یہ فوٹیج دہلی پولیس کی اسپیشل جانچ ٹیم کے ذریعے چینل کو دیا گیا تھا۔ ویڈیو کے کئی فریم میں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ طالب علم کے ہاتھ میں پتھر نہیں، پرس ہے۔
نئی دہلی:13 دسمبر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہرہ کے بعد 15 دسمبر جامعہ کیمپس میں تشدد ہوا تھاجہاں پولیس نے طلبا پر بے رحمی سے لاٹھی چارج کیا تھا اور ان پر آنسو گیس کے گولے چھوڑے تھے۔
پولیس کے ذریعے لائبریری میں گھسنے اور لاٹھی چارج کرنے کی بات سے انکار کیا گیا تھا، حالانکہ 16 فروری کو سامنے آئے ایک ویڈیو میں پولیس لائبریری کے اندر نظر آئی تھی۔ اسی شام دہلی پولیس کے ذریعے ایک دوسرا ویڈیو جاری کیا گیا تھا، جس میں ان کے مطابق ‘دنگائی’ لائبریری میں گھسے تھے۔
اس ویڈیو میں کئی طلبا لائبریری میں گھس کر دروازے کے آگے فرنیچر لگاکر اسے بلاک کر رہے تھے۔ ان میں سے صرف ایک شخص ماسک پہنے نظر آتا ہے، وہیں ایک دیگر شخص کے ہاتھ میں کوئی چیز ہے، جس کو پولیس کے ذریعے ‘پتھر’ بتایا جا رہا ہے۔
گزشتہ 16 فروری کو انڈیا ٹو ڈے نے 15 دسمبر 2019 کو دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہوئے واقعہ کا ایک ‘ایکسکلوسیو’ فوٹیج چلایا۔ یہ فوٹیج اس سی سی ٹی وی ویڈیو کے بعد چلایا گیا تھا جس میں دہلی پولیس لائبریری میں گھس کر طلبا کو بے رحمی سے پیٹتی ہوئی نظر آئی تھی۔ یہ ویڈیو کافی وائرل ہوا تھا۔
اس کے بعد جو فوٹیج انڈیا ٹو ڈے نے چلایا وہ دہلی پولیس کی اسپیشل جانچ ٹیم کے ذریعے چینل کو دیا گیا تھا۔ اس کو ‘مصدقہ’ کہہ کر چلایا گیا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ طلبا پتھر لےکر لائبریری کے ریڈنگ روم میں گھسے تھے۔
دیگر نیوز چینلوں نے بھی یہ دعویٰ کرتے ہوئے اس فوٹیج کو چلایا۔ ایسا کرنے والے انگریزی میڈیا میں ٹائمس آف انڈیا، مرر ناؤ، ری پبلک بھارت، ٹائمس ناؤ، دی کوئنٹ اور ڈی این اے شامل ہیں۔ وہیں ہندی چینلوں میں زی نیوز، آج تک، انڈیا ٹی وی، این ڈی ٹی وی انڈیا اور نیوز نیشن شامل ہے۔
اسی طرح رائٹ ونگ ویب سائٹس آپ انڈیا اور سوراجیہ نے بھی یہی خبر چلائی تھی۔
فیکٹ چیک
چینلوں نے دعویٰ کیا کہ ویڈیو میں دکھ رہے طلبا نے اپنے دونوں ہاتھوں میں پتھر لیا ہوا تھا۔ فیکٹ چیک کے لیے آلٹ نیوز نے ذرائع سے حاصل ایک ریزولیوشن ویڈیو کا استعمال کیا۔ یہ ویڈیو انڈیا ٹو ڈے کے ذریعے چلائے گئے اسی فوٹیج کا ہے۔ آلٹ نیوز نے ویڈیو کو دھیما کر دیا اور اسے فریم در فریم دیکھا۔ ایسا کرنے پر آلٹ نیوز نے پایا کہ اسٹوڈنٹ نے پتھر نہیں، بلکہ اپنے ایک ہاتھ میں پرس لیے ہوئے تھا اور دوسرے ہاتھ میں ایک سامان (ممکنہ طور پر فون) تھا۔
پورا واقعہ کچھ اس طرح ہے -طالب علم اپنے داہنے ہاتھ میں ایک پرس اور اپنے بائیں ہاتھ میں ایک اسپاٹ سامان (ممکنہ طور پر ایک فون) کے ساتھ کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ ویڈیو میں تقریباً 10 سیکنڈ میں وہ فریم سے باہر چلا جاتا ہے اور 17 سیکنڈ میں واپس آتا ہے۔ اب اس کا داہنا ہاتھ خالی ہوتا ہے اور اس کے بائیں ہاتھ میں بھورے رنگ کا پرس صاف دکھائی دے رہا ہے۔
یہ پرس کئی فریم پر دکھائی دیتا ہے حالانکہ 1:22 منٹ پر یہ بالکل واضح دکھائی دیتا ہے، جب وہ اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے۔ طالب علم کے دوسرے ہاتھ میں ایک سامان ہے جو کہ ممکنہ طور پر موبائل فون ہو سکتا ہے۔
حالانکہ یہ پرس کی طرح واضح طور پر دکھائی نہیں دے رہا ہے اور یوزرس کو صلاح دی جاتی ہے کہ وہ خود تجزیے کے لیے لوپ میں پورا ویڈیو دیکھیں۔ حالانکہ یہاں پر یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر پتھر ہوتا تو اس کا سائز عام طور پر سپاٹ سائز والے سامان کے مقابلے بالکل الگ ہوتا ہے۔ ویڈیو میں طالب علم کے ہاتھ میں جو چیز دکھ رہی ہے وہ سپاٹ سائز کی ہے۔
نیچے دیے گئے ویڈیو میں صاف دکھ رہا ہے کہ ہاتھ میں دکھ رہے سامان کا سائز سپاٹ ہے۔
حالانکہ میڈیا اداروں نے بنا جانچ پڑتال کے پولیس کی بات کو ہی زور شور سے چلایا۔ جس طالب علم کو پتھرباز کے طور پر دکھایا گیا اس نے اپنے ایک ہاتھ میں پرس اور دوسرے ہاتھ میں سپاٹ سائز والا کوئی سامان لے رکھا تھا۔ اس سے پہلے اسی طالب علم کو 30 جنوری کو شوٹنگ کے دوران زخمی ہوا طالب علم بتایا گیا تھا۔ لیکن یہ دعویٰ بھی جھوٹا نکلا۔