گورکھپور کے جس سہسراؤں گراؤنڈ میں پسینہ بہانے کے بعد 3800 لڑکے اور 28 لڑکیوں کا انتخاب گزشتہ ڈھائی دہائیوں میں فوج اور نیم فوجی دستوں میں کیا گیا، وہاں آج ویرانہ آباد ہے۔ اگنی پتھ اسکیم کی وجہ سے نوجوانوں میں فوج کے لیے جوش و جذبہ ختم ہو گیا ہے۔
گورکھپور: سہسراؤں کے پرائمری اسکول کے بالکل ساتھ میں واقع گراؤنڈ میں سنیچر کی شام کو کوئی نہیں تھا۔ میدان کے ایک طرف نصب لوہے کے پانچ پائپ اب بھی موجود ہیں،لیکن ان پر لہرانے والے جھنڈے اب نہیں رہے۔ صرف ایک پائپ پر پرانا جھنڈا ابھی تک لٹک رہا ہے۔ یہاں اینٹوں کو سفید چونے سے پینٹ کر کے ‘سینک کیرئیر سینٹر’ لکھا گیا ہے جسے کوشش کرنے کے بعد ہی پڑھا جا سکتا ہے۔ میدان کے دوسرے سرے پر فزیکل ٹریننگ کے لیے بنائے گئے لوہے کے پائپ زنگ کی وجہ سے کالے پڑتے جا رہے ہیں۔
پرائمری اسکول کے احاطے میں کھیل رہی پانچ چھ لڑکیوں میں سب سے چھوٹی مونیکا نے کہا کہ، ‘اب یہاں کوئی نہیں آتا۔ صبح کیپٹن صاحب آتے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک دو اور لوگ ہیں جو گراؤند میں ٹہلتے ہیں اور ورزش کرتے ہیں۔ دو سال سے یہی صورتحال ہے۔ پہلے بہت سے لڑکے اور لڑکیاں صبح و شام آتے تھے۔ وہ یہاں دوڑ لگاتےتھے اور رسی پھاندتے تھے۔’
سہسراؤں کا یہ میدان آج خود کو تنہا محسوس کر رہا ہے، لیکن تقریباً 25 سال تک یہ نوجوانوں سے بھرا رہتا تھا۔ یہ گراؤنڈ گورکھپور سے چوری چوڑا ہوتے ہوئے میٹھابیل گاؤں کے قریب واقع ہے۔ یہ نہ صرف اس علاقے میں بلکہ یوپی کے کئی اضلاع میں مشہور تھا۔ اس کا نام بہار اور چھتیس گڑھ تک پہنچ گیا تھا۔ آج بھی چوری چوڑا سے نئی بازار جانے والی سڑک پر آپ کسی سے ‘کیپٹن’ اور ‘گراؤنڈ’ کے بارے میں پوچھیں تو وہ فوراً بتا دے گا۔
نئی بازار کے پہلے موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں سے کیپٹن صاحب کے گھر کا پتہ پوچھا تو ان میں سے ایک سمت نے کہا، ‘ان کا گھر چھ کلومیٹر دور ہے۔ میں بھی اپنی بہن کے ساتھ ان کے گراؤنڈ میں پریکٹس کر چکا ہوں۔’
گراؤنڈ نے صرف فوجی ہی نہیں بلکہ قومی سطح کے کھلاڑی بھی دیے
سہسراؤں گراؤنڈ کے ایک کونے میں نصب بورڈ اور اس کے ساتھ پتھر پر لکھی ہوئی عبارت اس کی شہرت کی داستان بیان کرتی ہے۔ بورڈ کے مطابق یہ گراؤنڈ دراصل ‘سینک کیریئر سینٹر ہے’ اور یہ فوج، بحریہ، پولیس، نیم فوجی فضائیہ، آر پی ایف، ایس ایس بی، سی آر پی اے، پی اے سی جیسی بھرتیوں کا پلیٹ فارم ہے۔
پتھر پر درج ہے – قیام کا سال 1993۔ حصولیابیاں – لڑکے – 3800، لڑکیاں 28۔ قومی سطح کے کھلاڑی – پانچ۔ سب سے آخر میں لکھا ہے- کھیلو گے، کودو گے، بنو گے نواب ، ہنر اپنی پہچانو، کرو دل پر راج۔
یہ گراؤنڈ ریٹائرڈ کیپٹن آدیہ پرساد دوبے کی دریافت تھی۔ 25 سال پہلے انہوں نے نوجوانوں کو فوج اور نیم فوجی دستوں میں شامل ہونے کے لیے اس میدان میں پسینہ بہانے کی ترغیب دی۔ چند ہی سالوں میں سینکڑوں نوجوان فوج میں بھرتی کے لیے صبح و شام یہاں دوڑنے لگے اور فزیکل ٹریننگ کرنے لگے۔
نوجوانوں کی کامیابی کی کہانیوں نے کیپٹن آدیہ پرساد دوبے اور اس گراؤنڈ کو مشہور کر دیا، لیکن اگنی ویر اسکیم کے تحت فوج میں چار سال بھرتی کے اعلان کے بعد نوجوان اس قدر مایوس ہو گئے کہ آج یہ سینٹر بند ہو گیا ہے اور اب یہاں کوئی نوجوان اپنے خوابوں کو پورا کرنے نہیں آتا۔
بے روزگار نوجوانوں کو ریٹائرڈ کیپٹن نے دکھائے خواب
کیپٹن آدیہ پرساد دوبے کا گھر اس گراؤنڈ سے ایک کلومیٹر پہلے میٹھابیل گاؤں میں ہے۔ سنیچر کی شام وہ گھر پر نہیں تھے۔ انہوں نے فون پر اس جگہ کی 25 سالہ کہانی سنائی۔
انھوں نے بتایا کہ ‘جب 1992 میں ریٹائرمنٹ کے بعد گاؤں آیا تو میں نے دیکھا کہ یہاں کے نوجوان یا تو بے روزگاری کی وجہ سے ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں یا بڑے شہروں میں جا کر مزدوری کر رہے ہیں۔ غربت کی وجہ سے وہ صرف انٹرمیڈیٹ (12ویں) تک تعلیم حاصل کر پاتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ یہاں کے نوجوان جسمانی اعتبار سے ہریانہ یا جنوبی ہندوستان کے نوجوانوں سے کم نہیں ہیں، لیکن صحیح رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے وہ اپنے لیے کیریئر کا انتخاب نہیں کر پا رہے۔ میں بھی غربت سے لڑتے ہوئے فوج میں پہنچا تھا اور اپنا مقام بنایا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اگر ان نوجوانوں کو فوج اور نیم فوجی دستوں میں بھرتی ہونے کی ترغیب دی جائے تو شاید حالات بدل سکتے ہیں۔’
وہ مزید بتاتے ہیں، ‘شروع میں کافی کوشش کے بعد چار پانچ لڑکے تیار ہوئے۔ان کے ساتھ میٹھابیل میں تقریباً 300 مربع میٹر کے ایک چھوٹے سے خالی میدان میں دوڑ کی مشق شروع کرائی۔ میں صبح چار بجے گراؤنڈ پہنچ جاتا تھا۔ دوڑ اور پی ٹی کے ساتھ ساتھ ‘ساودھان وشرام’ کی ورزش کرانے لگا۔ چھ ماہ تک 1600 میٹر ریس کی مشق کرائی۔ کچھ دنوں کے بعدہی گورکھپور کے کوڑ گھاٹ میں فوج کی بھرتی ہوئی۔ اس میں ہمارے ساتھ پریکٹس کرنے والا نوجوان منتخب ہو گیا۔ وہ تھرڈ ڈویژن میں انٹرمیڈیٹ پاس تھا۔ اس نے نوکری کی امید چھوڑ دی تھی لیکن چند ماہ کی جسمانی ورزش نے اس میں نئی توانائی بھر دی اور وہ فوج میں شامل ہو گیا۔ اس نوجوان کے ساتھ کچھ اور نوجوانوں کو ریلوے پروٹیکشن فورس میں منتخب کیا گیا۔ اس کے بعد نوجوانوں کی زیادہ تعداد آنے لگی۔ تعداد 50 تک پہنچ گئی۔’
ایک خبر کے بعد بنتا گیا کارواں
کیپٹن بتاتے ہیں کہ ایک روزنامے میں شائع ہونے والی خبر نے کیسے ماحول بدل دیا۔
وہ کہتے ہیں، ایک روزنامہ میں اس بارے میں (نوجوان کے فوج میں نوکری لگنے)خبر شائع ہوئی۔ اس کے بعد یہاں پر پوروانچل کے اضلاع سے لڑکےآنے لگے۔ بہار اور چھتیس گڑھ تک سے لڑکے آئے۔ لڑکیوں نے دلچسپی ظاہر کی تو انہیں بھی فزیکل ٹریننگ میں شامل کیا گیا۔ اب یہ گراؤنڈ چھوٹا پڑنے لگا۔ ایک بڑے گراؤنڈ کی تلاش شروع ہوئی تو سہسراؤں کی بنجر زمین کام کی نظر آئی۔ سہسراؤں کے پردھان نے بھی مدد کی ۔دو ہفتوں کے اندر اسے صاف کر کے مشق کے لیے موزوں گراؤنڈ میں تبدیل کر دیا گیا۔’
کپتان آدیہ پرساد دوبے پریکٹس کرانے کی کوئی فیس نہیں لیتے تھے۔ نوجوان ناشتے، کپڑے، جوتے اور جرابوں کے اخراجات برداشت کرتے تھے۔ اس میں بھی لڑکوں کی مدد کی جاتی تھی۔ دوبے کے مطابق، انہوں نے فزیکل ٹریننگ کا ماڈیول اس طرح تیار کیا کہ نوجوان پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں 1600 میٹر کی دوڑ دوڑ سکیں۔ اس سے یہاں کے نوجوانوں کا انتخاب آسان ہو گیا۔ لیکن بعد میں انہوں نے پایا کہ نوجوان تحریری امتحان میں پیچھے رہ جا رہے ہیں۔ پھر انہوں نے پڑھائی پر بھی زور دینا شروع کیا۔
دوبے کا کہنا ہے کہ ڈھائی دہائیوں میں فوج اور نیم فوجی دستوں میں 3800 لڑکے اور 28 لڑکیوں کا انتخاب ہوا۔ کورونا کے دور میں بھی یہ سینٹر کام کرتا ہے۔ سینٹر کی شہرت سن کر کئی رہنما بھی آئے اور یہاں اسٹیڈیم بنانے کا وعدہ کیا جو ابھی تک پورا نہیں ہوا۔
ٹریننگ لینے والے پچھڑے اور دلت نوجوان زیادہ
اس مرکز میں تربیت لینے والے زیادہ تر نوجوان پچھڑے اور دلت برادریوں سے تعلق رکھتے تھے۔
دوبے کے مطابق، اعلیٰ ذات برادری کے نوجوانوں نے کم دلچسپی دکھائی۔ اعلیٰ ذات برادری کے نوجوان جو یہاں آئے تھے ان کی جسمانی طاقت کم تھی اور وہ کورس مکمل کرنے سے پہلے ہی چلے گئے۔
وہ کہتے ہیں، ‘سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ جون 2022 کے دوسرے ہفتے میں فوج میں اگنی ویر یوجنا کا اعلان کیا گیا۔ اس اعلان سے سہسراؤں کے سینک سینٹر کو زبردست جھٹکا لگا۔ یہاں آنے والے نوجوانوں کی تعداد کم ہوتی گئی اور چند مہینوں کے بعد یہ بالکل ختم ہو گئی۔ مرکز بند ہوگیا۔’
اب نوجوان فوج میں شامل نہیں ہونا چاہتے: کیپٹن دوبے
دوبے مرکز کے بند ہونے کی وجہ اگنی ویر اسکیم کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کی اب فوج میں بھرتی ہونے کی دلچسپی ختم ہو گئی ہے۔ میں نے نوجوانوں کو آتے رہنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ کہتے ہیں کہ چار سال فوج میں رہنے اور پھر بے روزگار رہنے سے بہتر ہے کہ کوئی اور کام تلاش کر لیا جائے۔
کیپٹن دوبے اگنی ویر اسکیم پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے نظر آئے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ حکومت کی سوچ ہے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ اس اسکیم سے نوجوانوں میں مایوسی پیدا ہوئی ہے۔ ان میں فوج میں جانے کا چارم ختم ہو گیا ہے۔’
سہسراؤں گراؤنڈ کے سامنے سڑک پار رنجیت نشاد کی دوا کی دکان ہے۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ اگنی ویر اسکیم کی وجہ سے بچوں نے یہاں آنا بند کر دیا ہے۔ دور دور سے بچے آکر یہاں سے نئی بازار تک کرایہ کے مکانوں میں رہتے تھے اور فوج میں بھرتی کی تیاری کرتے تھے۔
سہسراؤں کے مرکز سے واپسی کے دوران ہماری ملاقات دو نوجوانوں سے ہوئی جو ایک نل کوپ پر نہانے جا رہے تھے۔ ان میں سے ایک آدرش نے بتایا کہ اس نے بھی اس مرکز میں کچھ دنوں تک پریکٹس کی تھی۔ اس نے فروری کے مہینے میں سپاہی بھرتی کا امتحان بھی دیا تھا لیکن پیپر لیک ہونے کی وجہ سے امتحان رد ہو گیا تھا۔ آدرش نے بتایا کہ ان کے گروپ کے 15-20 لڑکے کیپٹن صاحب کے ٹریننگ سینٹر میں پریکٹس کرتے تھے۔ بہار کے لڑکے بھی تیاری کے لیے آتے تھے۔ اگنی ویر اسکیم کے بعد اب وہاں کوئی نہیں جاتا ہے۔
اگنی ویر اسکیم پر تبصرہ کرتے ہوئے آدرش نے کہا، ‘پہلے 35 سال تک نوکری رہتی تھی۔ اب یہ صرف چار سال میں ختم ہو جائے گی۔ اس کے بعد کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ اس سے تو ایک پوری نسل برباد ہو جائے گی۔’
دوران گفتگو آدرش کے دوست جمشید آگئے۔ آدرش نے بتایا کہ انہوں نے بھی سپاہی بھرتی کا امتحان دیا تھا۔ اب دوبارہ تیاری کر رہے ہیں۔
آدرش نے کہا، ‘اس الیکشن میں بے روزگاری ایک بڑا مسئلہ ہے۔جو بھی لڑکے بھرتی کے امتحان کی تیاری کر رہے ہیں وہ بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ ہمیں لگتا ہے کہ اس بار تبدیلی آئے گی۔’
بھینسیں چرا رہے رام نکشتر پاسوان بھی گفتگو میں شامل ہوگئے۔بولے،’کیپٹن صاحب اتنی محنت کر رہے تھے لیکن اب سب کچھ بے کار ہو گیا۔ کیا کریں، سرکار ایسا ہے کہ بچے سب بے کار ہو گئے۔’
مرکز کے بند ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے پاسوان نے کہا، ‘آپ بتائیں کہ آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں؟ اس لیے نہ کہ آپ کو یہاں پانی مل رہا ہے۔ اگر یہاں پانی نہ ہوتا تو آپ یہاں نہیں رکتے۔ یہی حال سینک سینٹر کے ساتھ ہوا۔ جب بھرتی نہیں ہوگی تو لڑکے وہاں کیوں جائیں گے۔’
پاسوان نے مزید کہا، ‘اس حکومت میں نوجوان بے روزگار ہیں۔ دس سال ہو گئے ہیں کوئی بھرتی نہیں آئی۔ ہم درخت اس لیے لگاتے ہیں کہ وہ سایہ دے۔ درخت سایہ نہ دے تو بہتر ہے کہ اسے کاٹ دیا جائے۔ سمجھے کہ نہیں۔ آپ لوگ تو سمجھدار ہیں۔’
(منوج سنگھ گورکھپور نیوز لائن ویب سائٹ کے مدیر ہیں۔)
( اس سیریز کی تمام رپورٹس پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )