایل اے تھیں۔ اس سے پہلے ان کے شوہر او پی جندل بھی یہاں سے تین بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ کمل گپتا نے 2014 میں کانگریس سے الیکشن لڑنے والی ساوتری کو شکست دی تھی۔

گوتم سردانہ حصار کے میئر ہیں۔ جبکہ ترون جین پارٹی کے سابق ضلع نائب صدر ہیں۔

تین سرکردہ رہنماؤں  کی بغاوت نے کمل گپتا کے لیے راستہ مشکل بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے کانگریس کو اپنے امیدوار رام نواس راڑا کی قیادت میں یہ سیٹ واپس حاصل کرنے کی امید ہے۔ 2014 سے پہلے کانگریس نے تین بار لگاتار کامیابی حاصل کی تھی، دو بار او پی جندل اور ساوتری جندل ایک بار پارٹی کے امیدوار تھے۔

پرتھلا

پرتھلا کی کہانی دلچسپ ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی سے ٹکٹ نہ ملنے پر نین پال راوت نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ کر کامیابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے اگلے 5 سال تک بی جے پی حکومت کی حمایت کی۔ اس بار انہیں بی جے پی سے ٹکٹ ملنے کی پوری امید تھی، لیکن ان کا ٹکٹ پھر کٹ گیا اور سابق ایم ایل اے ٹیک چند شرما کو مل گیا۔ راوت پھر سے بغاوت کرکے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔

دیپک ڈاگر نے بھی پرتھلا میں بی جے پی کے خلاف آزاد امیدوار کی حیثیت سے مورچہ کھولا ہے۔ جے جے پی اور نگینہ ایم پی چندر شیکھر آزاد کی آزاد سماج پارٹی (اے ایس پی) کے اتحاد نے بھی ان کو اپنی حمایت دی ہے ۔

سفدوں

سفدوں سے آزاد الیکشن لڑ رہے بچن سنگھ آریہ کو بی جے پی نے  6 سال کے لیے پارٹی سے نکال دیا ہے۔ یہاں سے ایک اور باغی جسویر دیشوال کو بھی پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دونوں لیڈر ماضی میں آزاد ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔

آریہ سفدوں سے دو بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ 1991 میں کانگریس سے ایم ایل اے اور وزیر تھے۔ 2005 میں انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے پچھلا الیکشن بی جے پی کے ٹکٹ پر لڑا تھا اور قریبی مقابلے میں صرف 3658 ووٹوں سے ہار گئے تھے۔

دیشوال نے 2014 میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ بی جے پی کے ٹکٹ کے دعویداروں کی فہرست میں ان کا نام سرفہرست تھا، لیکن پارٹی نے رام کمار گوتم کو اپنا امیدوار بنایا۔

باغیوں سے گھری بی جے پی

اسندھ سیٹ سے سابق ایم ایل اے جلے رام شرما بی جے پی چھوڑ کر آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ 2009 میں ہریانہ جنہت کانگریس سے ایم ایل اے رہے جلے رام  کو علاقے میں کافی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے گزشتہ دو اسمبلی انتخابات بھی آزاد حیثیت سے لڑا تھا، 2014 میں 25000 سے زیادہ اور 2019 میں تقریباً 13000 ووٹ حاصل کیے تھے۔

بھیوانی سیٹ بی جے پی کے لیے آسان سمجھی جا رہی ہے۔ لگاتار تین بار کے ایم ایل اے اور وزیر گھنشیام صراف پارٹی کے امیدوار ہیں۔ ان کے سامنے ‘انڈیا’ اتحاد کے سی پی آئی امیدوار کامریڈ اوم پرکاش ہیں۔ دی وائر سے بات کرتے ہوئے مقامی لوگ ماحول کو صراف کے لیے سازگار قرار دیتے ہیں۔ تاہم، بی جے پی مہیلا مورچہ کی سابق ضلع صدر پریا اسیجہ نے پارٹی سے بغاوت کر دی ہے اور وہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔

بھیوانی اسمبلی حلقہ سے بی جے پی امیدوار گھنشیام صراف کی انتخابی مہم کی گاڑی۔ (تصویر: دیپک گوسوامی/ دی وائر)

بھیوانی اسمبلی حلقہ سے بی جے پی امیدوار گھنشیام صراف کی انتخابی مہم کی گاڑی۔ (تصویر: دیپک گوسوامی/ دی وائر)

جھجر ضلع کی بیری اسمبلی سے پارٹی نے سنجے کبلانہ کومیدان میں اتارا ہے۔ بی جے پی کسان مورچہ کے صدر امت اہلاوت آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ یہاں کانگریس کے رگھویر کادیان لگاتار 5 بارسے  جیت رہے ہیں۔ بغاوت کی وجہ سے بی جے پی کا راستہ زیادہ مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

گنور میں بی جے پی اور کانگریس دونوں کے ہی امیدوار برہمن ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ بی جے پی کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے دیویندر کادیان نے مقابلہ کو سہ رخی بنا دیا ہے۔ کادیان کا تعلق جاٹ برادری سے ہے اور وہ جاٹ، او بی سی اور دیگر ذاتوں کے ووٹوں کو ہدف بنا رہے ہیں۔ کانگریس امیدوار کلدیپ شرما یہاں سے دو بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں لیکن پچھلے الیکشن میں بی جے پی کے نرمل چودھری سے ہار گئے تھے۔ بی جے پی نے چودھری کا ٹکٹ کاٹ کر دیویندر کوشک کو دے دیا ہے، جبکہ کادیان کو 6 سال کے لیے پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔

گروگرام میں بھی بی جے پی اپنے باغی کی وجہ سے سہ رخی مقابلے میں پھنسی ہوئی ہے۔ نوین گوئل نے مکیش شرما کو ٹکٹ ملنے کے خلاف بغاوت کر دی ہےاور وہ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔یہ سیٹ دو بار سے  بی جے پی جیتتی رہی ہے، لیکن گزشتہ 5 انتخابات میں 2  الیکشن میں آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ گوئل کو 6 سال کے لیے پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔ اس سیٹ پر برہمن، ویشیہ اور پنجابی ووٹ سب سے زیادہ ہیں۔ جو  بی جے پی کے ووٹ بینک ہیں۔ گزشتہ دونوں انتخابات میں بی جے پی کے ویشیہ امیدوار جیتے ہیں۔ گوئل بھی ویشیہ ہیں۔ برہمن-ویشیہ ووٹوں کا ممکنہ بٹوارہ کانگریس کے پنجابی امیدوار موہت گروور کے لیے ایک منافع بخش سودا ثابت ہو سکتاہے، جنہوں نے آزاد حیثیت سے گزشتہ الیکشن لڑ کر تقریباً 48000 ووٹ حاصل کیے تھے۔

ہتھین میں بی جے پی کے ریاستی ایگزیکٹو ممبر اور سابق ایم ایل اے کیہر سنگھ راوت نے بغاوت کر کےمشکلیں کھڑی کر دی ہیں۔ بی جے پی نے موجودہ ایم ایل اے کا ٹکٹ کاٹ کر منوج راوت کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ 1991 کے بعد سے کانگریس یہاں نہیں جیت سکی ہے جبکہ گزشتہ 4 انتخابات میں سے 2 آزاد امیدواروں نے جیتے ہیں۔ محمد اسرائیل کانگریس کے امیدوار ہیں جو گزشتہ انتخابات میں صرف 2887 ووٹوں سے ہار گئے تھے۔ وہ سابق ایم ایل اے جلیب خان کے بیٹے ہیں۔ اس لیے کیہر کی بغاوت میں کانگریس کو بھی اپنے لیے امید نظر آتی ہے۔

اسرانہ میں بی جے پی کے ٹکٹ کے لیے ستیہ وان شیرا کا نام سب سے آگے تھا، لیکن پارٹی نے راجیہ سبھا ایم پی اور دو بار کے سابق ایم ایل اے کرشنا لال پنوار کو ٹکٹ دیا۔ پنوار پچھلے الیکشن میں کانگریس کے بلبیر سنگھ سے بڑے فرق سے ہار گئے تھے۔ کانگریس سے سنگھ ہی  امیدوار ہیں۔ وہیں، شیرا کی بغاوت نے بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔

کلایت میں باغی ونود نرمل بی جے پی کے موجودہ  ایم ایل اے کملیش ڈھانڈا کو چیلنج پیش کر رہے ہیں۔ تاہم، انیتا ڈھل نے کانگریس میں بھی بغاوت کر دی ہے۔ کانگریس کے امیدوار وکاس سہارن ہیں، جو ایم پی اور اپنے والد  جئے پرکاش کے ڈھل کے خلاف دیے ایک بیان کی وجہ سے مشکل میں ہیں۔ اس صورتحال میں ونود نرمل کی بغاوت کملیش ڈھانڈا کو ملنے والے فوائد کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

سندیپ گرگ نے لاڈوا سے وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی کے خلاف بغاوت کر دی ہے ۔ کانگریس نے ایم ایل اے میوا سنگھ پر بھروسہ کیا ہے جنہوں نے گزشتہ انتخابات میں 12500 سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی تھی۔ جو اس سیٹ پر سب سے بڑی جیت ہے۔ نائب پہلی بار یہاں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ تقریباً 88 فیصد دیہی آبادی اور کھیتی کسانی والی اس سیٹ پر سینی برادری کی تعداد صرف 7-10فیصد ہے، جبکہ ایس سی کی آبادی تقریباً 25فیصد ہے۔ یہ ایکویشن سی ایم سینی کے خلاف ہے۔

رانیہ میں پچھلا الیکشن رنجیت سنگھ چوٹالہ نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیتا تھا۔ پھر وہ بی جے پی میں شامل ہوئے اور وزیر بھی بن گئے۔ جب پارٹی نے انہیں ٹکٹ نہیں دیا تو وہ باغی ہو گئے ہیں  اور دوبارہ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ چوٹالہ ریاست کے سرکردہ لیڈررہےچودھری دیوی لال کے بیٹے ہیں۔ شیش پال کمبوج بی جے پی کے امیدوار ہیں۔

ریواڑی میں بی جے پی کے امیدوار لکشمن یادو ہیں۔ پرشانت سنی یادو آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ سنی یادو نے پچھلا الیکشن آزاد حیثیت سے لڑا تھا اور 22000 ووٹ (14فیصد) حاصل کیے تھے۔ پھر وہ بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ کانگریس نے ایم ایل اے چرنجیو راؤ کو ٹکٹ دیا ہے جنہوں نے گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کی بغاوت کی وجہ سے کامیابی حاصل کی تھی۔ تب بی جے پی کے ایم ایل اے رندھیر سنگھ کاپری واس نے ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اور تقریباً 37000 ووٹ حاصل کرکے پارٹی کی شکست کی وجہ بنے۔

توشام اسمبلی حلقہ میں بی جے پی کے باغی ششی رنجن پرمار کے لیے مہم چلا رہی ایک گاڑی۔ (تصویر: انکت راج/ دی وائر)

توشام اسمبلی حلقہ میں بی جے پی کے باغی ششی رنجن پرمار کے لیے مہم چلا رہی ایک گاڑی۔ (تصویر: انکت راج/ دی وائر)

باغی ششی رنجن پرمار توشام میں بی جے پی امیدوار شروتی چودھری کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں ۔ شروتی کرن چودھری کی بیٹی ہیں، جو یہاں سے لگاتار چار بار کانگریس کی ایم ایل اے رہی ہیں۔ کرن بی جے پی میں شامل ہو کر راجیہ سبھا کی رکن بن چکی ہیں۔ کانگریس کے سابق ایم ایل اے اور بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی بی آئی) کے صدر رنبیر سنگھ مہندرا کے بیٹے انیرودھ چودھری امیدوار ہیں۔ جاٹ ٹھاکر کے غلبہ والے توشام میں بی جے پی کا ووٹ بینک مانے جانے والے ٹھاکر پرمار کے پیچھے کھڑے ہیں۔ پرمار کا تعلق ٹھاکر برادری سے ہے۔ مقامی لوگ دی وائر کو بتاتے ہیں، ‘کرن چودھری کے خلاف علاقے میں اینٹی انکمبنسی ہے۔ اس کے علاوہ  جاٹ کانگریس کے ساتھ ہیں۔ ٹھاکروں کے پرمار کے ساتھ ہونے کی وجہ سے بی جے پی مشکل میں ہے۔’

باغیوں کی وجہ سے ان سیٹوں پر بی جے پی کمزور

مہم میں بی جے پی کبھی نہیں جیت سکی ۔ اس بار پارٹی نے ہندوستانی کبڈی ٹیم کے سابق کپتان دیپک ہڈا کو ٹکٹ دیا ہے۔ رادھا اہلوات پارٹی چھوڑ کر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ پچھلی بار بھی یہاں بی جے پی کے باغی بلراج کنڈو نے آزاد حیثیت سے کامیابی حاصل کی تھی۔

پنڈری میں بھی بی جے پی کبھی نہیں جیتی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ چھ انتخابات میں یہاں صرف آزاد امیدوار ہی جیتے ہیں۔ پچھلی بار رندھیر سنگھ گولن نے بغاوت کرکے بی جے پی سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس بار پارٹی نے یہاں سے ستپال جمبا کو ٹکٹ دیا ہے، جبکہ دنیش کوشک ٹکٹ چاہتے تھے۔ ٹکٹ نہ ملنے کے بعد کوشک آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ کوشک پہلے بھی یہاں دو بار آزاد حیثیت سے جیت چکے ہیں۔

جھجر سیٹ بھی بی جے پی کبھی نہیں جیتی ۔ یہاں 2005 سے کانگریس کا قبضہ ہے۔ ستبیر سنگھ نے پارٹی کے خلاف بغاوت کر دی ہے اور بی جے پی امیدوار کیپٹن بردھنا کے خلاف آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

‘ آزاد امیدوار ہی حکومت بنائیں گے ‘

دی وائر سے بات کرتے ہوئے توشام اسمبلی کے باپوڑا گاؤں کے سرپنچ سگریو سنگھ، جن کا تعلق بی جے پی سے ہے، کہتے ہیں کہ اس بار ریاست میں زیادہ سے زیادہ آزاد امیدواروں کی جیت کا ریکارڈ بنے گا۔ وہ کہتے ہیں، ‘بی جے پی اور کانگریس دونوں نے زمینی کارکنوں کے ٹکٹ کاٹے ہیں، لیکن بی جے پی نے اس میں اور زیادتی کی ہے۔ اس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑ سکتا ہے۔’

ہریانہ میں دی وائر سے بات کرتے ہوئے ووٹر یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ بی جے پی صرف منتخب باغیوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔ گزشتہ انتخابات کی طرح وہ حکومت سازی میں آزاد ایم ایل اے کی حمایت حاصل کرنے کے امکان کو زندہ رکھنا چاہتی ہے۔

دریں اثنا، کانگریس میں بھی باغیوں کی اچھی خاصی تعداد الیکشن لڑ رہی ہے۔ ووٹروں نے کہا کہ بی جے پی ان باغیوں کو ہوا دے رہی ہے۔ اس کی ایک سیدھی مثال چرخی دادری میں بھی دیکھی گئی، جب انتخابی دفتر میں بیٹھے کانگریس کے باغی آزاد امیدوار اجیت پھوگاٹ کے حامیوں/کارکنوں کو بی جے پی کی جیت کا دعویٰ کرتے دیکھا گیا۔

چرخی دادری کے ایک ووٹر کا کہنا ہے، ‘یہ تو بی جے پی کا کھڑا آدمی ہے…’ غور طلب  ہے کہ پچھلی بار بی جے پی کے باغی سوم ویر سانگوان نے آزاد حیثیت سے اس اسمبلی سیٹ سے الیکشن جیتا تھا۔