کانگریس کے لیے ضروری ہے کہ سافٹ ہندوتوا سے دور رہ کر لبرل فورسز کی قیادت سنبھال کر اپنی ماضی کا غلطیوں کا ازالہ کرکے ایک سیاسی حکمت عملی ترتیب دے۔
حال ہی میں ہندوستان میں حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو جب پانچ صوبائی انتخابات میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، تو کسی نے تبصرہ کیا کہ حالیہ عرصہ میں پہلی بار کشمیر کی برف پوش چوٹیوں سے جنوبی صوبہ تامل ناڈو کے انتہائی کنارے کنیا کماری تک کا سفر اب بی جے پی کے اقتدار والے صوبوں کو چھوئے بغیر کیا جاسکتا ہے۔ ان صوبوں با لخصوص مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے انتخابی نتائج سے جہاں وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے مصاحب خاص اور بی جے پی کے صدر امت شاہ کی جوڑی کے ناقابل تسخیر ہونے کی امیج پاش پاش ہوگئی ہے وہیں کانگریس اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کو نیا حوصلہ اور توانائی فراہم ہوئی ہے۔
ہندوستان میں اب ایک طرح سے اپریل-مئی میں ہونے والے عام انتخابات کابگل بج چکا ہے اور اندازہ ہے کہ بی جے پی کے لیے کامیابی کی راہ 2014کی طرح آسان نہیں ہوگی اور ایک طرح سے برابری کا مقابلہ ہوگا۔ گزشتہ سا ڑھے چار سالوں سے بی جے پی بے پناہ مادی و افرادی وسائل نیز اقتدار کے علاوہ الکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور میڈیا کے ایک حلقہ کی اندھا دھند حمایت کے سہارے یکے بعد دیگرے جس طرح صوبے فتح کرتی جارہی تھی، اس پر یقیناًلگام لگ گیا ہے۔
اقتدار میں واپسی کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے رفقاء نے عوام کو لبھانے کے لیے جو گیدڑ سنگھیاں پٹار ے میں رکھی تھیں ، لگتا ہے کہ آزمانے سے قبل ہی وہ اثر کھوتی جارہی ہیں۔ ان میں سب سے اوپر اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی آڑ میں ہندو ووٹروں کو لام بند کرکے ووٹ بٹورنے کا پلان شامل تھا۔ مگر بسیار کوشش کے باوجود رام مندر پر کوئی تحریک برپا نہیں ہو رہی ہے۔ صدیوں سے ہر 12سال بعد اتر پردیش کے شہر الہ آباد ( جس کا نیا نام اب پریاگ ہے) میں دریائے گنگا اور جمنا کے سنگم پر ایک میلہ لگتا ہے ۔
دو ماہ تک جاری یہ میلہ مہا کمبھ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں سادھوؤں کی ایک کثیر تعداد اور عوام کا جم غفیر پاپ دھونے کے لیے دریا میں ڈبکیاں لگاتا ہے۔ اس دوران مختلف پروگرام بھی منعقد ہوتے ہیں۔ پچھلا کمبھ میلہ مودی کے اقتدار میں آنے سے ایک سال قبل 2013میں منعقد کیا گیا تھا۔ کیلینڈر اور ہندو روایتوں کے مطابق اب دوسرا مہا کمبھ 2025میں منعقد ہونا تھا۔ مگر کیا کیا جائے اس سیاست کا اور ووٹ بٹورنے کی بے تابیوں کا کہ انتخابات سے چند ما ہ قبل ہی اس میلہ کا انعقاد کیا گیا۔ نہ صرف بڑے پیمانے پر اس کو وزارت خارجہ کی طرف سے ایشیائی تہذیب کا نقیب اور سمبل قرار دیکر ملک کے باہر بھی بیچا جا رہا ہے، بلکہ یقینی بنایا جا رہا ہے کہ ہرروز کمبھ میں بی جے پی کے لیڈروں اور وزیروں کی موجودگی میڈیا کے ذریعے مشتہر ہو۔
اس میلہ کی آڑ میں آخری کوشش کے بطور رام مندر کے نام پر ہندو فرقہ کو برانگجیتہ کرکے سیاسی فائدہ اٹھانے کی تیاریا ں بھی ہو رہی ہیں۔ اسی دوران اتر پردیش اور دیگر علاقوں میں آئی ایس ایس کے نام پر مسلم نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے تاکہ بظاہر ہندو اکثریتی فرقہ کو انتخابات سے قبل خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھا جائے۔ اس پوری تگ و دو کے باوجود لگ رہا ہے کہ مودی کا جادو اب بے اثر ہوتا جا رہا ہے۔ اقتصادی بد حالی اور پچھلے ساڑھے چار سالوں کے کئی ناعاقبت اندیش فیصلوں سے پریشان حال عوام اب حکمران جماعت سے حساب مانگ رہے ہیں۔
بدعنوانی سے جنگ کے نام پر 2016 میں اچانک 500اور 1000کے نوٹ بند کرنے کے فیصلہ کے جھٹکے سے چھوٹی اور درمیانہ درجہ کی صنعتیں ابھی بھی ابھر نہیں پا رہی ہیں۔ یہ صنعتیں 40فیصد آبادی کو روزگار فراہم کرتی تھیں۔ اصلاحات کے نام پر پورے ملک میں مختلف بالواسطہ ٹیکسوں کو ضم کرکے ایک وفاقی ٹیکس جی ایس ٹی کو جس طرح سے نافذ کیا گیا اس نے نظام کو سہل بنانے کے بجائے بی جے پی کے روایتی ووٹ بینک تاجر طبقہ کے چودہ طبق روشن کروائے ،نیز صوبوں کی آمدن بھی کم ہوگئی، جس کی وجہ سے تعمیر و ترقی کے کام بھی رک گئے ہیں۔
اس کے علاوہ پچھلے ساڑھے چار سالوں میں طبقاتی آمد ن میں جو ہوش ربا تفاوت پیدا ہو گئی ہے و ہ کرونی کیپٹلزم کی ایک زندہ مثال ہے۔ بین الاقوامی ادارے آکسفیم کی حال میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں پہلی بار مجموعی قومی آمدن400 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے، جو کہ ایک ریکارڈ ہے اور مودی حکومت اس کو ایک بڑی حصولیابی تصور کر سکتی ہے۔ مگر اس کا بغور جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اس آمدن کے 77.4 فیصد حصے پر صرف 10فیصد آبادی کی اجارہ داری ہے۔ علاوہ ازیں اس دولت کا 51.53فیصد حصہ آبادی کے محض ایک فیصد تک ہی محددود ہے۔ ہندوستان کی 60فیصد آبادی مجموعی آمدن کے صرف 4.8فیصد کے مالک ہیں۔
جہاں ایک طرف ہندوستان دنیامیں میڈیکل ٹورازم کے حوالے سے پانچویں مقام پر ہے۔یعنی اعلیٰ اور کفایتی میڈیکل سہولیات کی وجہ سے دنیا بھر سے لوگ علاج کروانے آتے ہیں۔ مگر خود عوام کی کیا حالت ہے؟ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق صحت پر خرچوں کی وجہ سے ملک میں ہر سال 63ملین افراد غریبی کے دائرہ میں چلے جاتے ہیں۔ صرف 11فیصد اسپتال اور 16فیصد پرائمری ہیلتھ سینٹرز میں ہی باضابط علاج و معالجہ کی سہولیات میسر ہیں۔
عوام کے ان سوالات سے عاجز مودی حکومت اپنی زنبیل سے نئے انتخابی حربے نکالنے کے فراق میں ہے۔ حال ہی میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ہندو اعلیٰ ذاتوں کو لبھانے کیلئے نوکریوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ان کیلئے دس فیصد کوٹہ مختص کیا گیا۔ وزیر قانون روی شنکر پرساد نے اس کو کرکٹ کے سلاگ اوورز میں چھکے سے تعبیر کیا اور یہ بھی بتایا کہ جو ں جوں انتخابات کی تاریخیں قریب آتی جائیں گی اور بھی چھکے لگنے والے ہیں۔
ذرائع کے مطابق خفیہ اداروں اور حکمران بی جے پی کے اندرون سروے کے مطابق عام انتخابات میں حکمران جماعت 543رکنی ایوان میں صرف 164نشستیں ہی حاصل کر پائے گی۔ یعنی 2014 کے مقابلے اسکو 118نشستوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش میں جہاں مقامی پارٹیوں سماج وادی پارٹی اور دلتوں کی بہوجن سماج پارٹی نے اتحاد کا اعلان کیا ہے، بی جے پی کو بھاری نقصان ہو رہا ہے۔ اندازہ ہے کہ اس صوبہ کی 80پارلیامانی نشستوں میں اس کو 35نشستیں حاصل ہونے کی امید ہے۔
موجودہ پارلیامنٹ میں اس صوبہ سے بی جے پی کی 70نشستیں ہیں۔ اس خسارہ کو پورا کرنے کیلئے بی جے پی کی نگاہیں مغربی بنگال، اڑیسہ نیز شمال مشرقی ریاستوں پر ٹکی ہیں، نیز اس کی کوشش ہے کہ جنوبی صوبہ تامل ناڈو کی 40نشستوں پر اس کی اتحادی انا ڈی ایم قبضہ کر سکے۔ گو کہ اپوزیشن کانگریس کی قیادت والے متحدہ ترقی پسند اتحاد کی پوزیشن بھی کچھ اچھی نہیں ہے، مگر علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اگر وہ سیٹوں کا تال میل ٹھیک بٹھانے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ اتحاد 272کا نشانہ پار کر سکتا ہے۔
ادھر متحدہ ترقی پسند اتحاد کی چیئر پرسن سونیا گاندھی اور انکے فرزند راور کانگریس صدر راہل گاندھی پر حکومت نے انکم ٹیکس محکمہ کے ذریعے شکنجہ کسا ہے۔ انکم ٹیکس نے ان کو 100کروڑ روپے کی ٹیکس وصولی کا نوٹس بھیجا ہے۔ اگر کورٹ نے ٹیکس کی اس وصولی کے آرڈر کو برقرار رکھا، تو دونوں لیڈران نااہل قرار دئے جاسکتے ہیں۔ یعنی وہ انتخابات لڑ نہیں پائیں گے۔ اس ایشو کو لیکر بی جے پی اور حکومت کے اندر خاصا بحث و مباحثہ جار ی ہے۔ چند لیڈروں ، جن میں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ اور ایک سینئر وزیر نتن گڈکری وغیرہ شامل ہیں کا کہنا ہے کہ ان کو نااہل قرار دینے سے کانگریس ہمدردی کا کارڈ کھیل کر اقتدار میں واپسی کر سکتی ہے۔
وہ یاد دلاتے ہیں کہ 1978میں اسی طرح اس وقت کی جنتا پارٹی حکومت کی طرف سے اندرا گاندھی کو نظر بند اور پھر نااہل قرار دلوانا اس کو خاصا مہنگا پڑا تھا۔ سال بھر بعد ہی اندرا گاندھی عوامی ہمدردی بٹور کر دوبارہ اقتدار میں واپس آگئی تھی۔ وہیں بی جے پی کے دیگر لیڈران پاکستان کی مثال پیش کرتے ہیں ، جہاں سابق وزیر اعظم نوا ز شریف کی نااہلی نے عمران خان کیلئے اقتدار میں پہنچنے کا راستہ صاف کیا۔ علاو ہ ازیں ان کا خیال ہے کہ سونیا اور راہل کے انتخابی میدان سے ہٹنے سے کانگریس اپنا ترپ کا پتہ یعنی پرینکا گاندھی کو میدان میں اتارنے پر مجبور ہو جائیگی۔
ان لیڈروں کے مطابق بی جے پی شاید پرینکا گاندھی کی کرشمائی شخصیت اور سیاسی نفاست کا مقابلہ نہیں کر پائے گی اور اس کیلئے بہتر ہے کہ راہل ہی میدان میں برقرار رہے۔صوبوں کی انتخابی مہم میں اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدیتہ ناتھ حال میں منافرت پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن یہ باتیں رائے دہندگان کو مائل کرنے میں ناکام رہیں ہیں۔ جو بے انتہا بیروز گاری ، امتیازو تفریق ، تشدد اور معاشی مصائب سے دوچار ہیں ۔ خاص طور سے کسان طبقہ اس سے سب زیادہ متاثر ہے۔ بی جے پی نے سلگتے ہوئے عوامی مسائل کو حل کرنے بجائے مختلف جذباتی اور مذہبی عنوانات سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی ۔
مندر کے علاوہ طلاق ثلاثہ کا مسئلہ چھیڑا ، اور بھی کئی ایسے معاملے اچھالے ماب لنچگ کے بڑھتے ہوئے واقعات ، دلتوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنانا وغیرہ لیکن یہ سب حربے رائیگاں گئے ۔قصہ مختصر کہ مودی اور بی جے پی حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی کو ایک مضبوط متبادل اور پروگرام کے ذریعہ مؤثر طریقہ پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کانگریس کیلئے بھی ضروری ہے کہ سافٹ ہندوتوا سے دور رہ کر لبرل فورسز کی قیادت سنبھال کر اپنی ماضی کا غلطیوں کا ازالہ کرکے ایک سیاسی حکمت عملی ترتیب دے۔
The post آئندہ عام انتخابات میں بی جے پی کے لئے جیت کی راہ کیوں آسان نہیں ہوگی ؟ appeared first on The Wire - Urdu.