کون اٹھاتا ہے خرچ اسرائیل کے معیار زندگی کا

اسرائیلی شہریوں کے اعلیٰ یورپین معیار زندگی کی ایک قیمت ہے۔ یہ قیمت کون ادا کرتا ہے؟ دراصل مالدار یورپی شہروں کی طرز پر عوامی خدمات بہم پہنچانے اور اعلیٰ معیار زندگی کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ وسائل خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ یہ وسائل امریکی ٹیکس دہندگان کو ادا کرنے پڑتے ہیں۔ امریکی اداروں اور شہریوں میں اب اس پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں کہ وہ کب تک اور کیوں اسرائیل کی ناز برداری کرتے رہیں گے؟

اسرائیلی شہریوں کے اعلیٰ یورپین معیار زندگی کی ایک قیمت ہے۔ یہ قیمت کون ادا کرتا ہے؟ دراصل مالدار یورپی شہروں کی طرز پر عوامی خدمات بہم پہنچانے اور اعلیٰ معیار زندگی کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ وسائل خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ یہ وسائل امریکی ٹیکس دہندگان کو ادا کرنے پڑتے ہیں۔ امریکی اداروں اور شہریوں میں اب اس پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں کہ وہ کب تک اور کیوں اسرائیل کی ناز برداری کرتے رہیں گے؟

علامتی تصویر، بہ شکریہ ایکس: @TheFlagOfIsrae

علامتی تصویر، بہ شکریہ ایکس: @TheFlagOfIsrae

مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ایک جزیرہ کی مانندہے، جوانفرا اسٹرکچر اور معیار زندگی کے حوالے سے اس کے ایشیائی پڑوسیوں کے برعکس کسی یورپین سرزمین کا حصہ لگتا ہے۔ ہلچل سے بھر پور شہر تل ابیب سے غازہ کی سرحد سے متصل شہر نگار سدیرات کی طرف سفر کرتے ہوئے یہودی علاقوں میں رتیلے ٹیلوں کے بجائے ہریالی نظر آتی ہے۔

اسی طرح شمال میں جبل الکرمل کے دامن میں حیفہ شہر تو جرمن شہر فرینکفورٹ کی کاپی لگتا ہے۔ فلسطینی آبادی کو اس شہر سے بے دخل کرنے کے بعد جرمنی سے ہجرت کرنے والے یہودیوں نے اس کو ہو بہو اپنے آبائی شہر کی طرز پر از سر نو تعمیر کیا۔

 جبل الکرمل جہاں حضرت الیاس سے وابستہ غار ہے، کی ڈھلانوں پر بہائی فرقہ نے انتہائی خوبصورت باغ تعمیر کیا ہے، جو کشمیر کے شالامار اور نشاط کو شرمندہ کردیتا ہے۔ اس پر انہوں نے ایک روحانی مرکز تعمیر کیا ہے۔

اسرائیل اور فلسطین کے مغربی کنارہ کو بس ایک دیوار ہی جدا کرتی ہے۔ مگر یہ دو علیحدہ براعظم لگتے ہیں۔ دیوار کی دوسری طرف فلسطینی بچے دھول مٹی سے کھیلتے ہوئے، پانی حاصل کرنے کے لیے قطاروں میں کھڑے اور سڑک پر گدھا گاڑیاں خراماں خراماں چلتی نظر آتی ہیں۔

مگر اسی دیوار کے اسرائیلی سائیڈ میں انتہائی پوش رہائش گاہیں، پارکیں اور جدید گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی نظر آتی ہیں۔

ظاہر سی بات ہے کہ اسرائیلی شہریوں کے اس اعلیٰ یورپین معیار زندگی کی ایک قیمت ہے۔ سوال ہے کہ یہ قیمت کون ادا کرتا ہے؟ کیونکہ اسرائیل کے اکثر شہری تو ہندوستان اور پاکستان کی طرح  مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، جو زندگی کی گاڑی کو کھینچنے اور بچوں کے کیریر کے فراق میں گلتے رہتے ہیں۔

مالدار یورپی شہروں کی طرز پر عوامی خدمات بہم پہنچانے اور اعلیٰ معیار زندگی کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ وسائل خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ یہ وسائل امریکی ٹیکس دہندگان کو ادا کرنے پڑتے ہیں۔ امریکی اداروں اور شہریوں میں اب اس پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں کہ وہ کب تک اور کیوں اسرائیل کی نا ز برداری کرکے اس کے شہریوں کے معیار زندگی کا خرچ اٹھائیں گے؟

امریکی کانگریس کی ریسرچ رپورٹوں کے مطابق 1946سے 2023تک امریکہ نے اسرائیل کو 297بلین ڈالر کی امداد دی ہے۔ کونسل فار فارن ریلیشن کے مطابق یہ امداد 310بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ اور اس میں 230 بلین ڈالر کی ملٹری امداد ہے۔

اس کے مقابلے میں، مصر، جو امداد لینے کے معاملے میں دوسرے نمبر پر ہے، کو 167 بلین ڈالر موصول ہوئے ہیں، جبکہ فلسطین نے 1950 سے اب تک صرف 11 بلین ڈالر وصول کیے ہیں۔یہ بھی ذہن نشین ہو کہ مصر کی آبادی 11 کروڑ اور اسرائیل کی آبادی 90 لاکھ ہے اور اس میں 21 فیصد آبادی عرب مسلمانوں کی ہے، جس کو اسرائیلی عرب کہا جاتا ہے۔

پاکستان کو1947 سے 70بلین ڈالر اور ہندوستان کو 82بلین ڈالر کی امریکی امداد موصول ہوئی ہے۔

امریکی مالی امداد اسرائیل کے سالانہ بجٹ کا 3 فیصد اور تقریباً ایک فیصد جی ڈی پی کا احاطہ کرتا ہے۔ کل دفاعی بجٹ کا 20 فیصد حصہ  امریکی امداد پر منحصر ہے۔

اسرائیلی اخبار ہارٹز کے مطابق نے یہ مالی امداداس کے علاوہ ہے، جو امریکہ اہم اور جدید ٹکنالوجی، جیسے آئرن ڈوم اور ایرو میزائل ڈیفنس سسٹم کی صورت میں فراہم کرتا ہے۔

مالی سال یعنی 2023 اور 2024کے اوائل ماہ میں اسرائیل کو ہوشربا 18بلین ڈالر کی امداد دی گئی، جس میں معیشت کی مضبوطی اور اضافی ملٹری امداد شامل ہے۔ اس امدادی پیکج میں میزائل اور میزائل دفاعی نظام کے لیے 5.2 بلین ڈالر، جدید ہتھیاروں کے لیے 3.5 بلین ڈالر، ہتھیاروں کی پیداوار میں بہتری کے لیے 1 بلین ڈالر اور دیگر دفاعی ساز و سامان اور خدمات کے لیے 4.4 بلین ڈالر شامل ہیں۔

اس کے علاوہ غزہ میں جاری اسرائیلی کاروائی  کے لیے 2.4 بلین ڈالر مختص رکھے گئے۔ اپریل میں، امریکی ایوان نمائندگان نے اسرائیل کے لیے 17 بلین ڈالر اور غزہ جنگ کے لیے تقریباً 2 بلین ڈالر فراہم کرنے کا ایک بل منظور کیا، جس میں 3.8 بلین ڈالر کی سالانہ امداد اور 14.5 بلین ڈالر کی اضافی امداد شامل ہے۔

دس سالہ معاہدے کے تحت، امریکہ نے بنیادی طور پر فارن ملٹری فنانسنگ (ایف ایم ایف) پروگرام کے ذریعے 2028 تک اسرائیل کو تقریباً 4 بلین ڈالر سالانہ کی امداد دینے کا وعدہ کیا ہے۔

جن دیگر ممالک کو اس طرح کی امداد دی جاتی ہے، ان کے لیے لازم ہے کہ وہ ان پیسوں سے صرف امریکی کمپنیوں کے بنائے گئے ساز و سامان کو ہی خریدیں۔ مگر اسرائیل کو یہ چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ اس امداد کا ایک بڑا حصہ اسرائیلی دفاعی کمپنیوں کے تیار کردہ آلات خریدنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔

کسی بھی ملک کو امریکہ کی طرف سے دی گئی فوجی امداد سخت امریکی قوانین کے ساتھ مشروط ہے جس کے لیے کانگریس کی اطلاع دینے اور ہتھیاروں کے اہم سودوں پر نظرثانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح امریکہ نے اسرائیل کے خلاف لیہی قانون کو سختی سے لاگو نہیں کیا ہے، جو کہ غیر ملکی حکومتوں کو جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتی ہیں، کو سیکورٹی امداد دینے سے منع کرتا ہے۔

اس امداد کے خلاف اب کئی موثر آوازیں میدان میں آرہی ہیں۔ کونسل آن فارن ریلیشنز کے سٹیون اے کک اور سابق امریکی سفیر مارٹن انڈیک کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی معاشی اور عسکری طاقت کے پیش نظر اس طرح کی مسلسل مالی امداد کا جواز نہیں بنتا۔ امریکہ میں اس بات پر بھی ناراضگی بڑھ رہی ہے کہ اسرائیل سفارتی آداب کو پس پشت ڈال کر انتہائی بدتمیزی کے ساتھ امریکہ کو چڑاتا ہے۔

اسرائیل کی ڈھٹائی  کے خلاف اب امریکی محکمہ خارجہ کے اندر سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ جوش پال جو 11 سال سے زائد عرصے تک محکمہ خارجہ کے بیورو آف پولیٹیکو ملٹری افیئرز کے ڈائریکٹر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ دوسال قبل ایک چیریٹی گروپ کی رپورٹ ان کے محکمہ کے پاس آئی، جس میں یروشلم کی جیل میں بند ایک 13 سالہ فلسطینی لڑکے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے جب اپنی سطح پر انکوائری کی تو اس الزام کو صحیح پایا۔پال نے بطور ڈائریکٹر اسرائیل سے وضاحت طلب کی۔

وضاحت کیا آتی، اگلے دن اس چیریٹی گروپ کے تمام دفاتر پر اسرائیلی فوج نے ریڈ کی اور ان کے تما م کمپیوٹر و دفتری ریکارڑ ضبط کرکے اس کو ایک دہشت گرد گروپ کے بطور نامز د کرکے اس پر پابندی لگا دی۔ یہ اسرائیل کا رویہ ایک ایسے ملک کے ساتھ ہے، جس کے بل بوتے پر وہ قائم ہے۔

 امریکی فوجی امدادکی ایک وجہ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں کوالٹیٹیو ملٹری ایج (کیو ایم ای) فراہم کرنا ہے۔ یہ قانون، جو 2008 امریکی کانگریس نے پاس کیا۔ا س کے مطابق سرائیل کو امریکہ کے جدید ترین فوجی ہتھیاروں اور پلیٹ فارمز تک رسائی کا حق دیا گیا۔ جوش پال جیسے کئی امریکی حکومتی اہلکاروں کے حالیہ استعفیٰ نے اب صورت حال تبدیل کردی ہے۔

یہ امریکہ اسرائیل تعلقات کے درمیان بڑھتی ہوئی بے چینی کی نشاندہی کرتے ہیں۔اس کے علاوہ ریاست مشی گن کے شہر ہیم راک کی اسٹی کونسل نے حال ہی میں اسرائیلی مصنوعات کی بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ جس کی رو سے شہر میں اب کوئی اسرائیلی مصنوعات بیچ نہیں سکے گا۔ شاید اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ اسرائیل کو خطے میں امن قائم کرنے اور ایک عام ملک کی طرح رہنے پر مجبور کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔

Next Article

ہریانہ: فیس بک پوسٹ کے لیے خواتین کمیشن کے نوٹس کو اشوکا پروفیسر نے سینسرشپ قرار دیا

ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے اشوکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ علی خان محمود آباد پر سوشل میڈیا پر اپنے تبصروں کے ذریعے’مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والی خواتین کی توہین’ کا الزام لگایا ہے۔ علی نے الزامات کی تردید کی ہے اور کمیشن کے نوٹس کو سینسر شپ کا نیا طریقہ قرار دیا ہے ۔

علی خان محمود آباد۔ (تصویر: فیس بک)

علی خان محمود آباد۔ (تصویر: فیس بک)

نئی دہلی: ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے 12 مئی کواشوکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ علی خان محمود آباد کو طلب کیا تھا۔ کمیشن نے الزام لگایا کہ سوشل میڈیا پر ان کے تبصروں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کیا ہےاور ‘مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والی خواتین کی توہین’ کی ہے۔

کمیشن نے ‘آپریشن سیندور’ پر محمود آباد کی جانب سے کی گئی دو فیس بک پوسٹس اور اس پر لوگوں کے ردعمل کے اسکرین شاٹس منسلک کیے ہیں۔ کمیشن نے کہا کہ ان پوسٹوں کے ابتدائی جائزے میں  کئی تشویشناک پہلو سامنے آئے ہیں —جن میں کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ جیسی خواتین افسران کی توہین،’نسل کشی’، ‘ڈی ہیومنائزیشن اور ‘ہیپوکریسی’ جیسے الفاظ کے استعمال کے ذریعے حقائق کو غلط انداز میں پیش کرنا، فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینااوریکجہتی پر حملہ کرنا، خواتین کی توہین کرنا اوریونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے اخلاقی رہنما خطوط کی خلاف ورزی کرناشامل ہے۔

فیس بک پوسٹس میں کیا لکھا ہے؟

آٹھ مئی کو، جب ہندوستان نے ‘آپریشن سیندور’ شروع کیا، محمود آباد نے ہندوستانی مسلح افواج کی پہلی قومی پریس بریفنگ پر ایک فیس بک پوسٹ شیئر کی۔

انہوں نے لکھا کہ وہ خوش ہیں کہ دائیں بازو کے مبصرین کرنل قریشی کی تعریف کر رہے ہیں،’ لیکن انہیں اتنی  ہی بلند آواز میں یہ بھی مطالبہ کرنا چاہیے کہ ہجوم کے ہاتھوں زدوکوب کیے جانے والے، بغیر کسی قانونی کارروائی کے مسمار کیے گئےگھر، اور بی جے پی کی نفرت پھیلانے والی سیاست کے شکار لوگوں کو  ہندوستانی شہری کے طور پر تحفظ فراہم کیا جائے۔’

انہوں نے لکھا، ‘دو خواتین افسران کو اپنے نتائج پیش کرتے ہوئے دیکھنا ایک اہم منظر ہے… لیکن آپٹکس کو زمینی حقیقت میں بدلنے کی ضرورت ہے؛  ورنہ یہ صرف منافقت ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ یہ پریس کانفرنس صرف ایک لمحاتی جھلک – شاید ایک وہم اور اشارہ  ہے- اس ہندوستان کا جس نے اس نظریے کو مسترد کردیا جس پر پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ عام مسلمانوں کوجو زمینی حقیقت جھیلنی پڑتی ہے، وہ حکومت کی طرف سے دکھائی گئی تصویر سے مختلف ہے، لیکن ساتھ ہی یہ پریس کانفرنس یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ تنوع میں اتحاد سے جڑا ہندوستان پوری طرح سے مرا نہیں ہے۔’

ایک اور پوسٹ میں،جس کا عنوان تھا’دی  بلائنڈ بلڈ لسٹ فار وار’، انھوں نے ہندوستان اور پاکستان دونوں کے کچھ میڈیا اداروں، مذہبی رہنماؤں اور سیاست دانوں پر جنگی جنون پھیلانے کا الزام لگایا۔

انہوں نے لکھا؛’یہ ریڈکلف سرحد کے دونوں طرف ہو رہا ہے – ہر طرف پاگل لوگ ہیں، لیکن سرحد کے قریب رہنے والے جانتے ہیں کہ جنگ کا کیا مطلب ہوتاہے؛ یہ من مانی، غیر یقینی اور بے مطلب موت ہوتی ہے۔’

‘ سوچیے، جب آپ کہتے ہیں’انہیں مٹا دو…’ —آپ دراصل یہ کہہ رہے ہیں کہ تمام بچوں، بزرگوں، اقلیتوں، اس طرف کے امن کے حامیوں اور تمام بے گناہ لوگوں کو مار دو — جو وہی کرنا چاہتے ہیں جو آپ کرنا چاہتے ہیں؛ ایک باپ ، ایک ماں، ایک بیٹی، بیٹا، دادا-دادی ، یا دوست بننا۔’

‘شرمناک’

اس کےبعدایک پریس کانفرنس میں ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن رینو بھاٹیہ نے علی خان محمود آباد کے تبصروں کو’انتہائی شرمناک’ قرار دیا۔

انہوں نے کہا،’اگر وہ ہماری بیٹیوں کی عزت نہیں کر سکتے تو پروفیسر کیسے اور کیوں بنے؟ وہ ہماری بیٹیوں کو کیا سکھائیں گے؟’ انہوں نے کہا، ‘ان کی پوسٹس سے واضح ہے کہ وہ ملک کے خلاف بغاوت کی ذہنیت رکھتے ہیں۔’ انہوں نے الزام لگایا کہ محمود آباد صرف ہندوستان میں رہتے ہیں لیکن انہیں ملک سے کوئی محبت نہیں ہے۔

قابل ذکر ہے کہ سال 2023 میں بھاٹیہ کو اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ ‘وہ لڑکیاں جو  بوائے فرینڈ کے ساتھ اویو (ایک ہوٹل چین) جاتی ہیں اور بعد میں ریپ اور بلیک میل کی شکایت کرتی ہیں’۔ انہوں نے کہا تھا، ‘آپ جانتے ہیں کہ آپ وہاں ہنومان آرتی کے لیے نہیں جا رہے ہیں۔’

بھاٹیہ نے اشوکا یونیورسٹی سے اپیل کی کہ وہ محمود آباد کے خلاف کارروائی کرے۔ انہوں نے کہا، ‘اگر وہ کرنل قریشی اور (ونگ کمانڈر) ویومیکا کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں تو وہ ہماری بیٹیوں کو کیا پڑھاتے ہوں گے؟ وہ ان کو کیسے دیکھتے ہوں گے یا ان کے ساتھ کیساسلوک کرتے ہوں گے؟’

اشوکا یونیورسٹی نے محمود آباد کے خیالات سے خود کو الگ کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا۔ یونیورسٹی نے کہا کہ انہوں نے اپنی ذاتی حیثیت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ ‘اشوکا یونیورسٹی اور اس کے تمام ممبران ہندوستان کی مسلح افواج پر فخر کرتے ہیں اور ان کی  مکمل حمایت کرتے ہیں۔’

‘یہ سینسر شپ اور ہراساں کرنے کی ایک نئی صورت ہے’

چودہ مئی کو جاری ہونے والے ایک پریس بیان میں علی خان محمود آباد نے تمام الزامات کو مسترد کریا۔ انہوں نے کہا، ‘نوٹس کے ساتھ منسلک اسکرین شاٹس [میری پوسٹس کے] یہ واضح کرتے ہیں کہ میرے تبصرے کو مکمل طور پر غلط سمجھا گیا ہے۔’

محمود آباد نے کہا کہ کمیشن نے ان کی پوسٹس کو اس حد تک غلط پڑھا اور اس کی غلط تشریح کی کہ ان کے اصل معنی ہی الٹ دیےگئے اور ایسے مسائل گھڑے گئے جو حقیقت میں موجود ہی نہیں تھے۔

انہوں نے نوٹس کو سینسرشپ کی ایک نئی شکل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کے بیانات سے خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہوئی۔

انہوں نے کہا، ‘الزامات کے برعکس، میری پوسٹ میں اس بات کوسراہا گیا  تھاکہ مسلح افواج نے پریس کانفرنس کے لیے کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کا انتخاب کیا تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ ہماری جمہوریہ کے معماروں کا ہندوستان – جوتنوع میں اتحاد کا ایک خواب تھا- ابھی بھی زندہ ہے۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘میں نے تجزیہ کیا اور تبصرہ کیا کہ کس طرح ہندوستانی فوج نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کسی فوجی یا شہری ٹھکانے یا ڈھانچے کو نشانہ نہ بنایا جائے، تاکہ کسی غیر ضروری تصادم کو روکا جا سکے۔’

انہوں نے کہا، ‘میں نے امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے سوچ اور اظہار رائے کی آزادی کے اپنے بنیادی حق کا استعمال کیا ہے اور ہندوستانی مسلح افواج کی فیصلہ کن کارروائی کی تعریف کی ہے، ساتھ ہی ان لوگوں پر تنقید کی ہے جو نفرت پھیلاتے ہیں اور ہندوستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔’

‘میری امیج کو خراب کیا جا رہا ہے’

دی وائر سے بات کرتے ہوئے محمود آباد نے کہا کہ مرکزی دھارے کے میڈیا نے ان کا غلط حوالہ دیا ہے اور انہوں نے کسی بھی پوسٹ کو حذف کرنے سے بھی انکار کیا، جیسا کہ کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا، ‘ایک نیوز آرگنائزیشن نے میری پوسٹس کا انتخاب کیا اور انھیں اس انداز میں پیش کیا کہ ان کا مطلب ہی بدل گیا۔ یہ صرف حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا نہیں بلکہ میری شبیہ کو داغدار کرنے اور مجھے بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ اس مضمون کے متن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ میری پوسٹس ڈیلیٹ کر دی گئی ہیں، جبکہ وہ ابھی تک میرے فیس بک پر موجود ہیں۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

یوپی: آپریشن سیندور پر ’اینٹی نیشنل اور ’گمراہ کن‘ پوسٹ کرنے کے الزام میں دو درجن سے زیادہ افراد گرفتار

آپریشن سیندور کو لے کر ہندوستان اور پاکستان کے مابین فوجی کشیدگی کے درمیان یوپی پولیس نے گزشتہ ہفتے ‘اینٹی نیشنل’ اور ‘گمراہ کن’ سوشل میڈیا پوسٹ کے سلسلے میں  کارروائی کی ہے۔ اس میں آگرہ میں تاج محل کو جلانے کاایک اے آئی جنریٹیڈفرضی ویڈیو، پاکستانی فوج کی حمایت کرنے والی تصویریں، ویڈیو اور ڈسپلے پکچر وغیرہ شامل ہیں۔

جموں کے پونچھ ضلع میں 9 مئی کو ہندوستان-پاکستان سرحد پر واقع ایک گاؤں میں ایک مقامی رہائشی اپنے گھر پر توپ کی گولہ باری کے  اثرات کو اپنی ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں سے باہر دیکھتے ہوئے۔ (تصویر: ناظم علی منہاس)

جموں کے پونچھ ضلع میں 9 مئی کو ہندوستان-پاکستان سرحد پر واقع ایک گاؤں میں ایک مقامی رہائشی اپنے گھر پر توپ کی گولہ باری کے  اثرات کو اپنی ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں سے باہر دیکھتے ہوئے۔ (تصویر: ناظم علی منہاس)

نئی دہلی: آپریشن سیندور کے بعد ہندوستان اور پاکستان کےمابین فوجی کشیدگی کے درمیان اتر پردیش پولیس نے گزشتہ ہفتے ‘اینٹی نیشنل’ اور ‘گمراہ کن’ سوشل میڈیا پوسٹ کےسلسلے میں  کارروائی کی ہے۔

اس میں آگرہ میں تاج محل کو جلانے کا ایک اے آئی جنریٹیڈفرضی ویڈیو؛ شاہجہاں پور میں ایک ‘دہشت گردانہ حملہ’ جو حقیقت میں کبھی ہوا ہی نہیں؛پاکستانی فوج کی حمایت کی تصویریں، ویڈیو اور ڈسپلے پکچرز وغیرہ شامل ہیں۔

پولیس نے بتایا کہ انہوں نے اب تک ریاست بھر سے کم از کم 25 افراد کو سوشل میڈیا پر ‘اینٹی نیشنل’ اور ‘گمراہ کن’ پوسٹس کے ذریعے افواہیں پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ 40 سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے خلاف کارروائی کر کے انہیں بلاک کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔

اس کارروائی میں مبینہ طور پر پاکستان کی حمایت کرنے والا مواد شیئر کرنے یا پوسٹ کرنے پر لوگوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ اس میں مورفڈ اور اے آئی جنریٹیڈ پوسٹ بھی شامل ہیں۔

یوپی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کی پوسٹ کی شناخت کے لیے 24 گھنٹے سوشل میڈیا پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

اس سلسلے میں بریلی میں پولیس نے فخرالدین نامی ایک شخص کو گرفتار کیا ہے،جنہوں نے انسٹاگرام پر پاکستانی فوج کی تعریف کرتے ہوئے ایک ویڈیو شیئر کیا تھا۔ اس ویڈیو میں پاکستانی جھنڈا دیکھا گیا تھا۔

بریلی کی پولیس سپرنٹنڈنٹ (جنوبی) انشیکا ورما نے کہا کہ فخرالدین کو اپنے فیس بک پروفائل پر ‘اینٹی نیشنل’ مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعہ 353 (2) کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے، جو مختلف مذہبی، نسلی یا علاقائی گروہوں یا ذاتوں کے درمیان عداوت، نفرت یا تعصب پیدا کرنے کے امکان والےجھوٹے بیان، افواہ یا خطرناک خبریں بنانے، شائع کرنے یا پھیلانے سے متعلق ہے۔

بعد میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئر کیا گیا، جس میں فخرالدین کو پولیس کی حراست میں دکھایا گیا، جس میں وہ  واضح طور پر غیر آرام دہ حالت میں’پاکستان مردہ باد’ چلا رہے تھے۔

پاکستانی چینل کی کلپ اور ویڈیو پوسٹ شیئر کرنے پر کارروائی

اس کے علاوہ سنبھل میں جماعت علی نامی شخص کو گرفتار کیا گیا، جن پر مبینہ طور پر ایک فیس بک ویڈیو شیئر کرنے کا الزام ہے، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان نے ایک ہندوستانی رافیل لڑاکا طیارہ مار گرایا ہے اور ہندوستانی پائلٹ کو بندی بنالیا ہے۔

ان کے خلاف درج ایف آئی آر کے مطابق، علی پر ایک پاکستانی چینل کی کلپ شیئر کرنے کا الزام ہے ،جس میں 2019 میں بالاکوٹ فضائی حملے کے بعد ہندوستانی لڑاکا پائلٹ ابھینندن ورھمان کے گرفتار کیے جانے کے ساتھ رافیل جیٹ کو مبینہ طور پر گرائے جانے کا موازنہ کیا گیا تھا۔

الکٹرک ٹاور پر کام کر کے اپنی روزی کمانے والے علی کے خلاف بی این ایس کی دفعہ 152 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، جو ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والی کارروائیوں سے متعلق ہے۔

پولیس نے اپنی شکایت میں کہا ہےکہ ان کا فعل ہندوستان کے خلاف علیحدگی پسندی کے جذبات کو جنم دے سکتا ہے اور یہ ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت پر کاری ضرب ہے۔

بریلی میں 22 سالہ درزی محمد ساجد کو بھی پاکستان کی حمایت میں ویڈیو پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا۔

شاہجہاں پور میں تین سوشل میڈیا پروفائل کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے، جن میں ایک ‘انکت کمار 71010’ اور ‘پروندا.2023’ شامل ہے۔ ان پر ضلع میں مبینہ دہشت گردانہ حملے کا فرضی ویڈیو پوسٹ کرنے کا الزام ہے۔

پولس نے تاج محل پر حملے کا اے آئی جنریٹیڈ ویڈیو پوسٹ کرنے پر کئی سوشل میڈیا صارفین کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا ہے۔

باغپت میں پاکستان کے حق میں پوسٹ کرنے کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کی پوسٹ پاکستان کی حمایت کو فروغ دیتی ہے اور حکومت کے خلاف ہے۔

اسی طرح کوشامبی میں افسر علی گھوسی نامی ایک شخص کو ایک کارٹون پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے، جس میں ایک شخص کو ہندو دیوتا کوقتل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور اس کا کیپشن ‘پاکستان زندہ باد’ دیا گیا ہے۔ تاہم، اس کا فریم بنگلہ دیش کا لگتا ہے، جیسا کہ قومی پرچم سے ظاہر ہوتا ہے۔

پاکستانی فوج کو ‘طاقتور’ کہنے اور پاکستانی پرچم کااستعمال کرنے کا الزام

اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے نوشاد کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے جس میں پاکستانی فوج کو ‘طاقتور’ بتایا گیا تھا۔

بریلی میں ساجد نامی شخص کو سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر’پاکستان زندہ باد’ پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ بعد ازاں، سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیے گئے ایک ویڈیو میں اسے پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں ‘پاکستان مردہ باد’ کے نعرے لگاتے ہوئے دکھایا گیا۔

مظفر نگر میں ذیشان نامی شخص کو ہندوتوا گروپوں کے احتجاج کے بعد گرفتار کیا گیا،جس میں اس پر ایک ویڈیو پر پاکستان کے حق میں تبصرہ پوسٹ کرنے کا الزام لگایا گیا۔

ایک اور شخص محمد ریاض کو سنبھل میں مبینہ طور پر پاکستانی پرچم کو اپنی اسٹوری  میں استعمال کرنے اور ریل شیئر کر کے ہندوستان کے خلاف فوجی کارروائی میں کھلے عام پاکستان کی حمایت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

اس معاملے پر سنبھل کے ایس پی کرشن بشنوئی نے کہا، ‘اپنی پوسٹ میں انھوں نے کہا ہے کہ ‘چاہے جو ہو جائے، ہم صرف پاکستان کا ساتھ دیں گے۔’

پولیس افسر نے کہا کہ ریاض کی پوسٹ جان بوجھ کر کی گئی ،جس میں’ہندوستان میں علیحدگی پسند رجحانات’ کو فروغ دیا گیا۔

میرٹھ میں کچھ دائیں بازو کے گروپوں کی جانب سےدلشاد نامی شخص کے وہاٹس ایپ ڈسپلے پکچرکے طور پر پاکستانی پرچم والی ایک لڑکی کی تصویر پراعتراض کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا۔

مظفر نگر میں انور جمیل نامی شخص کو سوشل میڈیا پر ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگانے کا ایک بغیر تاریخ والا ویڈیو شیئر کیے جانے کے بعد گرفتار کیا گیا۔

اپنے چھوٹے سے ویڈیو کے ‘وائرل’ ہونے کے بعد، جمیل نے ایک کلپ اپلوڈ کرکے واضح کیا کہ متنازعہ ویڈیو پرانا تھا اور اس نے یہ تبصرہ آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ کے دوران اپنے دوست کے ساتھ شرط لگانے کے حصے کے طور پر کیا تھا۔

مظفر نگر سٹی سرکل آفیسر راجو کمار ساب نے کہا کہ اس ویڈیو کی تصدیق کی جا رہی ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

صحافیوں کے لیے عدالتی عمل ہی سزا، چھوٹے شہروں سے کام کرنے والے زیادہ نشانے پر: رپورٹ

ایک حالیہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں صحافیوں کے خلاف فوجداری مقدمات میں عدالتی عمل ہی سزا بن گیا ہے۔ اکثر معاملات میں تفتیش یا مقدمے کی سماعت مکمل نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے صحافیوں کو، خصوصی طور پر چھوٹے شہروں میں، مالی مشکلات، ذہنی دباؤ اور کیریئر پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

(السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی: ہندوستان بھر میں صحافیوں کے لیے ‘عدالتی عمل بذات خود ایک سزا بنتا جا رہا ہے’ – یہ بات منگل کو جاری کی گئی ایک نئی رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔ یہ رپورٹ کلونی فاؤنڈیشن فار جسٹس کے ٹرائل واچ انیشیٹو، نیشنل لاء یونیورسٹی، دہلی اور کولمبیا لاء اسکول میں انسانی حقوق کے ادارے نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کو فوجداری مقدمات میں پھنسانے کے عمل میں  ہر مرحلے کو طول دیا جاتا ہے، جس سے انہیں مالی مشکلات، ذہنی پریشانی، خوف اور تشویش سے گزرنا پڑتا ہے اور ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں شدید خلل پڑتا ہے۔

‘ پریسنگ چارجز: اے اسٹڈی آف کریمینل کیسیزاگینسٹ جرنلسٹس اکراس اسٹیٹ ان نڈیا’ کے عنوان سے رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘244 مقدمات میں سے 65 فیصد سے زیادہ 30 اکتوبر 2023 تک مکمل نہیں ہوئے تھے۔’

اس کے علاوہ، 40 فیصد مقدمات میں پولیس نے تفتیش مکمل نہیں کی۔ اور صرف 16 مقدمات (6فیصد) میں ہی  کیس کا حتمی تصفیہ ہوا – جس میں سزا یا بری ہونا بھی شامل ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی پایا گیا کہ چھوٹے شہروں یا قصبوں میں کام کرنے والے یا مقامی خبر رساں اداروں کے لیے رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو بڑے شہروں میں کام کرنے والوں کے مقابلے میں گرفتار کیے جانے کا امکان زیادہ تھا۔

رپورٹ کے مطابق، انصاف کے نظام کے بارے میں صحافیوں کا تجربہ بھی ان کے مقام اور سماجی حیثیت کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔

‘جہاں بڑے شہروں  میں صحافیوں کی گرفتاریاں کل مقدمات کا 24 فیصد تھیں، وہیں چھوٹے شہروں/قصبوں میں یہ تعداد بڑھ کر 58 فیصد تک پہنچ گئی۔ اس کا تعلق اس بات سے تھا کہ صحافیوں کو انصاف تک کتنی رسائی حاصل ہے۔’

اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ بڑے شہروں میں رہنے والے صحافیوں کو 65 فیصد مقدمات میں گرفتاری سے عبوری راحت ملی، جبکہ چھوٹے شہروں میں صرف 3 فیصد صحافیوں کو یہ راحت مل سکی۔

رپورٹ کے مطابق، اس کی ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ راحت اکثر سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی، جس کی واحد بنچ دہلی میں ہے۔ ہندی یا دیگر علاقائی زبانوں میں کام کرنے والے صحافیوں کو انگریزی میں کام کرنے والے صحافیوں کے مقابلے زیادہ منفی تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔

‘ہمارا ڈیٹا ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ اگر ‘عمل ہی سزا ہے’، تو یہ سزا دہلی سے دوری کے تناسب میں بڑھ جاتی ہے۔’

یہ مطالعہ ایک نئے ڈیٹا سیٹ کے تجزیے پر مبنی ہے، جس میں ہندوستانی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 427 صحافیوں کے خلاف 423 مجرمانہ معاملوں کی جانکاری شامل ہے۔ اس میں 2012 سے 2022 کے درمیان صحافیوں کے خلاف درج ہونے والے 624 مجرمانہ واقعات شامل ہیں۔

رپورٹ کے لیے 48 صحافیوں سے انٹرویو کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق، صحافیوں کے خلاف مقدمات ان کی صحافت کو شدید طور پرمتاثر کرتے ہیں؛

قابل ذکر ہے کہ 58فیصد صحافیوں نے مالی مشکلات کا سامنا کرنے کی بات کہی،56فیصد نے خوف یا تشویش کا اظہار کیا،73فیصد نے کہا کہ اس نے ان کی ذاتی زندگی کو متاثر کیا،اور 56فیصد نے کہا کہ اس سے ان کے کیریئر پر منفی اثر پڑا۔

اس کے علاوہ صحافیوں کے اہل خانہ کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

‘میری گرفتاری کے بعد میرا خاندان بہت پریشان ہوا، خاص طور پر میرے چھوٹے بچے، جو بہت فکرمند تھے۔ ایسے معاملات صرف ایک فرد کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ پورے خاندان کو تباہ کر دیتے ہیں۔ بالآخر وہ آپ کو گھٹنوں کے بل لے آتے ہیں۔’ ایک صحافی نے محققین کو بتایا۔

ٹرائل واچ کے قانونی ڈائریکٹر اسٹیفن ٹاؤنلی نے کہا، ‘ہمارا مقصد یہ اجاگر کرنا ہے کہ کس طرح مختلف ممالک اور حکومتیں صحافیوں کو نشانہ بنانے اور اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے کے لیے جدید طریقے استعمال کر رہی ہیں۔یہ رپورٹ عالمی بحث میں ایک نئے تناظر کا اضافہ کرتی ہے اور ہندوستانی تناظر میں اہم ڈیٹا فراہم کرتی ہے۔’

نیشنل لاء یونیورسٹی، دہلی کے پروفیسر انوپ سریندر ناتھ، جنہوں نے اس مطالعہ کی قیادت کی، انہوں نے کہا،’اس رپورٹ کی آئینی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح آئین کے ذریعے تحفظ یافتہ پریس کی آزادی کو عام فوجداری قانون اور طریقہ کار کے ذریعے ختم کیا جا رہا ہے۔’

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صحافیوں کے خلاف مقدمات عام طور پر مبہم ہوتے ہیں اور آزادی اظہار کے ہندوستان کے آئینی تحفظات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ نیا انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) جو 2024 میں نافذ ہوا تھا نے بھی ان مبہم قوانین میں کوئی خاص اصلاحات نہیں کی ہیں۔

‘اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان قوانین کے غلط استعمال کا امکان اب بھی باقی ہے۔ اس کے علاوہ،بی این ایس میں ایک نئی غیر واضح شق شامل کی گئی ہے – دفعہ 195(1)(ڈی) – جو ‘ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد، سالمیت یا سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والی جھوٹی یا گمراہ کن معلومات’ کو جرم بناتی ہے۔

رپورٹ کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں صحافت ایک خطرناک کام ہے۔

‘صرف پیشہ ور صحافی ہی نہیں بلکہ وہسل بلورز، ‘سٹیزن جرنلسٹ’ اور دیگر بھی ان دھمکیوں اور قانونی چارہ جوئی کے خطرے  کے دائرے میں آتے ہیں۔’

Next Article

گجرات سماچار کے مالک ای ڈی کی حراست میں، کانگریس نے کہا – وجہ مودی حکومت کی تنقید

گجرات میں ای ڈی نے ریاست کے ایک مؤقر اخبار گجرات سماچار کے مالک کو مالی دھوکہ دہی کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ گجرات کانگریس کے صدر شکتی سنگھ گوہل نے کہا ہے کہ گرفتاری کی اصل وجہ وزیر اعظم اور حکومت کے خلاف اخبار کا تنقیدی موقف ہے۔

(تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

(تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: گجرات میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے ریاست کے مؤقر اخبار گجرات سماچار کے مالک کو مالی فراڈ کے الزام میں گرفتار کیا ہے ۔

دکن ہیرالڈ نے اخبار چلانے والے خاندان کے قریبی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ جمعرات (15 مئی) کی رات دیر گئے ای ڈی نے اخبار کے مالکان میں سے ایک باہوبلی شاہ کو حراست میں لے لیا۔

اپوزیشن پارٹی کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ ای ڈی نے شاہ کو وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کے خلاف اخبار میں تنقیدی موقف  کی وجہ سے حراست میں لیا ہے۔

گجرات کانگریس کے صدر اور راجیہ سبھا ایم پی شکتی سنگھ گوہل نے کہا، ‘ای ڈی نے محکمہ انکم ٹیکس کی کارروائی کے چند گھنٹے بعد ہی باہوبلی شاہ کو گرفتار کر لیا۔ ان کی گرفتاری کی اصل وجہ اخبار کا وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کے خلاف تنقیدی مضامین لکھنا ہے۔

بتایا جا رہا ہے کہ حراست میں لیے جانے کے بعد شاہ کو سینے میں درد اٹھا تھا، جس کے بعد انہیں طبی معائنے کے لیے وی ایس اسپتال لے جایا گیا، جہاں سے انہیں رات کو زائیڈس اسپتال منتقل کیا گیا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں گوہل نے الزام لگایا کہ انہیں گجرات نیوز کی حالیہ ہندوستان -پاکستان کشیدگی پر رپورٹنگ کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

گوہل نے پوسٹ میں کہا، ‘سچائی کے لیے کھڑے ہونے کی سزا بی جے پی حکومت کا نصب العین ہے۔ گجرات کا مؤقر اخبار گجرات سماچار ہمیشہ اقتدار کے خلاف کھڑا رہا ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ تاہم، حال ہی میں ہندوستان-پاکستان  تنازعہ میں بی جے پی حکومت اور پی ایم مودی کو آئینہ دکھانے کے لیےمودی نے اپنی پسندیدہ ٹول کٹ کو باہر نکال دیا ہے۔ انکم ٹیکس (آئی ٹی) اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے گجرات سماچار اور اس کے ٹیلی ویژن چینل جی ایس ٹی وی کے علاوہ دیگر کاروباری اداروں پر حملہ کیا ہے۔ گجرات سماچار کے مالک باہوبلی بھائی شاہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔’

گوہل نے مزید کہا، ‘تقریباً تین ہفتے قبل جب چھاپہ مارا گیا تھا، خاندان اپنی کل ماتااسمرتی بین کی موت کے بعد سے سوگ میں تھا۔ باہوبلی بھائی ایک بزرگ شہری ہیں اور انہیں صحت کے مسائل ہیں۔ میں مودی سرکار کی اس زیادتی  کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ اپنا کام کر رہے میڈیا کو بے رحمی سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بی جے پی کو جان لینا چاہیے کہ ہر میڈیا گودی میڈیا نہیں ہے اور وہ اپنی روح بیچنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ میں گجرات سماچار اور اقتدار کے سامنے سچ بولنے والے تمام میڈیا کے ساتھ کھڑا ہوں۔ جئے ہند۔’

Next Article

ٹرمپ نہیں چاہتے کہ ہندوستان میں بنے آئی فون، ٹم کک سے کہا کہ وہ اپنا خیال رکھ سکتے ہیں

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے ایپل کے سی ای او ٹم کک کو ہندوستان  میں ایپل کا مینوفیکچرنگ یونٹ کھولنے سے منع کیا ہے۔ ٹم کک نے پہلے تصدیق کی تھی کہ ایپل کم از کم جون کی سہ ماہی میں امریکہ میں فروخت ہونے والے زیادہ تر آئی فون ہندوستان میں تیار کرے گا۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@WhiteHouse)

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@WhiteHouse)

نئی دہلی: مشرق وسطیٰ کے تین ممالک کے دورے پر گئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے ایپل کے سی ای او ٹم کک کو ہندوستان میں مینوفیکچرنگ پلانٹ کھولنے سے منع کیا ہے، جب تک کہ وہ ‘ہندوستان کا خیال نہیں رکھنا چاہتے’۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ہندوستان نے امریکہ کو ‘بغیر کسی ٹیرف’ کے ایک ‘ڈیل’ کی پیشکش کی ہے۔

قطر کے دوحہ میں ایک کاروباری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا ، ‘مجھے کل ٹم کک کے ساتھ تھوڑی پریشانی ہوئی۔ میں نے اس سے کہا، ‘ٹم، تم میرے دوست ہو۔ میں نے تمہارےساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے۔ تم  500 بلین امریکی ڈالر لے کر آ رہے ہو، لیکن اب میں نے سنا ہے کہ تم پورے ہندوستان میں مینوفیکچرنگ  کر رہے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ تم  ہندوستان میں مینوفیکچرنگ کرو۔ اگر تم  ہندوستان کا خیال رکھنا چاہتے ہو توتم  ہندوستان میں مینوفیکچرنگ کرسکتے ہیں، کیونکہ ہندوستان دنیا میں سب سے زیادہ ٹیرف والے ممالک میں سے ایک ہے۔ ہندوستان میں فروخت کرنا بہت مشکل ہے۔’

ٹرمپ کا یہ تبصرہ ہندوستان اور امریکہ کے تجارتی تعلقات میں سرد لہر کے درمیان آیا ہے، جو باہمی محصولات کے اعلان کے بعد سے واضح ہو گیا ہے۔ وہ ہندوستان کے ساتھ واشنگٹن کے وسیع تجارتی تعلقات کے بارے میں بات کر رہے تھے۔

انہوں نے مزید کہا، ‘انہوں نے ہمیں ایک معاہدے کی پیشکش کی ہے جہاں وہ بنیادی طور پر تیار ہیں- سچ مچ  – وہ ہم سے کوئی ٹیرف نہیں لیں گے۔ ہم سب سےاونچے ٹیرف سے آگے بڑحتے ہیں – تم ہندوستان  میں کاروبار نہیں کر سکتے، ہم ہندوستان میں ٹاپ 30 میں بھی نہیں ہیں کیونکہ ٹیرف بہت زیادہ ہیں – ایک ایسے پوائنٹ پر جہاں انہوں نے حقیقت میں ہم سے کہاہے (میرے خیال میں آپ بھی، اسکاٹ، آپ بھی اس پر کام کر رہے تھے) کہ کوئی ٹیرف نہیں لگےگا۔ کیا آپ کہیں گے کہ یہی فرق ہے؟ وہ سب سے اونچے تھے، اور اب وہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی ٹیرف نہیں لگےگا۔’

انہوں نے کہا، ‘لیکن میں نے ٹم سے کہا، ‘ٹم، دیکھو، ہم نے تمہارے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے۔ ہم نے چین میں تمہارے بنائے ہوئے تمام پلانٹ کو برسوں تک برداشت کیا ہے۔تمہیں یہاں مینوفیکچرنگ کرنا ہے۔ ہمیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ تم ہندوستان میں مینوفیکچر کرو۔ہندوستان اپنا خیال رکھ سکتا ہے، وہ بہت اچھا کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم یہاں مینوفیکچرنگ کرو۔’

دریں اثنا، ٹرمپ کے اس بیان پر کہ ہندوستان نے امریکہ کو صفر ٹیرف کے ساتھ تجارتی معاہدے کی پیشکش کی ہے، کامرس سکریٹری سنیل بارتھوال نے کہا، “کسی دوسرے ملک کی حکومت کے سربراہ کی طرف سے کوئی بھی بیان آیا ہے، میرے خیال میں وزیر خارجہ کی سطح پر اس کا مناسب جواب دیا گیا ہے۔ اس لیے میں اس پر مزید تبصرہ نہیں کرنا چاہوں گا۔’

خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے مبینہ طور پر کہا ، ‘ہندوستان اور امریکہ کے درمیان تجارتی بات چیت چل رہی ہے۔ یہ پیچیدہ مکالمے ہیں۔ جب تک سب کچھ حتمی نہیں ہو جاتا کچھ نہیں کہا جا سکتا… جب تک ایسا نہیں ہوتا، اس پر کوئی بھی فیصلہ جلد بازی ہو گا۔’

ٹم کک نے پہلے تصدیق کی تھی کہ ایپل کم از کم جون کی سہ ماہی میں ہندوستان میں امریکہ میں فروخت ہونے والے زیادہ تر آئی فون تیار کرے گا، جبکہ چین کے ساتھ غیر یقینی صورتحال برقرار ہے، جو اب تک اس کا مینوفیکچرنگ مرکز رہا ہے۔

منی کنٹرول کے مطابق ، کک نے کہا، “ہم توقع کرتے ہیں کہ امریکہ میں فروخت ہونے والے زیادہ تر آئی فون کا اصل ملک ہندوستان ہی ہوگا۔’ دریں اثنا، امریکہ جانے والےآئی پیڈ، میک، ایپل واچ اور ایئر پوڈز کی زیادہ تر پیداوار ویتنام ہینڈل کرے گا۔

کک نے کہا کہ جون کے آگےکے بارے میں  کچھ کہنا مشکل ہے، لیکن انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایپل اگلے چند سالوں میں اپنے تمام آئی فون پروڈکشن کا ایک چوتھائی ہندوستان  منتقل کرنا چاہتا ہے۔