بی جے پی مقتدرہ کرناٹک میں اسمبلی انتخابات سے بہ مشکل ایک ماہ قبل 24 مارچ کو حکومت نے ایک فیصلے میں او بی سی کوٹہ کے تحت مسلمانوں کو دیے گئے 4 فیصد ریزرویشن کو ختم کردیا ہے اور اسے وہاں کی بااثرکمیونٹی ووکلیگا اور لنگایت کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کردیا ہے۔
نئی دہلی: مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اتوار کو کرناٹک حکومت کی جانب سے مسلم کمیونٹی کے چار فیصد ریزرویشن کو ختم کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی بنیادوں پر کوٹہ آئینی طور پر درست نہیں ہے۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق،امت شاہ نے کہا کہ کرناٹک حکومت نے مسلمانوں کو دیے گئے چار فیصد ریزرویشن کو ختم کر دیا کیونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپیزمنٹ کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی۔
بی جے پی مقتدرہ کرناٹک میں اسمبلی انتخابات سے بہ مشکل ایک ماہ قبل 24 مارچ کو حکومت نے نوکریوں اور تعلیم میں ریزرویشن کے لیے دو نئے زمروں کا اعلان کیا اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) میں مسلمانوں کو ملنے والا 4 فیصد کوٹہ ختم کردیا۔
چار فیصد او بی سی مسلم کوٹہ ووکلیگا اور لنگایت کے درمیان تقسیم کیا گیا ہے۔ ریزرویشن کے حقدارمسلمانوں کی اب معاشی طور پر کمزور طبقوں (ای ڈبلیو ایس) کے تحت درجہ بندی کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، لنگایت، جو ریاست کی آبادی کا 17 فیصد ہیں، اور ووکلیگا، جو کہ 15 فیصد ہیں، کرناٹک کی دو سب سے طاقتور برادریاں ہیں اور انتخابی حلقوں کے ایک بڑے حصے میں ان کی حمایت بہت معنی رکھتی ہے۔ آنے والے انتخابات میں حکمراں بی جے پی کانگریس اور جنتا دل (سیکولر) کے چیلنج کو ہٹا کر اقتدار کوبرقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
شاہ نے کہا کہ کانگریس کی قیادت والی سابقہ حکومت نے سیاسی فائدے کے لیے مسلم کمیونٹی کو ریزرویشن دیا تھا۔
بیدر ضلع کے گورتا گاؤں اور رائے چور ضلع کے گبور میں دو ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، اقلیتوں کے لیے ریزرویشن آئینی طور پر درست نہیں ہے۔ آئین میں مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دینے کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، ‘بی جے پی اپیزمنٹ میں یقین نہیں رکھتی۔ لہذا، اس نے ریزرویشن کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔
سال 1994 میں ایچ ڈی دیوے گوڑا کی سربراہی والی ریاستی حکومت نے ریاست میں مسلمانوں کے لیے 4 فیصد ریزرویشن طے کیا تھا اور اس سلسلے میں 1995 میں ایک فیصلہ پاس کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق، 24 مارچ کے کابینہ کے فیصلے کے ساتھ ووکلیگا برادری کے لیے ریزرویشن 4 فیصد سے بڑھ کر 6 فیصد اور لنگایت کے لیے 5 فیصد سے بڑھ کر 7 فیصد ہو گیا۔
ای ڈبلیو ایس زمرہ میں فی الحال برہمن، جین، آریہ ویش، ناگ رتھ اور مودالیر شامل ہیں، جو ریاست کی آبادی کا تقریباً 4 فیصد ہیں۔ اب مسلم کمیونٹی جو کہ ریاست کی آبادی کا تقریباً 13 فیصد ہے، کو اس گروپ میں شامل کیا جائے گا۔
تاہم، صرف وہی لوگ ریزرویشن کے اہل ہوں گے جن کی کل سالانہ آمدنی 8 لاکھ روپے سے کم ہے، جن کے پاس پانچ ایکڑ سے کم کھیتی کی زمین اور 1000 مربع فٹ سے کم کا گھر ہے۔
دریں اثنا، کانگریس نے یہ کہہ کر جوابی حملہ کیا کہ اگر وہ اقتدار میں آئی تو وہ مسلمانوں کے لیے ریزرویشن بحال کرے گی۔
ریاستی کانگریس کے صدر ڈی کے شیوکمار نے مسلمانوں کو 10 فیصد ای ڈبلیو ایس کوٹہ میں منتقل کرنے کے کرناٹک حکومت کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقلیتوں کا حق ہے۔
انہوں نے کہا، ‘وہ (حکومت) سمجھتے ہیں کہ ریزرویشن کو جائیداد کی طرح تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ یہ پراپرٹی نہیں ہے۔ یہ اقلیتوں کا حق ہے۔
شیوکمار نے کہا، ہم نہیں چاہتے کہ ان کا 4 فیصد ریزرویشن ختم کر کے کسی طاقتورکمیونٹی کو دیا جائے۔ وہ (اقلیتی برادری کے افراد) ہمارے بھائی اور خاندان کے افراد ہیں۔ پوری ووکلیگااور ویرشیو-لنگایت اس تجویز کو مسترد کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘ہم یہ سب ختم کر دیں گے۔’
سابق وزیر اعلیٰ اور ریاستی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سدارمیا نے بھی بی جے پی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ریزرویشن کے ایشو پر الجھن پیدا کرکے سب کو دھوکہ دیا ہے۔
بنگلورو میں کے پی سی سی کے دفتر میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، سدارامیا نے کہا، امبیڈکر کے آئین کا مقصد ذات، مذہب یا جنس کی بنیاد پر امتیاز کے بغیر مساوی تحفظ فراہم کرنا ہے۔آئین کا آرٹیکل 14 یہی کہتا ہے۔ آرٹیکل 15 اور 16 تعلیم اور ملازمت میں ریزرویشن فراہم کرتا ہے۔ اس کا مقصد مواقع سے محروم افراد کو خصوصی سہولیات دینا اور انہیں قومی دھارے میں لانا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، صرف سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ لوگوں کو مرکزی دھارے میں لا کر ہی ہم مساوات پر مبنی معاشرے کے قیام کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ یہ آئین میں واضح طور پر درج ہے۔
دریں اثنا، مسلم کمیونٹی کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔