گجرات: اسکول میں ’میرے آئیڈیل گوڈسے‘ کے موضوع پر تقریری مقابلے کا انعقاد

ضلع ولساڈ کا معاملہ۔یہ مقابلہ 14 فروری کو ریاستی حکومت کے یوتھ سروس اینڈ کلچرل ایکٹیوٹی ڈپارٹمنٹ کے زیراہتمام ضلعی سطح پر'بال پرتبھاشودھ اپسردھا' (بچوں کے ٹیلنٹ کی تلاش کے لیے مقابلہ )ایک اسکول میں ہوا، جس میں تقریباً 25 سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں کے پانچویں سے آٹھویں جماعت کے طلبا نےحصہ لیا۔

ضلع ولساڈ کا معاملہ۔یہ مقابلہ 14 فروری کو ریاستی حکومت کے یوتھ سروس اینڈ کلچرل ایکٹیوٹی ڈپارٹمنٹ کے زیراہتمام ضلعی سطح پر’بال پرتبھاشودھ اپسردھا’ (بچوں کے ٹیلنٹ کی تلاش کے لیے مقابلہ )ایک اسکول میں ہوا، جس میں تقریباً 25 سرکاری  اور پرائیویٹ اسکولوں کے پانچویں سے آٹھویں جماعت کے طلبا نےحصہ لیا۔

فوٹو: بہ شکریہ ،وکی میڈیا کامنس

فوٹو: بہ شکریہ ،وکی میڈیا کامنس

نئی دہلی: گجرات حکومت نے ولساڈ ضلع میں اسکولی طلبا کے لیے ‘میرا آئیڈیل ناتھورام گوڈسے’ کے موضوع پر تقریری مقابلہ منعقدکرانے کی خبروں  کے چند گھنٹے بعدبدھ کو یوتھ ڈیولپمنٹ  افسر کو سسپنڈکر دیا۔

رپورٹ کے مطابق، یہ مقابلہ 14 فروری کو ریاستی حکومت کے یوتھ سروسز اینڈ کلچرل ایکٹیویٹی ڈپارٹمنٹ کے زیراہتمام ضلعی سطح پر چائلڈ ٹیلنٹ ریسرچ مقابلہ کے تحت کسم ودیالیہ میں منعقد ہوا، جس میں 25 سرکاری اور نجی اسکولوں کےپانچویں سے آٹھویں جماعت کے طلبا نے حصہ لیا۔

اسی دن مقابلے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلبا کو انعامات بھی دیے گئے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ولساڈ کے ضلع کلکٹر آگرے نے کہا، گاندھی نگر میں ثقافتی محکمے کے اعلیٰ حکام سے احکامات ملنے کے بعد ہم نے متعلقہ افسر نیتابین گاولی کو سسپنڈ کر دیا ہے۔ معاملے کی تحقیقات بھی شروع کر دی گئی ہے۔

دریں اثنا،کسم ودیالیہ کی انتظامیہ نے کہا کہ انہوں نے صرف اس تقریب کے لیے اپنا احاطہ دیا تھا اور ان کے اسکول کے کسی اساتذہ یا طالبعلم نے مقابلے میں حصہ نہیں لیا تھا۔

تاہم وائبس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، کسم ودیالیہ کی ایک طالبہ نے اس تقریری مقابلے میں حصہ لیا اور انعام بھی جیتا تھا۔

حالاں کہ ، اس طالبعلم نے کسی اور مضمون میں حصہ لیا تھا۔ تقریر کے علاوہ دیگر مقابلوں میں دوہا چھند چوپائی، لوک سنگیت، لوک گیت، مضمون نویسی، کورل میوزک، بھجن، لوک رقص، دستکاری اور دیگر مقابلے بھی شامل تھے۔

دوسری جانب ولساڈ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر بی ڈی بریا نے کہا کہ اس موضوع پر ہونے والے مقابلے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد بھی انہیں اس طرح کے کسی مقابلے کا علم نہیں تھا۔

انہوں نے کہا،ہمیں کسم ودیالیہ میں ایسے کسی پروگرام کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا کیونکہ اس کی منصوبہ بندی اور عمل آوری ضلع یوتھ ڈیولپمنٹ آفس نے کی تھی۔ یوتھ ڈیولپمنٹ آفس نے 8 فروری کو ضلع کے تمام 25 سرکاری اور نجی اسکولوں کو ایک خط بھیجا تھا جس میں طلبا سے 14 فروری کو ولساڈ کے کسم ودیالیہ میں منعقد ہونے والے مختلف مقابلوں میں حصہ لینے کو کہا گیا تھا۔ یہاں تک کہ مقابلوں کے جج کی  تقرری بھی  یوتھ ڈیولپمنٹ آفس نے کی تھی۔

وائبس آف انڈیا کے مطابق اس مقابلے کےموضوع  کی بڑے پیمانے پر مذمت کے بعد منتظمین نے پہلا انعام جیتنے والے طالبعلم کو ٹرافی واپس کرنےکی ہدایت دی۔

جس طالبعلم سے ایوارڈ واپس کرنے کا کہا گیا، اس نے افسردگی کے ساتھ کہا، میں نے اس کے لیے بہت محنت کی تھی اور میرے اساتذہ نے بھی مجھ پر یقین کیاتھا۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔

طالبعلم کو تقریر کے موضوع ‘میرا آدرش: ناتھورام گوڈسے’کے لیےاس کی فصاحت، موضوع کی معلومات اور اس کے جذبے  کےلیے پہلا انعام دیا گیا۔ حتیٰ کہ تقریر ختم ہونے کے بعد طالبعلم کو اسٹینڈنگ اوویشن بھی دی گئی تھی۔

یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جس افسر کوسسپنڈ کیا گیا ہے،  وہ وہی شخص تھا جس نے ‘آل آئی وانٹ از ٹو بی اے برڈ اینڈ فلائی ان دی اسکائی ‘ اور ‘آئی ول بکم اے سائنٹسٹ  اینڈ ناٹ گو ٹو امریکہ’جیسے  متنازعہ موضوعات کو منظوری دی تھی۔

بتادیں کہ 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ان کے حامیوں، بی جے پی لیڈروں اور آر ایس ایس سے وابستہ تنظیموں نے کئی بار مہاتما گاندھی کے قاتل گوڈسے کی کھل کر تعریف کی ہے۔

Next Article

جنگ بعد کی بات، حفاظتی انتظامات پر خاموشی کیوں؟

پہلگام حملے کے تقریباً چار ہفتے بعد بھی اس کو انجام دینے والے دہشت گردوں کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ملی ہے۔ وزیراعظم منہ توڑ جواب دینے کی بات کرتے ہیں، لیکن حفاظتی انتظامات کے بارے میں خاموشی ہے۔ آپریشن سیندور کے بعد کیا کچھ ہو رہا ہے،اس بارے میں دی وائر کی مدیر سیما چشتی اور سینئر صحافی ندھیش تیاگی سے تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔

Next Article

گجرات سماچار کے مالک ای ڈی کی حراست میں، کانگریس نے کہا – وجہ مودی حکومت کی تنقید

گجرات میں ای ڈی نے ریاست کے ایک مؤقر اخبار گجرات سماچار کے مالک کو مالی دھوکہ دہی کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ گجرات کانگریس کے صدر شکتی سنگھ گوہل نے کہا ہے کہ گرفتاری کی اصل وجہ وزیر اعظم اور حکومت کے خلاف اخبار کا تنقیدی موقف ہے۔

(تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

(تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: گجرات میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے ریاست کے مؤقر اخبار گجرات سماچار کے مالک کو مالی فراڈ کے الزام میں گرفتار کیا ہے ۔

دکن ہیرالڈ نے اخبار چلانے والے خاندان کے قریبی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ جمعرات (15 مئی) کی رات دیر گئے ای ڈی نے اخبار کے مالکان میں سے ایک باہوبلی شاہ کو حراست میں لے لیا۔

اپوزیشن پارٹی کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ ای ڈی نے شاہ کو وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کے خلاف اخبار میں تنقیدی موقف  کی وجہ سے حراست میں لیا ہے۔

گجرات کانگریس کے صدر اور راجیہ سبھا ایم پی شکتی سنگھ گوہل نے کہا، ‘ای ڈی نے محکمہ انکم ٹیکس کی کارروائی کے چند گھنٹے بعد ہی باہوبلی شاہ کو گرفتار کر لیا۔ ان کی گرفتاری کی اصل وجہ اخبار کا وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کے خلاف تنقیدی مضامین لکھنا ہے۔

بتایا جا رہا ہے کہ حراست میں لیے جانے کے بعد شاہ کو سینے میں درد اٹھا تھا، جس کے بعد انہیں طبی معائنے کے لیے وی ایس اسپتال لے جایا گیا، جہاں سے انہیں رات کو زائیڈس اسپتال منتقل کیا گیا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں گوہل نے الزام لگایا کہ انہیں گجرات نیوز کی حالیہ ہندوستان -پاکستان کشیدگی پر رپورٹنگ کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

گوہل نے پوسٹ میں کہا، ‘سچائی کے لیے کھڑے ہونے کی سزا بی جے پی حکومت کا نصب العین ہے۔ گجرات کا مؤقر اخبار گجرات سماچار ہمیشہ اقتدار کے خلاف کھڑا رہا ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ تاہم، حال ہی میں ہندوستان-پاکستان  تنازعہ میں بی جے پی حکومت اور پی ایم مودی کو آئینہ دکھانے کے لیےمودی نے اپنی پسندیدہ ٹول کٹ کو باہر نکال دیا ہے۔ انکم ٹیکس (آئی ٹی) اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے گجرات سماچار اور اس کے ٹیلی ویژن چینل جی ایس ٹی وی کے علاوہ دیگر کاروباری اداروں پر حملہ کیا ہے۔ گجرات سماچار کے مالک باہوبلی بھائی شاہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔’

گوہل نے مزید کہا، ‘تقریباً تین ہفتے قبل جب چھاپہ مارا گیا تھا، خاندان اپنی کل ماتااسمرتی بین کی موت کے بعد سے سوگ میں تھا۔ باہوبلی بھائی ایک بزرگ شہری ہیں اور انہیں صحت کے مسائل ہیں۔ میں مودی سرکار کی اس زیادتی  کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ اپنا کام کر رہے میڈیا کو بے رحمی سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بی جے پی کو جان لینا چاہیے کہ ہر میڈیا گودی میڈیا نہیں ہے اور وہ اپنی روح بیچنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ میں گجرات سماچار اور اقتدار کے سامنے سچ بولنے والے تمام میڈیا کے ساتھ کھڑا ہوں۔ جئے ہند۔’

Next Article

آپریشن سیندور: سوشل میڈیا پوسٹ کے سلسلے میں اشوکا کے پروفیسر گرفتار، بی جے پی لیڈر نے کی تھی شکایت

محمود آباد کو سیڈیشن اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔ اس سے قبل ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے محمود آباد کو ان کی سوشل میڈیا پوسٹ کے سلسلے میں طلب کیا تھا۔

علی خان محمود آباد۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس/محمود آباد)

علی خان محمود آباد۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس/محمود آباد)

نئی دہلی: ہریانہ پولیس نے اتوار (18 مئی) کو اشوکا یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر علی خان محمود آباد کو گرفتار کر لیا۔ یہ معاملہ آپریشن سیندور کی پریس بریفنگ کے حوالے سے ان کے تبصرے سے متعلق ہے۔

محمود آباد کو سیڈیشن اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں حراست میں لیا گیا ۔ اس سے قبل ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے محمود آباد کو پاکستان کے خلاف ہندوستان کے آپریشن سیندور کے بعد سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے سلسلے میں  طلب کیا تھا۔

ان کے خلاف ہریانہ میں بی جے پی یووا مورچہ کے جنرل سکریٹری یوگیش جٹھیری نے شکایت درج کروائی تھی۔ ایف آئی آر کے مطابق، جٹھیری ہریانہ کے ایک گاؤں کے سرپنچ ہیں، اور محمود آباد کے تبصرے سے انہیں تکلیف ہوئی ہے۔

حالاں کہ، پولیس نے ابھی تک عوامی طور پر ان کی گرفتاری پر کوئی  بیان نہیں دیا ہے، لیکن ہریانہ پولیس کے ایک سب انسپکٹر کی طرف سے دہلی کی مقامی پولیس کے ساتھ شیئر کیے گئے دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ محمود آباد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور انہیں سونی پت کی عدالت میں پیش کیا جانا ہے۔

ان کے اہل خانہ نے بتایا کہ پولیس نے انہیں اتوار کی صبح دہلی میں واقع ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لیا۔

اہل خانہ نے بتایا کہ ہریانہ پولیس کے تقریباً 10-15 اہلکار اتوار کی صبح تقریباً 6:30 بجے اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے اور محمود آباد کو مقامی پولیس اسٹیشن میں پیش کرنے کے بعد سونی پت لے گئے۔

پروفیسر محمود آباد اشوکا یونیورسٹی میں سیاسیات پڑھاتے ہیں۔

‘ہندوستان کی خودمختاری کو خطرے میں ڈالنا’

محمود آباد پر بھارتیہ نیائے سنہتا کی دفعہ 152 کے تحت ‘ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والے فعل’ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ان پر قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے، شہریوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کےارادے سے دانستہ اور بدنیتی پر مبنی کام کرنے، مذہب، نسل، مقام پیدائش، رہائش، زبان، ذات یا برادری کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان تعصب یا دشمنی، نفرت یا بغض و عداوت کے جذبات کو فروغ دینے کی کوشش کرنےکے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ محمود آباد کے خلاف مجرمانہ کارروائی ہریانہ اسٹیٹ ویمن کمیشن کی چیئرپرسن رینو بھاٹیہ کی جانب سے انہیں ایک نوٹس بھیجے جانے کے چند دن بعد سامنے آئی ہے، جس میں ان پر فوجی خواتین افسران، بالخصوص کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی توہین کرنے اور ہندوستانی مسلح افواج میں پیشہ ور افسران کے طور پر ان کے کردار کو کمزور قرار دینے کا الزام لگایا گیا تھا۔

محمود آباد پر حساس وقت میں لوگوں کو ملک کے خلاف اکسانے کا الزام لگایاہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ‘ایسے حساس وقت میں بیرونی طاقتوں کے خلاف لڑنے کے لیے لوگوں کو متحد کرنے کے بجائے پروفیسر جذبات کو بھڑکاتے رہے اور مذہب کے نام پر بیرونی یا غیر ملکی طاقتوں کو فائدہ پہنچانے کا کام کرتے رہے۔’

پروفیسر نے آپریشن سیندور کے بعد کرنل قریشی کی میڈیا بریفنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا پوسٹ لکھی تھی کہ کس طرح عام مسلمانوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔

اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے، ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے محمود آباد کو ایک نوٹس جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے طرز عمل، تبصروں اور بیانات سے خواتین کی حفاظت، سلامتی اور وقار سے متعلق سنگین خدشات پیدا ہوئے ہیں۔

نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ محمود آباد کی پوسٹ نے سرحد پار دہشت گردی کے جواب میں کیے گئے قومی فوجی اقدامات اور خواتین افسران کے کردار کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ تشدد کو بھڑکانے کی کوشش کی، خاص طور پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے اور قومی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے۔ اس پوسٹ سے خواتین کے وقار کو ٹھیس پہنچا ہے۔

وہ تبصرہ کیا تھا؟

آٹھ  مئی کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے اشوکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ محمود آباد نے کرنل صوفیہ قریشی کی ستائش کرنے والے ہندوتوایوں کے تضاد کو اجاگر کیا تھا۔ محمود آباد نے کہا تھا کہ کرنل قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی پریس بریفنگ ایک علامت کے طور پر اہم تھی، لیکن اسے زمینی حقیقت میں بدلنا ہوگا، ورنہ یہ محض منافقت ہے۔

اس کے بعد ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے دعویٰ کیا تھا کہ محمود آباد کے تبصرے نے ہندوستانی مسلح افواج میں خواتین افسران کی توہین کی اور فرقہ وارانہ منافرت کو فروغ دیا۔

خواتین کمیشن کے جواب میں محمود آباد نے کہا تھا کہ ‘میرے تبصرے کو مکمل طور پر غلط سمجھا گیا ہے اور کمیشن کے پاس اس معاملے میں کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے… مجھے جاری کیے گئے سمن اس بات کو اجاگر کرنے میں ناکام رہے کہ میری پوسٹ کس طرح خواتین کے حقوق یا قوانین کے خلاف ہے۔’

محمود آباد کے مطابق، ‘میں نے کرنل قریشی کی حمایت کرنے والے دائیں بازو کے لوگوں کی بھی تعریف کی اور ان سے عام ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ  بھی یہی رویہ اپنانے کے لیے کہا، جو روزانہ ہراسانی  کا سامنا کرتے ہیں… میرا تبصرہ شہریوں اور فوجیوں دونوں کی سلامتی کے بارے میں تھا۔ اس کے علاوہ، میرے تبصروں میں دور دور تک کوئی بدگمانی نہیں ہے۔’

اس معاملے پر اشوکا یونیورسٹی نے کہا تھا کہ پروفیسر کا یہ تبصرہ یونیورسٹی کی رائے کی نمائندگی نہیں کرتا۔

(اس  رپورٹ  کوہریانہ پولیس کے بیان کے ساتھ اپڈیٹ کیا جائے گا۔)

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

کبھی اینٹی نیشنل، کبھی دہشت گرد اور کبھی ماؤ نواز تنظیموں سے تعلقات: کیسے بدلتی رہی صحافی کی حراست کی بنیاد

سات مئی کو ناگپور پولیس نے کیرالہ سےتعلق رکھنے والے 26 سالہ صحافی رجاز ایم شیبا صدیق کو آپریشن سیندور کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیا۔ تین بار پولیس ریمانڈ میں  لیے جانے کے بعد، ان کی حراست کی وجوہات مسلسل بدلتی رہی ہیں۔ان پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ)، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) اور حزب المجاہدین سمیت متعدد کالعدم تنظیموں کے ساتھ مبینہ روابط کا الزام  عائد کیا گیاہے۔

کیرالہ کے صحافی رجاز ایم شیباصدیقی کو ناگپور پولیس نے جمعرات 8 مئی کو گرفتار کیا تھا۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

کیرالہ کے صحافی رجاز ایم شیباصدیقی کو ناگپور پولیس نے جمعرات 8 مئی کو گرفتار کیا تھا۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: 7 مئی کو ناگپور پولیس نے کیرالہ سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ صحافی رجاز ایم شیبا صدیق کو آپریشن سیندور (پاکستان اور پی او کے میں دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے پر ہندوستان کی فوجی کارروائی) کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیا تھا۔ ان کی گرفتاری اور تین بارپولیس ریمانڈ  میں لیے جانےکے بعد،  ان کی حراست کی وجوہات مسلسل بدلتی رہی ہیں۔

پولیس نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا تھا کہ ان کی گرفتاری ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ‘اینٹی انڈین آرمی’ اور ‘اینٹی انڈیا’ پوسٹ کرنے اور ‘دو پستول’ لہراتے ہوئے اپنی ایک انسٹاگرام فوٹو شیئر کرنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ ان پر جلد ہی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ)، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) اور حزب المجاہدین سمیت متعدد کالعدم تنظیموں کے ساتھ مبینہ روابط کا الزام لگایا گیا۔

پولیس نے اب الزام لگایا ہے کہ ان کا تعلق پونے میں واقع کلچرل گروپ کبیر کلا منچ (کے کے ایم) سے ہے، جو دلت اور بہوجن نوجوانوں کی تنظیم ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں، کے کے ایم اپنے تنقیدی خیالات کی وجہ سے جانچ  ایجنسیوں کی  نگرانی میں رہی ہے اور آخر کار اس پر ممنوعہ ماؤنواز تنظیم کا ‘فرنٹل’ ہونے کا الزام لگایا گیا۔

گزشتہ 15 مئی کو پولیس نے رجاز کو شام 7 بج کر 15 منٹ پر عدالت میں پیش کیا۔ جب تک ان کی حراست کا حکم جاری ہوا، تب تک رات کے تقریباً 10 بج چکے تھے۔ پولیس نے اضافی 10 دنوں کے لیے ان کی حراست کی درخواست کی، لیکن عدالت نے تین دن کی ہی اجازت دی۔

کیرالہ یونیورسٹی میں سوشل روک  کی پڑھائی کرنے والے رجاز  نیوز پلیٹ فارم مکتوب اور کاؤنٹر کرنٹ کے لیے لکھتے رہے ہیں۔ ان کےمضامین بنیادی طور پر دیگر مسائل کے علاوہ جیلوں میں پولیس کی زیادتیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مرکوز رہے ہیں۔ رجاز کے دوستوں اور ساتھ کام کرنے والوں کے مطابق، ایک نوجوان طالبعلم کے طور پر وہ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی) کا حصہ تھے۔ بعد میں وہ مایوس ہو گئے اور ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (ڈی ایس اے) میں شامل ہو گئے، ایک ایسی تنظیم جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ شدت پسند  بائیں بازوکی طرف  جھکاؤ  رکھتی ہے۔

پونے کا دورہ

پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ 2023 میں رجازنے پونے کا دورہ کیا تھااور کے کے ایم کے ارکان سے ملاقات کی تھی۔ کے کے ایم کے تین آرٹسٹ– جیوتی جگتاپ، ساگر گورکھے، رمیش گائچور – ایلگار پریشد کیس میں جیل میں بند ہیں۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرنا چاہتے ہیں کہ کیا رجاز دو دیگر لوگوں – سنتوش شیلار عرف ‘پینٹر’ اور پرشانت کامبلے عرف ‘لیپ ٹاپ’ سے ملنے پونے گئےتھے۔جہاں شیلار کو گزشتہ سال گرفتار کیا گیا تھا، وہیں کامبلے کو اس ماہ کے شروع میں گرفتار کیا گیا- دونوں کی گرفتاریاں 2011 کے کے ایم معاملے کے سلسلے میں ہوئی ہیں، جو ابھی زیر التواء ہے۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ شیلار اور کامبلے دونوں انڈر گراؤنڈ تھے۔ پولیس کے مطابق، شیلار کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ بیمار پڑگیا اور علاج کے لیے باہر آیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ کامبلے تھانے ضلع کے ایک دور دراز گاؤں میں کام کررہا تھا اور اسے وہیں سے گرفتار کیا گیا۔

پولیس کے مطابق، یہ دونوں پونے سے فرار ہوئے تھے، تاہم اب رجاز کی ریمانڈ کی درخواست میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس بات کی تفتیش کرنا چاہتے ہیں کہ کیا رجاز دونوں سے ملنے پونے گیا تھا۔

اپنی گرفتاری سے قبل، رجاز ‘ریاستی جبر کے خلاف مہم’ کے زیر اہتمام ایک پریس کانفرنس میں شرکت کے لیے دہلی گئے تھے۔ پولیس نے اب اس پلیٹ فارم کو بھی ایک ‘فرنٹل آرگنائزیشن’ برانڈ کیا ہے، اس کے باوجود ان کے دعوؤں کی حمایت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔ کانفرنس کے بعد رجاز ایک خاتون دوست سے ملنے ناگپور آئے اور دونوں کو شہر کے ایک ہوٹل سے اٹھایا گیا۔ رجاز کو گرفتار کر لیا گیا، جبکہ خاتون کو کئی گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ان کا بیان ریکارڈ کر لیا ہے۔

بندوقیں

ناگپور پولیس نے رجاز کو تین بار حراست میں لیا ہے۔ پہلے ریمانڈ اور ایف آئی آر میں صرف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعات شامل تھیں۔ ان پر بی این ایس کی دفعہ 149 کے تحت ‘حکومت ہند کے خلاف جنگ چھیڑنے کے ارادے سے اسلحہ یا دیگر مواد اکٹھا کرنے’ کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ دیگر الزامات میں بی این ایس کی دفعہ 192، 353(1)(بی،353(2)اور 353(3) کے تحت’دنگا بھڑکانے کے ارادے سے اشتعال انگیزی’اور ‘عوامی شرپسندی کو بڑھاوا دینے والے بیان’ شامل تھے۔

ان میں سے دفعہ 149 سب سے سنگین تھی۔ یہ الزام ایک انسٹاگرام اسٹوری سے شروع ہوا جس میں رجاز کو دو پستول پکڑے ہوئے دیکھا گیا تھا، جس کا کیپشن تھا’اپنے دفاع کے لیے لائسنس یافتہ’۔ ایف آئی آر کے وقت پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ اسلحہ اصلی تھا یا نہیں۔

تاہم، آٹھ دن اور تین حراست کے بعد، پولیس نے ناگپور کے ایک مقامی دکان کے ملازمین سے پوچھ گچھ کی، جہاں رجاز مبینہ طور پر ایک خاتون دوست کے ساتھ گیا تھا اور پستول کے ساتھ تصویر کھنچوائی تھی۔ دکان کے عملے اور مالکان نے تصدیق کی کہ پستول ایئر گن تھے اور یہ دونوں وہاں گئے تھے، تصویر بنوائی اور چلے گئے۔ اس کے باوجود ان کے خلاف دفعہ 149 لاگو ہے۔

ٹیرر اور لٹریچر

تیسری حراست کے دوران پولیس نے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کی دفعہ 38 اور 39 شامل کیں۔ دفعہ 38 ایک ‘دہشت گرد تنظیم’ کی رکنیت سے متعلق ہے، جبکہ دفعہ 39 ایک دہشت گرد تنظیم کی حمایت سے متعلق ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ رجاز مختلف نظریات کی حامل کئی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں، جو ان کی گرفتاری کے بعد کی گئی چھاپے ماری کے دوران ان کے فون اور ان کی کوچی کی رہائش گاہ سے برآمد ہونے والے مبینہ لٹریچر اورپرچے پرمبنی ہے۔

رجاز کے فون پر ملنے والے لٹریچر کے مواد کی ریمانڈ درخواست میں مکمل تفصیل نہیں ہے اور اسے ‘مشتبہ’ قرار دیا گیا ہے۔ پولیس نے رجاز کے گھر سے دو کتابیں برآمد کیں – ایک کارل مارکس کی اور دوسری کے مرلی کی کریٹکنگ برہمنواد۔ رجاز کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ یہ کتابیں ان کے والد کی ہیں، جو سوشل سائنس کے ایک ریٹائرڈ استاد ہیں، اور ان میں سے کسی پر بھی پابندی نہیں ہے۔

رجاز کے پاس موجود دیگر کتابوں میں جی این سائی بابا کی ہو ڈیفائیڈ ڈیتھ: لائف ایند ٹائمز، دی گریٹ لیگیسی  آف مارکسزم-لینن ازم: لینن آن دی سوشلسٹ اسٹیٹ  اینڈ اونلی پیپل میک دیئر اون ہسٹری اور مرحوم مارکسی دانشور اعجاز احمد کا لکھا ایک تعارف شامل ہیں ۔ یہ کتابیں بھی وسیع پیمانے پر دستیاب ہیں۔

ریمانڈ کی درخواست میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ رجاز ممنوعہ ماؤنواز تنظیم کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے میں مدد کر رہا تھا۔ پولیس کا یہ دعویٰ رجازکی گرفتاری کے وقت ان کے پاس سے ملے نظریہ میگزین کے ایک پمفلٹ پر مبنی ہے ۔

سوشل میڈیا پر سرگرم نظریہ کو ماؤ نواز نظریات کی حمایت کے لیے جانا جاتا ہے اور اس نے حال ہی میں کالعدم پارٹی کے جنگ بندی اور امن مذاکرات کے مطالبات کی حمایت کی ہے۔ تاہم،نظریہ نہ تو کالعدم تنظیم ہے اور نہ ہی حکومت نے اسے ‘فرنٹ’ تنظیم قرار دیا ہے۔ دی وائر نے پمفلٹ میں درج فون نمبر پر رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

ناگپور پولیس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ رجاز کے مرلی کے قریبی رابطے میں رہا ہے، جنہیں پہلے ماؤنوازوں سے تعلقات کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، لیکن رہائی کے بعد سے وہ کوچی میں رہتے ہیں، جو رجاز کے گھر کے بہت قریب ہے۔ پولیس کا الزام ہے کہ مرلی ماؤنواز مرکزی کمیٹی کا رکن ہے، لیکن ریمانڈ کی درخواست میں کسی ثبوت کے ساتھ اس دعوے کی تائید نہیں کی گئی ہے۔ مرلی نے کالعدم تنظیم کے ساتھ کسی بھی موجودہ روابط سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ماضی میں اس تحریک میں شامل تھے۔

پولیس نے انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 67 کو بھی لاگو کیا ہے، جو الکٹرانک شکل میں’فحش مواد’کی اشاعت یا ترسیل سے متعلق ہے۔ پولیس نے یہ واضح نہیں کیا کہ رجاز سے ضبط کیے گئے الکٹرانک آلات سے کون سا فحش مواد ملا ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

ایس پی لیڈر کا بی جے پی پر طنز، بولے- ویومیکا سنگھ کی کاسٹ پتہ ہوتی تو انہیں بھی گالیاں دیتے

ایس پی کے قومی جنرل سکریٹری اور ایم پی رام گوپال یادو نے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کرنل صوفیہ قریشی پر بی جے پی کے وزیر کنور وجئے شاہ کے تبصرے پر طنز کیا اور کہا کہ اگر بی جے پی کو دوسرے افسران کی کاسٹ  کے بارے میں  پتہ ہوتا تو وہ انہیں بھی گالیاں دیتے۔

سماج وادی پارٹی کے سینئر لیڈر اور راجیہ سبھا ایم پی رام گوپال یادو۔ (تصویر: X.com/@proframgopalya1)

سماج وادی پارٹی کے سینئر لیڈر اور راجیہ سبھا ایم پی رام گوپال یادو۔ (تصویر: X.com/@proframgopalya1)

نئی دہلی: مدھیہ پردیش میں اپنے ایک وزیر کی جانب سے کرنل صوفیہ قریشی کے بارے میں فرقہ وارانہ طور پرتضحیک آمیز تبصرہ کرنے کے بعد بیک فٹ پر آئی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 15 مئی کو سماج وادی پارٹی کے سینئر اپوزیشن لیڈر رام گوپال یادو کے خلاف ایک ریلی نکال کر ماحول بدلنے کی کوشش کی۔

معلوم ہو کہ رام گوپال یادو نے آپریشن سیندور میں شامل افسران کے ذات پات کے پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے بی جے پی کو نشانہ بنایا تھا۔

جمعرات (15 مئی) کو یوپی کے مراد آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سماج وادی پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری اور راجیہ سبھا کے رکن یادونے بی جے پی پر ان کے وزیر کنور وجئے شاہ کی جانب سے کرنل قریشی کو ‘دہشت گردوں کی بہن’ کہنےکو لے کر طنز کیا۔

قابل ذکر ہے کہ کنور وجئے شاہ کے متنازعہ بیان کو لے کر مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے پولیس کو مزید کارروائی کے لیے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے۔

رام گوپال یادو نے اپنی تقریر میں سب سے پہلے بی جے پی کی جانب سے آپریشن سیندور کا جشن منانے کے لیے ملک بھر میں شوریہ ترنگا یاترا شروع کرنے پر تنقید کی اور کہا کہ جموں و کشمیر میں دراندازی کے واقعات اب بھی جاری ہیں۔

یادو نے کہا، ‘دہشت گرد ہر روز مارے جا رہے ہیں۔ وہ پاکستان سے آرہے ہیں۔ اور وہ (بی جے پی) ترنگا یاترا نکال رہے ہیں۔ یہ صرف الیکشن کے لیے کر رہے ہیں۔’

اپنے بیان میں انہوں نے کرنل قریشی کے حوالے سے وزیر شاہ کے ریمارکس اور ہائی کورٹ کے حکم کا حوالہ دیا اور کہا کہ اگر انہیں دوسرے افسران کی کاسٹ معلوم ہوتی تو وہ انہیں بھی گالیاں  دیتے۔

ایس پی ایم پی یادو نے کہا، کرنل قریشی کو ان کے وزیر نے  گالی تک  دی، ہائی کورٹ نے ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ویومیکا سنگھ کون ہیں اور نہ ہی وہ ایئر مارشل اودھیش کمار بھارتی کے بارے میں جانتے تھے، جو اس آپریشن کے انچارج تھے، ورنہ وہ انہیں بھی گالیاں دیتے۔ میں  آپ کو بتا دوں کہ ویومیکا سنگھ ہریانہ سے تعلق رکھنے والی جاٹو چمار ہیں۔ ایئر مارشل اے کے بھارتی پورنیہ کے یادو ہیں۔ تینوں کا تعلق پی ڈی اے سے تھا۔ ایک کو گالی دی گئی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ وہ مسلمان ہے، ایک کو راجپوت سمجھا گیا، اس لیے کچھ نہیں کہا گیا اور دوسرے کے بارے میں ان کے پاس کوئی معلومات نہیں ہے۔’

پی ڈی اے سے مراد ایس پی سربراہ اکھلیش یادو کی انتخابی حکمت عملی ہے – جس میں بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈے کے خلاف پسماندہ ذاتوں، دلتوں اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو متحد کرنا شامل ہے۔ رام گوپال یادو اکھلیش یادو کے چچا ہیں۔

حملہ آور بی جے پی

کرنل قریشی کے خلاف شاہ کے تبصرے سے بیک فٹ پر آئی  بی جے پی نے یادو پر حملہ کرتے ہوئے  ان پر ذات پات کے چشمے سے فوج کی توہین کرنے کا الزام لگایا۔

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا، ‘فوج کی وردی کو ذات پات کے چشمے سے نہیں دیکھا جاتا۔ ہندوستانی فوج کا ہر سپاہی ‘راشٹردھرم’ نبھاتا ہے اور کسی ذات یا مذہب کا نمائندہ نہیں ہوتا۔’

ایس پی پر حملہ کرتے ہوئے آدتیہ ناتھ نے مزید کہا، ‘سماج وادی پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری کا ایک بہادر بیٹی کو ذات کی حدود میں باندھنا نہ صرف ان کی پارٹی کی تنگ نظری کا مظاہرہ ہے، بلکہ یہ فوج کی بہادری اور ملک کی شان کی بھی شدید توہین ہے۔

آدتیہ ناتھ نے کہا، ‘یہ وہی ذہنیت ہے جو اپیزمنٹ اور ووٹ بینک کی سیاست کے نام پرحب الوطنی کو بھی تقسیم کرنے کی ہمت رکھتی ہے۔’

بی جے پی کے اتر پردیش کے صدر بھوپیندر چودھری نے کہا کہ دہشت گردوں اور پاکستان کے حوصلے کو توڑنے والی ملک کی بیٹی ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کے بارے میں یادو کا ‘ذات پرستانہ بیان’ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ فوج کی بے مثال ہمت، بہادری اور مادر وطن کی شان  کی بھی شدید توہین ہے۔

چودھری نے کہا، ‘رام گوپال یادو شاید بھول گئے ہیں کہ آپریشن سیندور کو کامیابی کے ساتھ مکمل کر کے ملک کی بیٹی نے مادر وطن کی آن بان  اور شان کو پوری دنیا میں پھیلانے کا ایک منفرد کام کیا ہے، جو اپنے آپ میں بے مثال اور قابل تعریف ہے۔’

بی ایس پی نے بھی مذمت کی

بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی، جو خود جاٹو دلت ہیں، نے یادو اور بی جے پی دونوں کو ان کے ‘شرمناک اور قابل مذمت’ بیان پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا،’پورا ملک متحد ہے اور پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف ہندوستانی فوج کے آپریشن سیندور کی بہادری پر فخر ہے۔ ایسے میں فوج کو مذہب اور ذات کی بنیاد پر تقسیم کرنا انتہائی نامناسب ہے۔’

معاملے کو بڑھتے دیکھ کر رام گوپال یادو نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے وضاحت  پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے بیان کو سنے بغیر توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔

انہوں نے وضاحت پیش  کرتے ہوئے کہا کہ شمالی ہند کی کچھ ریاستوں بالخصوص اترپردیش میں جہاں مذہب، ذات اور طبقے کی بنیاد پر لوگوں کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کیے جا رہے ہوں، ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر انکاؤنٹر کیے جا رہے ہوں، ذات، مذہب اور طبقے کی بنیاد پر گینگسٹر ایکٹ لگا کر جائیدادیں ضبط کی جا رہی ہوں، خواتین پر تشدد کیا جا رہا ہو،ذار اور  مذہب دیکھ کر افسران اور ملازمین کی پوسٹنگ کی جاتی ہوں ایسی ذہنیت کے لوگوں کے بارے میں میں نے کل ایک پروگرام میں کہا تھا کہ کرنل صوفیہ کا مذہب نام سےپہچان لیے اس لیے گالی دی گئی، سکریٹری خارجہ مصری کو گالی دی گئی، اگر ان گالی بازوں کو پتہ چل جاتا کہ ویومیکا سنگھ جاٹو ہیں اور ایئر مارشل اودھیش بھارتی یادو ہیں تو یہ  ان افسران کو بھی گالیاں دینے سے  باز نہیں آتے۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)