آتش تاثیر اورجے این یو احتجاج سے متعلق عام کی گئی فیک نیوز کی سچائی  

فیک نیوز راؤنڈ اپ: جے این یواحتجاج کے خلاف فیک نیوز اور پروپیگنڈہ کی ایک مہم مین اسٹریم میڈیا سے لےکرسوشل میڈیا میں بہت منظم طریقے سے چلائی جا رہی ہے۔اس مہم میں زی نیوز کے سدھیر چودھری سے لےکر بی جے پی آئی ٹی سیل کے معمولی ٹرولز بھی بڑے خلوص سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں! عمر دراز لوگوں کی تصویریں جےاین یو طلبا کے طور پر عام کیے جانے یا نوجوان طلبا کی عمر غلط بتاکر تصویریں عام کرنے کا مقصد یہی نظر آتا ہے کہ عوام کے درمیان یہ پروپیگنڈہ بالکل پختہ ہو جاۓکہ جولوگ فیس میں اضافےپرہنگامہ کررہےہیں دراصل ان کوعیش پرستی کی عادت ہوگئی ہےاوریہ لوگ پچاس سال کی عمرتک جے این یو میں پڑے رہتے ہیں!

فیک نیوز راؤنڈ اپ: جے این یواحتجاج کے خلاف  فیک نیوز اور  پروپیگنڈہ کی ایک مہم مین اسٹریم میڈیا سے لےکرسوشل میڈیا میں بہت منظم طریقے سے چلائی جا رہی ہے۔اس مہم میں زی نیوز کے سدھیر چودھری سے لےکر بی جے پی آئی ٹی سیل کے معمولی ٹرولز بھی بڑے خلوص سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں!  عمر دراز لوگوں کی تصویریں جےاین یو طلبا کے طور پر عام کیے جانے یا نوجوان طلبا کی عمر غلط بتاکر تصویریں عام کرنے کا مقصد یہی نظر آتا ہے کہ عوام کے درمیان یہ پروپیگنڈہ بالکل پختہ ہو جاۓکہ جولوگ فیس میں اضافےپرہنگامہ کررہےہیں دراصل ان کوعیش پرستی کی عادت ہوگئی ہےاوریہ لوگ پچاس سال کی عمرتک جے این یو میں پڑے رہتے ہیں!

AatishTaseer_Time

آتش تاثیر نے  لوک سبھا انتخابات سے قبل  ٹائم میگزین میں ایک مضمون لکھا تھا  جس کا عنوان تھا ‘مودی: ڈیوائیڈر ان چیف’۔ آتش تاثیر معروف صحافی ہیں اور ہندوستانی صحافی تولین سنگھ اور  پاکستانی سیاستداں سلمان تاثیر کے بیٹے ہیں۔ مودی حکومت نے تاثیر کی بیرونی شہریت کا OCI کارڈ منسوخ کر دیا ہے۔ قیاس لگایا جا رہا ہے کہ مودی حکومت نے ایسا اس لئے کیا ہے کیوں کہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے آتش تاثیر نے نریندر مودی کے خلاف ایک تنقیدی مضمون لکھا تھا، لہٰذا تاثیر کو اسی بات کی سزا دی جا رہی ہے۔ حالانکہ حکومت نے اس بات سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ تاثیر نے اپنے والد کی شناخت کو مخفی رکھا تھا اس لئے ان کا OCI کارڈ منسوخ کر دیا گیا۔

اس معاملے کے بعد ہندوستان کے مین اسٹریم میڈیا چینلوں نے  گزشتہ ہفتے خبر شائع کر دی کہ اپنے خلاف حکومت کے ان اقدامات کو چیلنج کرنے کے لئے  آتش تاثیر نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ اس طرح کا دعویٰ کرنے والوں  میں زی ہندوستان، ری پبلک ٹی وی،نیوز نیشن اور ون انڈیا جیسے ادارے شامل تھے۔ ہندوستانی میڈیا کے علاوہ روس کے اسپوتنک  نے بھی اس خبر کو شائع کیا تھا۔ری پبلک ٹی وی نے اپنی خبر کو بعد میں ہٹا لیا۔

fake 1

آتش تاثیر نے اپنے ٹوئٹ میں ان خبروں کی تردیدکرتے ہوئے  لکھا کہ یہ تمام جھوٹی خبریں حکومت کے دوسرے ذریعہ یعنی ری پبلک ٹی وی نے بھی عام کی تھی۔ 12نومبر کو انگریزی اخبار دی ہندو میں ایک رپورٹ شائع کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ آتش تاثیر حکومت کے ان اقدامات کو چیلنج کریں گے لیکن اس رپورٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ وہ اس میں ہندوستان کی سپریم کورٹ  سے رجوع کریں گے یا نہیں۔ انہوں نے میڈیا کو مطلع کیا تھا کہ وہ قانونی لڑائی میں صرف ہونے والے مالی وسائل اور اس سرگرمی میں ہونے والی تاخیر سے گھبراتے ہیں۔ تاثیر نے بتایا کہ ان کے احباب کا ماننا ہے کہ ان کو حکومت کو چیلنج کرنا چاہیے کیوں کہ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گی۔

الٹ نیوز نے واضح کیا کہ 12نومبر کو آتش تاثیر نے ٹوئٹ کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ لیکن اس ٹوئٹ میں کہیں سپریم کورٹ کا ذکر نہیں تھا ۔ لہذا یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ میڈیا اداروں نے اپنی مرضی اور اختیار سے ایسی رپورٹ شائع کی تھی۔

گزشتہ ایک ہفتے سے جواہر لعل یونیورسٹی کے طلبا یونیورسٹی انتظامیہ اور مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ یونیورسٹی کے مختلف کورسوں کی فیس میں 800 فیصدی  تک کے اضافے کو واپس لیا جائے کیوں کہ یہ ملک بھر کے غریب اور پسماندہ گھروں سے آنے والے طلبا کو اعلیٰ اور معیاری تعلیم  سے محروم کردے گا۔ احتجاج کرنے والوں کا اصرار ہے کہ ایک فلاحی مملکت میں پرائمری تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم حکومت کی ذمہ داری ہونی چاہیے اور یہ مفت ہونی چاہیے لیکن حکومت اس کے خلاف کام کر رہی ہے۔ سرمایہ داروں کے قرض معاف کیے جا رہے ہیں اور غریب طلبا کو تعلیم حاصل کرنے سے روکا جا رہا ہے۔

اس احتجاج کے خلاف  فیک نیوز اور پروپیگنڈہ کی ایک مہم مین اسٹریم میڈیا سے لےکر سوشل میڈیا میں بہت منظم طریقے سے چلائی جا رہی ہے۔ اس مہم میں زی نیوز کے سدھیر چودھری سے لےکر بی جے پی آئی ٹی سیل کے معمولی ٹرولز بھی بڑے خلوص سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں!  گزشتہ ہفتے فیس بک پر ایک طالب علم کی  تصویر عام کی گئی اور اس کے ساتھ یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ شخص عبد الرضا ہے، اس کی عمر 45سال ہے اور یہ  ‘منڈل’  کی سطح پر  کانگریس کا صدر ہے۔ یہ شخص ابھی تک جے این یو میں پڑھ رہا ہے! تصویر میں موجود طالب علم کے سر پر بال نہیں ہیں اور وہ گنجے پن کی بیماری میں مبتلا ہے، جس کی وجہ سے اس کی عمر زیادہ نظر آرہی ہے۔

fake 2

الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ  تصویر میں نظر آنے والا شخص عبد الرضا نہیں ہے۔ اس کا اصل نام شبھم بوکاڈے ہے۔ شبھم کی عمر 23 سال ہے اور وہ جے این یو سے لسانیات میں ایم اے کر رہے ہیں۔ انہوں نے الٹ نیوز کو بتایا:

میرا نام شبھم بوکاڈے ہے۔ میں جے این یو میں ایم اے لسانیت کا طالب علم ہو۔ میں 23 سال کا ہوں  اور میں نے اپنی انڈر گریجویشن کی پڑھائی ناگپور یونیورسٹی سے مکمل کی ہے۔ میں اس یونیورسٹی میں اپنی تعلیم مکمل کرنے اس لئے آیا ہوں کیوں کہ مجھے تعلیم کا  جنون ہے اورجے این یو ہی ملک کی سب سے بہترین یونیورسٹی نظر آتی   ہے۔ فیس میں اضافے کے خلاف  حال ہی میں شروع ہوئے  احتجاج نے تمام طلبا کی طرح مجھے بھی متاثر کیا ہے۔ اس لئے میں نے بھی احتجاج میں شرکت کی کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ سستی اور قابل رسائی تعلیم ہر شہری کا حق ہے۔ یہ قابل مذمت ہے کہ  وقت سے پہلے میرے سر کے بال جھڑ جانے کی وجہ سے مجھ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور میرے خلاف غلط بیانی کی جا رہی ہے۔سوشل میڈیا کی پوسٹ میں جو کچھ بھی لکھا ہے سب جھوٹ ہے اور جس موقف کے ساتھ اس کو عام کیا جا رہا ہے  وہ اپنے آپ میں تکلیف دہ ہے، یہ صاف طور پر اسلاموفوبیا ہے۔ دوسری بات، اگر میں 45 سال کا بھی ہوں تواس میں کیا برائی ہے کہ کوئی 45 سال کا شخص  سستی شرح پر تعلیم حاصل کرے !

اسی طرح، رنویر نامی شخص نے کچھ تصویریں  ٹوئٹ  کیں جس میں ایک خاتون کے ہاتھ میں شراب کی بوتل اور سگریٹ تھی۔ دوسری تصویر میں دکھایا گیا کہ وہ خاتون کسی احتجاج میں موجود ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک پلےکارڈ ہے۔رنویر نے اپنے ٹوئٹ میں دعویٰ کیا کہ اس خاتون کے ہاتھ میں دو شراب کی بوتلیں ہیں جن میں ایک  کی قیمت 300 روپے سے کم نہیں ہوگی، اور یہ لوگ جے این یومیں فیس کے اضافے پر چیخ پکار کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے ٹوئٹ میں وزیر تعلیم ،جے این یو کے وائس چانسلر اور پی ایم اوکو بھی مینشن کیا تھا۔

الٹ نیوز نے تصویر کو ریورس امیج سرچ کیا تو Cinema Pistol نامی بلاگ پر ان کو یہ تصویریں نظر آئی۔ اس بلاگ پر Todays Girls نامی عنوان سے ایک فوٹو اسٹوری  موجود ہے وہاں  خواتین کی تصویریں ہیں جہاں وہ شراب اور سگریٹ پی رہی ہیں۔ یہ تصویریں تین سال پرانی ہیں اور ان کا موجودہ احتجاج سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ساتھ ہی رنویر  کے ٹوئٹ میں احتجاج کرنے والی خاتون کا مے نوشی کرنے والی خاتون سے کوئی مشابہت نہیں ہے۔

فیک نیوز کی اشاعت کے اسی سلسلے میں  امریش اوجھا نامی ٹوئٹر ہینڈل سے ایک تصویر عام کی گئی جس کے تعلق سے کہا گیا کہ یہ جے این یو میں فائنل ائیر  کی طالبہ ہیں جن کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ امریش اوجھا نے اپنے ٹوئٹ میں مودی کو فسطائی بھی کہا۔ لیکن ان کے ہیش ٹیگ جے این یو کو بند کرنے کی وکالت کر رہے تھے۔

 الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ عام کی گئی تصویر  مئی  2019 کی ہے۔اس تصویر میں موجود خاتون اینی راجہ ہیں جن کو پولیس نے ایک احتجاج میں گرفتار کیا تھا۔ یہ احتجاج سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی کو جنسی استحصال کے معاملے میں کلین چٹ دیے جانے کے خلاف تھا !عمر دراز لوگوں کی تصویریں جے این یوطلبا کے طور پر عام کیے جانے کا مقصد یہی نظر آتا ہے کہ عوام کے درمیان یہ پروپیگنڈہ  بالکل پختہ ہو جائےکہ جو لوگ فیس میں اضافے پر ہنگامہ کر رہے ہیں دراصل ان کو عیش پرستی کی عادت ہو گئی ہے اور یہ لوگ پچاس سال کی عمر تک جے این یو میں پڑے رہتے ہیں!

fake 4

دیویانشی جاٹو نامی پروفائل  سے ایک خاتون کی تصویر عام کی گئی۔ اس تصویر میں خاتون کے سر سے خون نکل رہا ہے۔ دویانشی نے اپنی پوسٹ  میں مودی اور یوگی کی تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ جب آستھا اور عقیدے کی بات کی جاتی ہے تو پھول برسائےجاتےہیں لیکن جب تعلیم کی بات کرتےہیں تو لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں۔مودی اوریوگی حکومت چاہتی ہےکہ غریب پریوارکاکوئی بھی طالبعلم تعلیم یافتہ نہ ہو۔

الٹ نیوز نے واضح کیا کہ یہ تصویر جے این یو احتجاج کے بعد کی تصویر نہیں ہے بلکہ یہ محرم کے جلوس کی تصویر ہے جس کو  2005 میں  جعفریہ نیوز ڈاٹ کام پر شائع کیا گیا تھا۔ان کے مطابق یہ تصویر لبنان کی ہے۔

fake 5

“جس عمر میں لوگ وردھا پنشن لیتے ہیں اس عمر میں یہ آنٹی کون سا گیان لے رہی ہیں۔” یہ جملہ اس ٹوئٹ میں لکھا گیا تھا جو یہ ثابت کرنا  چاہتا تھا کہ جے این یومیں لوگ فضول میں پڑے رہتے ہیں۔ تصویر میں جس خاتون کو پولیس پکڑے ہوئے تھی  وہ بے شک زیادہ عمر نظر آتی ہے لیکن یہ تصویر جے این یواحتجاج کی ہے، یہ بات بالکل حقیقت کے برعکس ہے۔آؤٹلک میں شائع خبر کے مطابق یہ تصویر حیدرآباد کی ہے جہاں اس خاتون کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ تصویر دوسال پرانی ہے جب لوگ حیدرآباد میں لیبر کمشنر کے دفتر کے سامنے احتجاج کر رہے تھے ۔

fake 6

کنک مشرا نامی فیس بک پروفائل سے ایک تصویر عام کی گئی جس میں ایک خاتون  مجمع کے درمیان کھڑی ہے اور کچھ بول رہی ہے۔ تصویر کے ساتھ دعویٰ کیا گیا کہ  یہ خاتون جے این یوکی طالبہ ہیں اور ان کی عمر 43سال ہے اور کمال کی بات یہ کہ ان کی بیٹی مونا بھی 12ویں میں جے این یو میں ہی پڑھتی ہے۔  کنک مشرا کے علاوہ بھی متعدد صارفین نے اس تصویر کو اسی عبارت کے ساتھ عام کیا۔

الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ  یہ تصویر  سمبھاوی سدھی کی ہے جو 23 سال کی ہیں اور ایم اے فرانسیسی ادب کی طالب علم ہیں۔ ان کی یہ تصویر زی نیوز کی ایک ویڈیو رپورٹ سے اسکرین شاٹ کے طور پر  لی گئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان کو 2:56 منٹ پر دیکھا جا سکتا ہے۔

اس طرح یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جے این یواحتجاج کے خلاف بھگوا طاقتیں ہر طرح کا پروپیگنڈہ  کر رہی ہیں جو مسلم مخالف ہے، تعلیم مخالف ہے اور ملک کی ترقی کے بھی خلاف ہے۔