سکھوں کی جدوجہد اور خوشحالی کا استعارہ تھے ڈاکٹر منموہن سنگھ

ڈاکٹر منموین سنگھ اپنے پیچھے ایک قابل فخر وراثت چھوڑ گئے جس پر ہندوستان کو فخر رہے گا۔

ڈاکٹر منموین سنگھ اپنے پیچھے ایک قابل فخر وراثت چھوڑ گئے جس پر ہندوستان کو فخر رہے گا۔

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ، فوٹو: X/@anwaribrahim

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ، فوٹو: X/@anwaribrahim

جس طرح منموہن سنگھ ہندوستان کی معاشی اصلاحات کے معمار سمجھے جاتےہیں، اسی طرح ان کی سکھ برادری بھی ملک کی اقتصادی ترقی کی ریڑھ کی ہڈی کی سمجھی جاتی ہے۔

ہندوستان کی دو فیصد سے بھی کم آبادی ہونے کے باوجود سکھوں نے ملک کو فوڈ سیکورٹی عطا کرنے کے علاوہ مینوفیکچرنگ شعبے میں بھی کارنامے انجام دیے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق مذہبی گروہوں میں سکھ سب سے زیادہ امیر ہیں۔ تقریباً 60 فیصد سکھ گھرانے خوشحال اور زندگی گزارنے کے جدید لوازمات سے لیس ہیں۔

 منموہن سنگھ کی طرح ان کے برادری کی ایک بڑی آبادی تقسیم ہند کے بعد انتہائی کسمپرسی کا شکار ہوئی، مگر دو دہائیوں کے اندر ہی دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی۔ یہ شاید اسی برادری کا طرہ امتیاز ہے۔ ورنہ اتنی سختیاں جھیلنے اور بڑے پیمانے پرنقل مکانی کرنے کے بعد شاید ہی کوئی اور کمیونٹی اتنی کم مدت میں اپنے پیروں پر کھڑی ہوپائی ہے۔

تقسیم ہند اور پھر فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلوں میں سب سے زیادہ سکھ اور مسلمان متاثر ہوئے۔ ان کو اپنی پشتینی جائیدادیں اور آشیانے چھوڑ کر نئے آشیانے بسانے پڑے ۔

سکھوں کو، پنجاب میں زرخیز زمینوں کو چھوڑ کر ہندوستان میں انجان شہرو ں میں مستقبل تلاش کرنا پڑا۔ہندوستان  کے پہلے سکھ وزیر اعظم جن کا ابھی انتقال ہوا، اس جدوجہد یعنی نئے آشیانے کی تلاش اور پھر کامیابی کی انتہا تک پہنچنے اور سکھوں کی روایتی سخت جانی اور برداشت کا استعارہ ہیں۔

سکھ ہندوستان کی واحد اقلیت  ہے جو سب سے زیادہ باوقار عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ منموہن سنگھ، جو 2004 میں وزیر اعظم بنے کے علاوہ، گیانی ذیل سنگھ ہندوستان کے صدر، جنرل جوگندر جسونت سنگھ آرمی چیف ،فضائیہ کے موجودہ سربراہ، ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ کے علاوہ ہندوستان  کی فضائیہ کے واحد مارشل آف ایر ارجن سنگھ سبھی سکھ تھے۔

انٹلی جنس بیورو (آئی بی) کے سابق ڈائریکٹر نہچل سندھو اور ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) کے سربراہ امرجیت سنگھ دولت جیسے سکھوں نے قومی سلامتی کے عہدوں پر فائز ہوکر اپنا لوہا منوایا ہے۔

چوتھی صدی قبل مسیح میں جب سے یونانی بادشاہ سکندر نے ہندوستان  پر حملہ کیا، تب سے پنجاب  مسلسل حملہ آور فوجوں کے نشانہ پر رہا ہے۔ ہر صدی میں حملوں کا سامنا کرنے سے لے کر برطانوی فوج میں سب سے بڑا حصہ دار ہونے کے ناطے، پنجاب ہمیشہ دفاعی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا آیا ہے۔

سکھوں نے برصغیر کی تقسیم، پنجابی صوبے کی جدوجہد، ہندوستان  میں سبز انقلاب، چین اور پاکستان کے ساتھ چار بڑی جنگیں، سکھوں کی سب سے مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر حملہ اور 1984 کے فرقہ وارانہ فسادات سہے ہیں۔ اندراگاندھی کو جب ان کے سکھ محافظوں نے قتل کیا اس کا بدلہ دہلی اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر معصوم سکھوں کا خون بہا کر لیا گیا۔ حتیٰ کہ صدر گیانی ذیل سنگھ کے قافلے تک کو نہیں بخشا گیا۔

صحافی کلدیپ نیئر نے اپنی کتاب ‘ٹریجڈی آف پنجاب، آپریشن بلیو اسٹار اینڈ آفٹر’ میں  لکھتے ہیں کہ ذیل سنگھ کے قافلے پر دہلی کے صفدرجنگ علاقے کے قریب اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس جا رہے تھے جہاں گاندھی کی باقیات رکھی گئی تھی۔

بہت کم افراد کو معلوم ہوگا کہ منموہن سنگھ بھی اس دن بال بال بچ گئے۔ ایک ہجوم ان کی جان کے درپے ہوگیا تھا۔

  گاندھی کے قتل کے وقت  وہ بمبئی میں ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر تھے۔ وہ بمبئی سے گاندھی کو آخری خراج عقیدت پیش کرنے آئے تھے۔وہ اس کے بعد دہلی میں اپنے گھر اشوک وہار رات گزارنے چلے گئے اور اپنے داماد وجے تنکھا اور بیٹی کو اپنے گھر بلایا۔

دیر رات ایک ہجوم باہر اکٹھا ہوا اور مکان کو جلانے اور سکھ کو باہر نکال کر مارنے کےلیےنعرہ بلند کرنے لگا۔ ان کے داماد نے باہر جاکر ہجوم کو بتایا یہ گھر واقعی ایک سکھ کا تھا، مگر کئی ماہ قبل انہوں نے اس کو خریدا ہے، اور وہ ایک ہندو ہیں۔ کافی مغز ماری کے بعد ہجوم نے دوسری راہ لی یا شاید ان کو کوئی اور شکار مل گیا۔

سنگھ کی سوانح حیات’اسٹریکٹلی پرسنل’ میں، جو ان کی بیٹی دمن سنگھ نے لکھی ہے،کے مطابق سب سے زیادہ حیرانی کی بات یہ تھی کہ پاس کے  مندر کا پجاری بھی اس  بھیڑ میں شامل تھا اور ہجوم کو اکسا رہا تھا۔ ہجوم کے جانے کے بعد رات کے اندھیرے میں منموہن سنگھ کو ایر پورٹ پہنچا یا گیا ، جہاں سے وہ صبح سویرے ممبئی روانہ ہوگئے۔

بقول ریٹائرڈ بیوروکریٹ رمیش اندر سنگھ، ان روح فرسا واقعات سے نپٹنے کی جدوجہد نے سکھوں کو ایک ڈسپلن سکھایا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار سربجیت دھالیوال کہتے ہیں،’جب ہندوستان  خوراک کےلیے پوری دنیا سے ایک طرح سے بھیک مانگ رہا تھا، تو پنجاب کے کسانوں نے اس چیلنج کو قبول کیا۔چند برسوں میں ایک سبز انقلاب برپا ہوگیا اور ہندوستان اناج میں خود کفیل ہوگیا۔

ماہرین بتاتے ہیں کہ سکھوں کی اس تیزرفتار ترقی کا سہرا ان کے عقیدے کے اقدار کے نظام سے ہے جو سکھ گرووں کے زمانے سے چل آ ریا ہے۔ سکھ عقیدے کی بنیاد محنت، اشتراک، سماجی انصاف اور صنفی مساوات پر رکھی گئی ہے۔

 منموہن سنگھ اپنی ماں کو بچپن میں کھو چکے تھے اور ان کی پرورش ان کے دادا دادی نے کی۔  تقسیم کے دوران ان کے دادا کا قتل ہو گیا، جن کے ساتھ ان کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ ان کا خاندان ایک نئی شروعات کرنے کے لیے جیب میں صرف چند روپے لے کر ہندوستان  چلا آیا تھا۔ہوشیار پور میں سڑ کے لیمپ پوسٹ کے نیچے وہ اپنی ہوم ورک کرتے تھے، کیونکہ گھر میں بجلی یا دیا جلانے کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔

ان کے ابتدائی سال اور ان کا سیاسی کیریئر اپنے چیلنجوں کے ساتھ آیا۔ لیکن آخر میں، وہ اپنے پیچھے ایک قابل فخر وراثت چھوڑ گئے  جس پر ہندوستان کو فخر  رہے گا۔

یہ اس خطے کا جغرافیہ اور سکھ گروؤں کی تعلیمات ہے جو کسی بھی مصیبت کو سکھوں پر حاوی نہیں ہونے دیتی۔ ماہر عمرانیات ہرویندر سنگھ بھٹی کہتے ہیں،’پنجاب کا پورا علاقہ، افغانستان تک روایتی طور پر ایک قبائلی علاقہ تھا۔ سکھوں کے معاملے میں، گروؤں کی تعلیمات نے اس قبائلی برادری کو ایک روحانی برادری میں تبدیل کردیا ۔’

سکھوں کی یہی خوبی ہے جو انہیں ہر طرح کے ظلم کے خلاف لڑنے پر مجبور کرتی ہے۔ سکندر سے لے کر اندرا گاندھی کی نافذ کردہ ایمرجنسی سے لے کر نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے لائے گئے کھیتی کے قوانین کے خلاف حالیہ احتجاج تک، سکھوں نے ان سب کے خلاف آواز بلند کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایمرجنسی کے دوران گرفتار کیے گئے 1.4 لاکھ لوگوں میں سے 43000 سکھ تھے۔

سکھ مت اپنے پیروکاروں سے کہتا ہے کہ ذاتی اور سماجی زندگی کو کبھی ترک نہ کریں۔ سکھ ازم رہبانیت اور تارک دنیا ہونے کے سخت خلاف ہے۔ہر سکھ کو ہدایت ہے کہ ایک اچھی زندگی گزارے۔ خود کمائے اور دوسروں کو بھی کھلائے اور اپنی دولت میں سماج کو شریک کرے۔

 غالباً یہی وجہ ہے کہ دنیا کی کل آبادی کا محض 0.4 فیصد ہونے کے باوجود ان کی موجودگی کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔

(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کایہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)