انوراگ نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ، بات بہت دور نکل چکی ہے، اب اور خاموش نہیں رہا جاسکتا۔
نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا کے ساتھ پولیس کی بربریت کے بعد فلمساز انوراگ کسیپ نے ٹوئٹر پر واپسی کی اور انہوں نے اپنے غصے کا اظہار کیا ہے ۔قابل ذکر ہے کہ اس سال اگست میں انہوں نے ٹوئٹر کو الوداع کہہ دیا تھا۔ کیوں کہ ان کو ٹوئٹر پر جہاں ٹرول کیا جارہا تھا وہیں ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دی جارہی تھیں ۔انہوں نے طلبا پر پولیس کی کارروائی مذمت کرتے ہوئے مودی حکومت کو فاشسٹ حکومت قرار دیا ۔
انہوں نے کہا کہ ، اب وہ اور خاموش نہیں رہ سکتے۔انوراگ نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ، بات بہت دور نکل چکی ہے، اب اور خاموش نہیں رہا جاسکتا۔ یہ حکومت واضح طو رپر فاشسٹ ہے ۔ مجھے اس بات کا بہت غصہ ہے کہ ایک آواز جس سے فرق پڑسکتا ہے ، وہ چپ ہے۔
This has gone too far.. can’t stay silent any longer . This government is clearly fascist .. and it makes me angry to see voices that can actually make a difference stay quiet ..
— Anurag Kashyap (@anuragkashyap72) December 16, 2019
فلم انڈسٹری سے اٹھنے والی دوسری آوازوں میں مہیش بھٹ،تاپسی پنو، رچا چڈھا، ذیشان ایوب، انوبھوسنہا،وکرانت میسی ،ریما کاگتی، سید احمد افضال، فہیم خان،اویناش داس اورمیر علی فیضل کے نام قابل ذکر ہیں ۔
تاپسی پنو نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ، کیمپس کے اندر پولیس کی کارروائی کے ویڈیو دل دہلا دینے والے ہیں ۔ مجھے حیرت نہیں ہے کہ شاید یہ انجام کی شروعات ہو۔ انہوں نے کہا کہ ، یہ جو بھی ہورہا ہے نیا ہو رہا ہے جہاں نئے طرح کے قوانین بنائے جارہے ہیں جس میں اگر کوئی فٹ نہیں بیٹھتا تو وہ اس کا انجام بھگت رہا ہے۔
Wonder if this is a start or the end. Whatever it is, this is surely writing new rules of the land and those who don’t fit in can very well see the consequences.
This video breaks heart n hopes all together. Irreversible damage,and I’m not talking about just the life n property https://t.co/QGaZYpDCR6— taapsee pannu (@taapsee) December 16, 2019
یہ ویڈیوز دل شکن ہیں اور ساتھ ہی امید شکن بھی ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ میں صرف جان ومال کے نقصان کی بات نہیں کر رہی ہوں۔
In 1987 I made a film called Yeh Woh Manzil Toh Nahin on the background of student politics . Towards the climax the police enter the campus and brutally beat up the students . Nothing has changed . Terrible that now we know where the flowers gone . Crushed !
— Sudhir Mishra (@IAmSudhirMishra) December 16, 2019
فلمساز سدھیر مشرا نے ٹوئٹ کیا کہ ، میں نے 1987 میں طلبا کی سیاست کے پس منظر میں ایک فلم یہ وہ منزل تو نہیں بنائی تھی ۔ اس فلم کے کلائمکس میں پولیس کیمپس میں داخل ہو کر طلبا کو بے رحمی سے پیٹتی ہے۔ کچھ نہیں بدلا ۔
فلمساز انوبھو سنہا نے اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ، اگر آپ کی کوئی رائے نہیں ہے تو آپ آئن کان نہیں ہو، آپ بزنس مین ہو۔
FUCK YOU EVERYONE WHO DOES NOT HAVE AN OPINION!!!! FUCK YOU!!! FUCK YOU AGAIN!!!! YOU ARE NO ICONS!!! YOU ARE BUSINESSMEN!!!! FUCK YOU!!!
— Anubhav Sinha (@anubhavsinha) December 15, 2019
اداکارہ کونکنا سین نے ٹوئٹ کیا کہ ، ہم طلبا کے ساتھ ہیں ، دہلی پولیس شرم کرو۔
We are with the students! Shame on you @DelhiPolice
— Konkona Sensharma (@konkonas) December 15, 2019
ہالی ووڈ اسٹارجان کیوسک نے سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کو اپنے علم میں لیتے ہوئے انہوں نے احتجاج کے تناطر کے بارے میں پوچھا اور لکھا ، دہلی سے آنے والی خبریں ہیں ، گزشتہ شب ایک جنگی میدان تھا ۔ فاشزم کوئی مذاق نہیں ہے ۔ ہم اس کا استعمال سمجھ کے ساتھ کرتے ہیں ۔اس کا استعمال بہت خطرناک ہے۔
Solidarity @arnav_d: Thank you John for speaking up. Thank you. https://t.co/LEpHMFACmM”
— John Cusack (@johncusack) December 16, 2019
راج کمار راؤ نے طلبا کے خلاف پولیس کارروائی کی مذمت کی اور پرامن احتجاج کی اپیل کی ۔ انہوں نے لکھا کہ ، میں سخت لفظوں میں پولیس کی کارروائی کی مذمت کرتا ہوں ۔ ایک جمہوریت میں شہری کو پرامن احتجاج کرنے کا حق ہے۔انہو ں نے یہ بھی کہا کہ ، میں کسی بھی طرح کی پبلک پراپرٹی کونقصان پہنچانے کی مذمت کرتا ہوں ۔ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
I strongly condemn the violence that the police have shown in dealing with the students. In a democracy the citizens have the right to peacefully protest.I also condemn any kind of act of destruction of the public properties. Violence is not the solution for anything!
— Rajkummar Rao (@RajkummarRao) December 16, 2019
ساؤتھ کے فلم اسٹار سدھارتھ نے لکھا۔ یہ دونوں کرشن -ارجن نہیں ہیں۔
These two are not Krishna and Arjuna. They are Shakuni and Duryodhana.
Stop attacking #universities! Stop assaulting #students! #JamiaMilia #JamiaProtest— Siddharth (@Actor_Siddharth) December 16, 2019
انہوں نے مزید کہا کہ ،وہ دونوں شکونی اور دریودھن ہیں ۔ یونیورسٹی پر حملے بند کرو ۔ طلبا کے ساتھ بربریت بندکرو۔
जो लोग इस वक़्त तालियाँ बजा रहे हैं या चुप हैं।घबराएँ नहीं, जब यही पलीस और लोग आपके साथ ये करेंगे, हम तब भी आपके लिए लड़ेंगे और बोलेंगे।
— Mohd. Zeeshan Ayyub (@Mdzeeshanayyub) December 15, 2019
فلم اسٹار ذیشان ایوب نے لکھا کہ ، جو لوگ آج چپ ہیں یا تالیاں بجارہے ہیں ، فکر نہ کریں ، جب یہی پولیس اور لوگ آپ کے ساتھ یہ سب کریں گے ۔ ہم آپ کے لیے بولیں گے اور لڑیں گے ۔
Shocking messages of violence, tear gassing from #Jamia in #Delhi ! Why are students being treated like criminals? Why are hostels being tear gassed.. ??? What is going on #DelhiPolice ???? Shocking and shameful! #CABProtests
— Swara Bhasker (@ReallySwara) December 15, 2019
سورا بھاسکر نے کہا کہ ، طلبا کے ساتھ مجرموں کی طرح سلوک کیوں کیا جارہا ہے۔ ہاسٹل میں آنسو گیس کیوں چھوڑے جارہے ہیں ۔ یہ کیا چل رہا ہے دہلی پولیس ۔ شرمناک۔
Kerala, Bengaluru, Chennai, Hyderabad, Jadavpur Kolkata, Assam, Meghalaya, Tripura, Mizoram, Aligarh, Delhi, Mumbai. Kashmiris are not allowed to protest… People, students all over are protesting against the #CAA2019. Don't be in denial.
— TheRichaChadha (@RichaChadha) December 15, 2019
اسی طرح رچا چڈھا نے طلبا کے خلاف پولیس کی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کئی ٹوئٹ کیے اور کہا کہ ، کیرل ، چنئی ، حیدرآباد ، کولکاتہ ،آسام ، میگھالیہ ، تریپورہ ، میزورم ، علی گڑھ ، دہلی ، ممبئی ،کشمیر کو احتجاج کی اجازت نہیں ہے ۔ عوام اور طلبا ہر جگہ شہریت ترمیم قانون کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں ۔ اس کو جھٹلانے کی ضرورت نہیں ہے۔
Jamia and Aligarh .. Terrorism ! #AligarhMuslimUniversity #StandWithJamia https://t.co/znhxhWMAyC
— Parvathy Thiruvothu (@parvatweets) December 16, 2019
پاروتی ٹی نے جامعہ اور علی گڑھ کے طلبا پر ہونے والی بربریت کو دہشت گردی سے
Political blame game will go on forever but I and our country is concerned about the students of #JamiaMilia #JamiaProtest
— Irfan Pathan (@IrfanPathan) December 15, 2019
دریں اثنا کرکٹر عرفان پٹھان نے اتوار کوٹوئٹ کیا کہ ، سیاسی الزام تراشیاں چلتی رہیں گی ، لیکن جہاں تک میرا اور ہمارے ملک کا تعلق ہےتو ہم جامعہ کے طلبا کو لے کر فکرمند ہیں ۔
قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہرہ کررہے طلبا کی بے رحمی سے پٹائی کے بعد رات بھر پولیس ہیڈکوارٹر کے باہر طلبا کا مظاہرہ جاری رہا۔ جامعہ کے ساتھ جے این یو اور ڈی یو کے طلبا جامعہ کے طلبا کی حمایت میں جمع ہوئے اور پولیس اور سرکار کے خلاف نعرےبازی کی ۔صبح چار بجے کے قریب طلبا پولیس ہیڈکوارٹر سے ہٹ گئے۔
دریں اثناجامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباکے ایک گروپ نے اپنے ساتھی طلباکے خلاف پولیس کارروائی کی مخالفت کرنے کے لیے سوموار کو یونیورسٹی کے گیٹ کے باہر شدید سردی میں شرٹ اتار کر مظاہرہ کیا۔‘انقلاب زندہ باد’ کا نعرہ لگاتے ہوئے 10 طلبا کے ایک گروپ نے اپنے ساتھی طلبا کے ساتھ ‘پولیس کی بربریت’کی سی بی آئی جانچ کی مانگ کرتے ہوئے صبح ایک مارچ نکالا۔
وہیں شہریت ترمیم قانون کی مخالفت کر رہے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا کو پولیس کے ذریعے بے رحمی سے پیٹنے کے معاملے پر سپریم کورٹ نے کہا کہ تشدد کو روکیے، ہم کل جوڈیشیل جانچ کی مانگ پر شنوائی کریں گے۔آج صبح کورٹ کھلنے کے ساتھ ہی سینئر وکیل اندرا جئے سنگھ، کالن گونجالوس اور دیگر نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کے سامنے معاملے کا ذکر کیا اور طلبا پر پولیس بربریت کے خلاف جوڈیشیل جانچ کی مانگ کی۔
حالانکہ کورٹ نے معاملے کو فوری اثر سے سننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ پہلے تشدد روکا جانا چاہیے اس کے بعد ہم کل معاملے کو سنیں گے۔