یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب امریکی رکن پارلیامان کے ایک گروپ نے جموں وکشمیر کے حالات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
نئی دہلی :یورپین یونین کے 28 ممبروں کی ٹیم نے سوموار کو وزیراعظم نریندر مودی اور نیشنبل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوبھال سے ملاقات کی۔ امید جتائی جا رہی ہے کہ یہ ٹیم منگل کو جموں کشمیر کا دورہ کر سکتی ہے۔این ڈی ٹی وی نےذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ وفد کو جموں کشمیر کے حالات اور سرحد پار سے پنپنے والی دہشت گردی کے بارے میں بتایا گیا۔ وفد سوموار کی شام نائب صدر جمہوریہ ایم وینکیا نائڈو سے ملاقات کرے گا۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب امریکی رکن پارلیامان کے ایک گروپ نے جموں وکشمیر کے حالات پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔
Prime Minister Narendra Modi to European Parliament members: Urgent action must be taken against all those who support or sponsor terrorists or support such activities and organizations or use terrorism as a state policy.There should be zero tolerance for terrorism. pic.twitter.com/wbZo3AmwyO
— ANI (@ANI) October 28, 2019
یہ خبر آنے کے بعد محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے ٹوئٹ کرکے کہاکہ، ‘امید ہے ان کو لوگوں، مقامی میڈیا، ڈاکٹروں اور سول سوسائٹی کے لوگوں سے ملاقات کرنے دی جائے گی۔ کشمیر اور دنیا کے بیچ کے لوہے کے پردے کو اٹھانے کی ضرورت ہے اور جموں و کشمیر کو بد امنی میں دھکیلنے کے لیے ہندوستانی حکومت کو جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیئے۔’
Hope they get a chance to speak to the people, local media, doctors and civil society members. The iron curtain between Kashmir & the world needs to be lifted and GOI must be held accountable for pushing J&K into turmoil https://t.co/okZkVUK8Jz
— Mehbooba Mufti (@MehboobaMufti) October 28, 2019
بتا دیں کہ اس سے پہلے یو ایس اسسٹنٹ سکریٹری آف اسٹیٹ ایلس ویلز نے کہا تھا، ‘ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف تشدد اور جانبداری کے واقعات، خود مختار گئو رکشکوں کے ذریعے دلت اور مسلم کمیونٹی کے خلاف حملے، نو ریاستوں میں اینٹی کنورزن لاء کا ہونا وغیرہ اقلیتوں کے لئے ہندوستان کے India’s legal protections کا متضاد ہے۔ ‘انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ہندوستان کی حکومت کو کہا ہے کہ وہ مذہبی آزادی کے عالمی حق کو پوری طرح قائم رکھے اور بہت حساس لوگوں کی حفاظت کرے۔ ان میں آسام کے وہ 19 لاکھ لوگ بھی شامل ہیں جن کی شہریت کو لےکر سوال اٹھنے کی وجہ سے ان کو ریاست سے ہٹائے جانے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ساتھ ہی امریکہ نے ہندوستان سے کہا ہے کہ وہ تشدد کے تمام واقعات کی مذمت کرے اور ان کو انجام دینے والوں کو جواب دہ ٹھہرائے۔
وہیں، سرینگر میں لال چوک میں سوموارکی صبح بھیڑ دیکھی گئی کیونکہ وہاں کچھ دکانیں دوپہر تک کھلی رہیں اور شہر کے مختلف حصوں سے لوگ خریدداری کرنے پہنچے۔ افسروں نے بتایا کہ شہر کے دیگر علاقوں میں بھی دوپہر تک کچھ دکانیں کھلی رہیں اور لوگوں نے ضرورت کا سامان خریدا۔ انہوں نے بتایا کہ دکانوں میں لوگوں کی بھیڑ نظر آئی۔وادی کے کچھ حصوں میں آٹو رکشا اور انٹر ڈسٹرکٹ کیب چلیں لیکن پبلک ٹرانسپورٹ کی دیگر گاڑیاں نظر نہیں آئیں۔
غور طلب ہے کہ مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کےزیادہ تر اہتماموں کو پانچ اگست کو رد کردیا تھا اور ریاست کو دویونین ٹریٹری میں باٹنے کا اعلان کیا تھا۔اس کے بعد سکیورٹی وجوہات سے ریاست میں کئی طرح کی پابندیاں لگائی گئی۔ اتوار کو ان پابندیوں کو نافذ ہوئے 84 دن ہو گئے ۔ ان پابندیوں کی وجہ سے مین مارکیٹ زیادہ تر وقت بند رہے اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی سڑکوں سے ندارد رہے۔