این آئی اے نے دہلی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کو ایلگار پریشد معاملے میں ممبئی آکر گواہی دینے کے لیے کہا ہے۔ پروفیسر نے کہا کہ کورونا کے دوران وہ اپنی صحت کو لے کرفکرمند ہیں اور سفر نہیں کرنا چاہتے ہیں۔
ڈی یو پروفیسر ہینی بابو ایم ٹی، فوٹو: Special Arrangement
نئی دہلی: کووڈ 19کے بیچ جب سرکار نے شہریوں کو کم سے کم سفر کرنے کی صلاح دی ہے، تب این آئی اے نے دہلی یونیورسٹی(ڈ یو)کے پروفیسر ہینی بابو ایم ٹی کو نوٹس جاری کر گواہی دینے کے لیے 15 جولائی کو ممبئی بلایا ہے۔این آئی اے نے کہا ہے کہ ایلگار پریشد معاملے کو لےکرجنوبی ممبئی آفس میں ان سے پوچھ تاچھ کی جائےگی۔
ویسے تو این آئی اے نے بابو کو بطورگواہ بلایا ہے، لیکن پچھلے سال ستمبر مہینے میں پونے پولیس نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا تھا اور ان کے الکٹرانک سامان مثلاً لیپ ٹاپ اور ان کا موبائل فون وغیرہ ضبط کیا تھا۔پولیس نے بنا وارنٹ کے چھاپہ مارا تھا اور ان کوسوشل میڈیا اکاؤنٹ اور ای میل استعمال کرنے سے بھی روکا گیا تھا۔
ہینی بابو ذات پات کی مخالفت میں بولڈ ہوکراپنی رائے رکھنے کے لیے جانے جاتے ہیں اور جی این سائیں بابا ڈیفینس کمیٹی کے فعال رکن بھی ہیں۔معلوم ہو کہ ڈی یو کے پروفیسر جی این سائیں بابا کو ماؤوادی تحریک سے مبینہ طور پر جڑے ہونے کا قصوروار پایا گیا تھا۔جسمانی طور پر90 فیصدی معذور سائیں بابا اس وقت ناگپورسینٹرل جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
بابو کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں چل رہے ہیومن رائٹس کے فعال رکن رہے ہیں، اس لیے کئی بار ان کا رابطہ قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن رونا ولسن اور یواے پی اے کے ماہر وکیل سریندر گاڈلنگ سے ہوا ہے۔ان دونوں کارکنوں کو سال 2018 میں بھیماکورےگاؤں تشدد معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ ماؤوادی تحریک سے جڑے ہوئےہیں۔
بابو نے دی وائر کو بتایا کہ وہ اپنی صحت کو لےکرفکرمند ہیں اور ایسے ماحول میں ممبئی جانے کو تیار نہیں ہیں۔انہوں نے کہا،‘میرے گھر جو آفیسر آئے تھے ان سے میں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا، لیکن انہوں نے کہا کہ 15 جولائی کوممبئی پہنچنے کے علاوہ میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔’
معلوم ہو کہ پچھلے کچھ سالوں میں کئی کارکنوں، اکیڈمک دنیا کے لوگوں، وکیلوں، صحافی وغیرہ کے گھروں پر پولیس کے ذریعے اچانک چھاپہ مارا گیا ہے اور انہیں ‘اربن نکسل’ قرار دےکر گرفتار کیا گیا ہے۔سال 2018 سے پولیس نے کم سے کم 11 ایسے کارکنوں کوگرفتار کیا ہے اور ان پر وزیر اعظم نریندر مودی کے قتل کی شازش کرنے سے لے کر ماؤوادیوں کے ساتھ رشتہ رکھنے جیسے الزام لگائے گئے ہیں۔
شروع میں ان معاملوں کی جانچ مہاراشٹر کی پونے پولیس کر رہی تھی۔ لیکن پچھلے سال دسمبر میں ریاست میں جیسے ہی کانگریس، این سی پی اورشیوسینا کی سرکار آئی، اس معاملے کو آناًفاناً میں این آئی اے کو دے دیا گیا۔ اس لے کر اپوزیشن پارٹیوں نے اعتراض بھی کیا تھا۔
ہینی بابو کے علاوہ حیدرآباد کے صحافی کرانتھی ٹیکلولا کو نوٹس بھیجا گیا ہے اور انہیں این آئی اے کے حیدرآباد آفس میں گواہی دینے کے لیے آنے کو کہا گیا ہے۔ٹیکولا نے د ی وائر کو بتایا، ‘مجھے کوئی نوٹس نہیں دیا گیا ہے، بلکہ مجھے فون پر بتایا گیا کہ 13 جولائی کو این آئی اے آفس آنا ہے۔’
یہ دوسرا موقع ہے جب پولیس نے ٹیکولا سے رابطہ کیا ہے۔ اس سے پہلے اگست 2018 میں پونے پولیس نے ٹیکلولا کے گھر پر چھاپہ مارا تھا اور ان کے لیپ ٹاپ اور دیگر چیزوں کو ضبط کر لیا تھا۔ یہ وہی وقت ہے جب پولیس نے شاعر اور کارکن ورورا راؤ کے گھر چھاپہ مارا تھا اور انہیں گرفتار کیا تھا۔
پولیس نے ٹیکولا کو گرفتار تو نہیں کیا، لیکن اس کی وجہ سےانہیں اپنی نوکری گنوانی پڑی۔ٹیکلولا نے دی وائر کو بتایا کہ اس وقت وہ‘نمستے تلنگانہ’ نام کی تنظیم کے لیے کام کر رہے تھے اور پولیس کے ذریعے چھاپہ مارنے کے بعد انہیں نوکری سے نکال دیا اور آج بھی انہیں کوئی نوکری پر نہیں رکھ رہا ہے۔
بابو اور ٹیکولا کے علاوہ این آئی اے نے تین اور کارکنوں کو نوٹس بھیج کر 13 جولائی کو این آئی اے آفس میں حاضر ہونے کو کہا ہے۔نام نہ لکھنے کی شرط پر ان میں سے ایک نے بتایا،‘یہ بالکل ناممکن ہے کہ ہم اس وقت اپنے گھر سے ممبئی چلے جائیں۔ ہمارے گھروں پر پہلے ہی چھاپہ مارا جا چکا ہے اور ہم نے جانچ میں این آئی اے کا تعاون ہی کیا ہے۔ انہیں جو چاہیے تھا وہ ہم سے لے گئے۔’