گرین لینڈ: عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا اگلا میدان

حال ہی میں امریکہ کے منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی گرین لینڈ کو خریدنے کی تجویز، حتیٰ کہ ملٹری استعمال کرنے کی دھمکی دینا اور پھر یورپی ممالک کا ردعمل، اس بات کے واضح اشارے دے رہا ہے کہ اس گریٹ گیم کا وقت آچکا ہے۔ اگرچہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ ٹرمپ کے گرین لینڈ کو آزادی دلوانے یا اس کو امریکی کالونی بنوانے پر چین اور روس کس طرح کے رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔

حال ہی میں امریکہ کے منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی گرین لینڈ کو خریدنے کی تجویز، حتیٰ کہ ملٹری استعمال کرنے کی دھمکی دینا اور پھر یورپی ممالک کا ردعمل، اس بات کے واضح اشارے دے رہا ہے کہ اس گریٹ گیم کا وقت آچکا ہے۔ اگرچہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ ٹرمپ کے گرین لینڈ کو آزادی دلوانے یا اس کو امریکی کالونی بنوانے پر چین اور روس کس طرح کے رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔

گرین لینڈ کا دارالحکومت نوک، فوٹو: افتخار گیلانی

گرین لینڈ کا دارالحکومت نوک، فوٹو: افتخار گیلانی

ڈنمارک کی راجدھانی کوپن ہیگن سے پورے ساڑھے چھ گھنٹے کی اعصاب شکن فلائٹ کے بعد ایر گرین لینڈ کے ہلکے طیارہ کے پائلٹ نے جب اعلان کیا کہ کچھ لمحوں کے بعد طیارہ گرین لینڈ کے دارالحکومت نوک میں لینڈ کرنے والا ہے اور باہر کا درجہ حرارت منفی سترہ ڈگری سیلسس ہے، تو لگا جیسے ایک سرد لہر ریڑھ کی ہڈی میں سرایت کر گئی ہے۔

یہی حال پاس کی سیٹوں پر براجمان تین رکنی ہندوستانی صحافیوں کے گروپ کا بھی تھا۔ وہ میری طرف دیکھ کر امید کر رہے تھے کہ کشمیر کی برفانی وادیوں میں بچپن گزارنے کی وجہ سے سردی میرا کچھ زیادہ بگاڑ نہیں سکے گی۔

شاید کم افراد کو ہی علم ہوگا کہ سائبیریا کے بعد دنیا کا سرد ترین رہائشی علاقہ دراس، سابق جموں و کشمیر کی ریاست میں ہی ہے، جہاں 1995میں درجہ حرارت منفی 60ڈگری سیلسس ریکارڈ کیا گیا تھا۔ سونہ مرگ سے زوجیلا درہ کراس کرتے ہی لداخ کے خطہ کے مٹائین کی بستی کے بعد دراس کا قصبہ آتا ہے۔ کرگل جنگ کے دوران میڈیا کے نمائندے اکثر یہیں قیام کرتے تھے، کیونکہ اس سے آگے رسائی نہیں ہوتی تھی۔

سال 2012 میں ہندوستان، ڈنمارک سے کچھ ایسے ہی ناراض تھا، جیسے وہ آجکل پاکستان سے ہے۔ جس طرح فی الوقت پاکستانیوں کے ویزا پر قدغنیں ہیں، کرکٹ میچ حتیٰ کہ غیر ملکی مہمانوں کو بھی ہندوستان سے براہ راست پاکستان سفر کرنے سے روکنا وغیرہ، کچھ ایسی ہی سفارتی صورتحال ڈنمارک کے ساتھ بھی تھی۔

اس کی وجہ تھی کہ 1995میں مغربی بنگال کے پورولیا ضلع میں طیارہ سے ہتھیاروں کی ایک کھیپ گرانے میں ڈنمارک کا ایک شہری کیم ڈیوی ملوث تھا، جو ہندوستانی ایجنسیوں کو جل دینے میں کامیاب ہو کر بھاگ گیا تھا۔ اس کی حوالگی کے حوالے سے ہندوستان نے کافی کاوشیں کیں اور 2011 میں جب اس کی پوری تیاری کی گئیں تھیں کہ ڈنمارک کی عدالت نے اس پر روک لگا دی۔

ڈنمارک حکومت نے اس فیصلہ کو چیلنج کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا تھا، جس سے ہندوستان سخت ناراض تھا۔ ڈنمارک سے سبھی اعلیٰ سطحی دورے منسوخ کیے گئے تھے۔ ڈنمار ک کی اس وقت کی وزیرا عظم یا وزیر خارجہ، جو گجرات سرمایہ کاری سمٹ میں شرکت کرنا چاہتے تھے، کو آنے سے منع کردیا گیا۔

ڈینش براڈکاسٹنگ کاپوریشن کے نمائندوں کی صحافتی ایکریڈیٹیشن منسوخ کر دی گئی، وغیرہ جیسے معتدد اقدامات اٹھائے گئے۔ ڈینش تاجروں کے ویزا ہولڈ پر ڈالے گئے تھے۔ ڈنمارک کا کہنا تھا کہ وہ ہندوستان کو خوش کرنے کے لیے اپنے عدالتی سسٹم کومنہدم نہیں کرسکتے ہیں۔

جیسے ابھی حال ہی میں پاکستان کی حکمران مسلم لیگ کے صدر نواز شریف نے ہندوستانی صحافی برکھا دت اور چند دیگر صحافیوں کو انٹرویو دےکر ہندوستانی عوام کے ساتھ براہ راست روبرو ہونے کی کوشش کی، اسی طرح ان دنوں ڈنمارک کی حکومت نے بھی چند ہندوستانی صحافیوں کو کوپن ہیگن کا دورہ کرواکے اور پھر گرین لینڈ لے جاکر یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ڈنمارک کے ساتھ سفارتی کشیدگی سے خود ہندوستان کا ہی بڑا نقصان ہو رہا ہے۔

طلسماتی دلکش شہر نوک میں قدم رکھتے ہی احساس ہوگیا کہ جیسے کسی شہر خموشاں میں آگئے ہیں۔ ماہ نومبر میں دن ہی بس چار گھنٹے کا ہوتا ہے۔ آکیٹک کے سمند ر میں ایک اسکیمو مچھوارے جوڑے کے ایک کشتی کو کھینے کی آوازیں اس خاموشی میں ارتعاش پیدا کر دیتی تھیں۔

دنیا کے سب سے بڑے جزیرے، جس کا رقبہ 21لاکھ مربع کلومیٹر ہے، میں آبادی 60ہزار سے بھی کم ہے۔ ہندوستان کے اتر پردیش صوبہ میں دولاکھ مربع کلومیٹر کے رقبہ میں 22کروڑ اورپاکستان کے 8لاکھ مربع کلومیٹر میں 24کروڑ نفوس آباد ہیں۔  پورے نوک شہر کی 20 ہزار کی آبادی ہمارے علاقوں کے محلہ کی آبادی سے بھی کم ہے۔ شہر میں چند سڑکیں ہیں، پھر پورے جزیرے میں کوئی سڑک نہیں ہے۔ نقل و حمل کے ذرائع اسٹیمر،چھوٹے ہوائی جہاز، اسنو اسکوٹرز یا برف گاڑیاں یا سلیچ جن کو کتے کھینچتے ہیں۔

ڈنمار ک سے کوسوں دور ہونے کے باوجود 1933میں کورٹ آف انٹرنیشنل جسٹس نے کنیڈا کے دعوے کو خارج کرکے اس کو ڈنمارک کے حوالے کردیا تھا۔یہ آرکٹک جزیرہ 18ویں صدی ہی ڈینش کالونی تھا، مگر کنیڈا کا بھی اس پر دعویٰ تھا۔ یہ جزیرہ یورپ سے منسلک رہا ہے، حالانکہ جغرافیائی طور پر یہ شمالی امریکی براعظم کا حصہ ہے اور کوپن ہیگن سے زیادہ امریکہ کے قریب ہے۔

ا س کے شمال میں ہانس جزیرہ پر ابھی حال تک کنیڈا اورڈنمار ک کے درمیان سفارتی کشیدگی رہتی تھی۔ 2022میں ہی دونوں ممالک نے اس جزیرہ کے بیچ میں لکیر کھنچ کر اس کو بانٹ کر اس قضیہ کو حل کردیا۔ ورنہ 1984سے ایک معاہدہ تھا کہ دونوں ممالک کی فوجیں باری باری ہانس جزیرے پر پٹرول ڈیوٹی پر آتی تھیں۔

ڈنمارک کی افواج پٹرول ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد وہاں ڈینیش شراب کی بوتلیں چھوڑ کر زمین پر ایک طرح کا دعویٰ جتاتے تھے، پھر کنیڈا کی فوجی یونٹ آتی تھی، اور جانے سے قبل کنیڈا کی مخصوص شراب برانڈ کی بوتلیں جزیرہ پر چھوڑدیتے تھے۔ ایک وقت ایسا ہی حل سیاچن گلیشیر کے لیے بھی تجویز کیا جاتا تھا۔

گرین لینڈ کا دارالحکومت نوک، فوٹو: افتخار گیلانی

گرین لینڈ کا دارالحکومت نوک، فوٹو: افتخار گیلانی

کوپن ہیگن اور پھر نوک میں بریفنگ وغیرہ اوراس علاقے کی اسٹریٹیجک اہمیت جاننے کے بعد ہمارے سینئر ساتھی شاستری راما چندرن نے پیشن گوئی کی تھی کہ افغانستان کی طرز پر یہ خطہ جلد ہی گریٹ گیم کا میدان بننے والا ہے۔

حال ہی میں، امریکہ کے منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی گرین لینڈ کو خریدنے کی تجویز،حتی ٰ کہ ملٹری استعمال کرنے کی دھمکی دینا اور پھر یورپی ممالک کا رد عمل، اس بات کے واضح اشارے دے رہا ہے کہ اس گریٹ گیم کا وقت آچکا ہے۔

جزیرے کے پگھلتے ہوئے برفانی ذخائر غیر استعمال شدہ وسائل کے خزانہ سے پردہ اٹھا رہے ہیں۔ اس جزیرہ کی برفانی تہوں میں اندازاً 90 ارب بیرل تیل اور دنیا کے 30فیصد گیس کے ذخائر، اور جدید ٹکنالوجی کے لیے ضروری نایاب معدنیات چھپے ہوئے ہیں۔

گو کہ ڈنمارک کے تحت یہ ایک نیم خود مختار علاقہ ہے، مگر آبادی کی اکثریت اس قبضہ کو بیسیوں صدی کی نوآبادیاتی ذہنیت کی پیداوار سمجھتی ہے۔ شاید اس جزیرہ کی سخت زندگی کی وجہ سے ڈنمارک مقامی آبادیاتی تشخص یا ڈیمو گرافی بدلنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ گرین لینڈ میں درجہ حرارت منفی 50 ڈگری سیلسیئس تک گر سکتا ہے، اور وسائل کے نکالنے کی لاجسٹک مشکلات نے تجارتی استحصال کو سست کر دیا ہے۔

مگر ٹرمپ کے اعلان سے قبل ہی گرین لینڈ کے وزیر اعظم میوٹے ایگڈے نے نئے سال کے خطاب میں ڈنمارک سے آزادی کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے ‘نوآبادیاتی زنجیروں’ کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ اس خطے کو اندرونی طور پر مکمل خود مختاری حاصل ہے۔ ڈنمارک گرین لینڈ کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں پر کنٹرول رکھتا ہے۔اس کے باوجود مقامی حکومت کے وزیروں نے پچھلے چند سالوں میں چین کے دورے کیے ہیں اور چینی وفود کا اس جزیرے میں استقبال کیا ہے۔

جس وقت ہم نوک میں تھے، اسی وقت گرین لینڈ کے ایک وزیر ڈنمارک کی حکومت کے اجازت کے بغیر بیجنگ دورہ پر گئے تھے۔  ایگڈے نے کہا، ‘ہمارے دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون اور ہمارے تجارتی تعلقات صرف ڈنمارک کے ذریعے جاری نہیں رہ سکتے۔’2021 سے گرین لینڈ کی قیادت کرنے والے ایگڈے، جو آزادی کی حامی پارٹی ‘کمیونٹی آف دی پیپل’ کے سربراہ ہیں، نے اشارہ دیا  ہے کہ اپریل میں آنے والے پارلیامانی انتخابات کے ساتھ آزادی پر ریفرنڈم بھی کرایا جائےگا۔

انہوں نے کہا، ‘گرین لینڈ کو ایک خودمختار ملک کے طور پر تسلیم کروانے کے فریم ورک پر پہلے ہی کام شروع ہو چکا ہے۔ادھر امریکہ بھی ایک طویل عرصے سے گرین لینڈ کو ایک اہم اسٹریٹجک اثاثہ سمجھتا آیا ہے۔ سرد جنگ کے دوران، امریکہ نے گرین لینڈ میں تھولے ایئر بیس قائم کی، جو اس کے میزائل دفاعی نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔ڈنمارک کے افسران کا کہنا تھا کہ امریکہ ہی گرین لینڈ میں  پس پردہ آزادی کی حمایت کرتا آیا ہے۔

یہ بات تو اب طے ہے کہ آرکٹک ایک دور دراز سرحد نہیں رہا ہے۔یہ  عالمی سیاست کا ایک اہم میدان بن چکا ہے۔ ڈینش مصنف اور آکیٹک معاملوں کے ماہر مارٹن بروم کہتے ہیں کہ گرین لینڈ تو پہلے ایک دوردراز خطہ تھا۔ اس خطے تک وسائل پہنچانا ہی درد سر ہوتا تھا۔ لیکن اب جیسے جیسے گرین لینڈ کے وسائل اور اس کی اسٹریٹجک اہمیت نمایاں ہو رہی ہے، گرین لینڈ اور ڈنمارک اپنے تعلقات کو دوبارہ متعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سال 2023 میں گرین لینڈ کی وزیر خارجہ ویوین موٹسفیڈٹ نے چین کا دورہ کیا، جس میں جزیرے کی شراکتوں کو متنوع بنانے کی کوششوں پر بات چیت ہوئی۔انہوں نے اپنے دورے کے دوران، اقتصادی تعلقات، تجارت، اور آرکٹک تعاون کو مضبوط کرنے پر بات چیت ہوئی۔

سال 2012 میں ہی ایک چینی کارگو سمندری جہاز نے نیدر لینڈ کے روٹر ڈم اور پھر ناروے کے ساحل سے ساز و سامان لاد کر بحر اوقیانوس کی طرف پیش قدمی کرنے کے بجائے الٹی سمت بحر منجمد شمالی کی برفانی تہوں سے راستہ بناکر قطب شمالی کو پار کرکے ایشیاء کی طرف روانہ ہوگیا۔ یہ ایک حیرت انگیز واقعہ تھا۔

ابھی تک اس سمندری راستے سے شاید ہی کسی کا کامیابی کے ساتھ گزرہو اتھا۔ اس کے چند سال بعد 2013میں بھاری بھرکم چینی جہاز یونگ شنگ نے 19000ٹن کا مال اسی راستے سے چینی بندر گاہ ڈالیان سے روٹرڈم پہنچایا۔ پوری مغربی دنیا کے لیے یہ ایک خطرے کی گھنٹی تھی۔ اس جہاز نے تین ہزار میل کا یہ سفر 35 دن میں مکمل کیا۔ نہر سویز کے راستے یہ سفر پچاس د ن میں طے ہوتا تھا اور اسی کے ساتھ ایسی تنگ سمندری گزرگاہوں سے گزرنا پڑتا تھا، جن پر مغربی ممالک یا ان کے اتحادیوں کی اجارہ داری ہے، جو نازک اوقات میں مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔

چین نے آکٹک کونسل میں آبزرور کی حیثیت سے ممبرشپ بھی لی تھی۔ اس آٹھ رکنی کونسل میں امریکہ، روس، کنیڈا، ڈنمارک، آئس لینڈ، ناروے، فن لینڈ اور سویڈن شامل ہیں۔ چین کی اس تگ و دو کو دیکھ کر ہندوستان نے بھی پھر 2013میں آرکیٹک کونسل میں بطور مبصر ممبرشپ لی۔ لیکن اس کے لیے اس کو ڈنمار ک کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرکے کڑوی گولی نگلنی پڑی۔ 2014 میں، ہندوستان نے اپنی پہلی ملٹی سینسر مانیٹرنگ آبزرویٹری، انڈآرک، آرکٹک گلیشیرز کی نگرانی کے لیے نصب کی۔

چین کے گرین لینڈ میں بڑھتے ہوئے مفادات نے مغربی طاقتوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ ِ قطب شمالی کی جغرافیائی سیاست کی ماہر الزبتھ بکانن کا کہنا ہے کہ چین اور روس کی اس خطے میں بڑھتی دلچسپی کہیں اس کو دوسرا یوکرین نہ بنا دے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خطہ اسلحے کی نئی دوڑ کا مرکز بن جائےگا۔ روس بھی اپنے آرکٹک عزائم کا مظاہرہ کر چکا ہے۔ 2007 میں، اس نے ایک علامتی عمل کے طور پر قطب شمالی کے سمندری فرش روبوٹ بھیج کر تہہ پر اپنا جھنڈا گاڑ دیا۔چین نے تجویز د ی تھی کہ قطب جنوبی کی طرح قطب شمالی بھی کسی ملک کی ملکیت میں نہ ہو، مگر سائنسی تجربات کرنے کے لیے سبھی کو رسائی دی جائے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران، امریکہ نے اس علاقے پر مختصر عرصہ تک قبضہ کر کے اس کا دفاع کیا تھا۔ کیونکہ ڈنمارک پر ان دنوں نازی جرمنی نے قبضہ کیا تھا۔جنگ کے بعد 1946 میں، امریکہ نے گرین لینڈ کو خریدنے کی پیشکش کی تھی، لیکن ڈنمارک نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ 1979 میں ڈنمارک نے گرین لینڈ کو داخلی خود مختاری دی۔

آرکٹک کے لیے ڈنمارک کے سفیر، کلاوس اے ہولم کا کہنا ہے کہ اس خطے نے تیل کی نکاسی کی صلاحیت، معدنیات اور بحری ٹریفک میں اضافے کی وجہ سے سیاسی اور اقتصادی اہمیت حاصل کی ہے۔مگر یہ سبھی اقدامات ماحول کے لیے خطروں سے پر ہیں۔ مصنف مارٹن برائم، جنہوں نے قطب شمالی کادورہ بھی کیا ہے، کا کہنا ہے کہ اس خطے کی اقتصادی اہمیت کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیاجا رہا ہے۔ ‘ہاں، یہاں معدنی ایندھن کے ذخائر ہیں، لیکن کسی بھی کاروباری منصوبے کے لیے ان کی نکاسی غیرمنافع بخش ہے۔ ان کو نکالنے میں کافی وسائل کی ضرورت ہے۔’

تاہم ان کا کہنا ہے کہ برف پگھلنے اور موسمیاتی تبدیلی نے برف کی تہوں کو پتلا کرکے جوسمندری راستے نکالے ہیں، ان کی وجہ سے امریکہ اور ایشیاء قریب آرہے ہیں۔ ایشیائی طاقتوں کو اس سے امریکی پانیوں میں کھیلنے کا موقع مل رہا ہے، جس کا امریکہ کسی طور پر متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کی مونرو  ڈاکٹراین یعنی کہ امریکی بر اعظم صرف امریکی ملکوں کا ہے، زمیں بوس ہو رہا ہے۔

آبی راستوں پر قابو پانے سے ممالک بااثر اور طاقتور ہو جاتے ہیں۔ آرکٹک کو ایک قابلِ عمل آبی گزرگاہ بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے، جس میں تلاش اور بچاؤ کی سہولیات کے قیام کے ساتھ ساتھ تیل کے اخراج کو روکنے کے لیے ایک طریقہ کار بھی وضع کیا جانا شامل ہے۔

ڈنمارک اور روس کے قطب شمالی پر مضبوط علاقائی دعووں کے ساتھ، امریکہ گرین لینڈ کو ایک آزاد ریاست بننے کے لیے اکسا رہا ہے، آرکٹک خطے کو ایک بین الاقوامی ورثہ اور غیر وابستگی کا زون بنانے کی بھی تجاویز دی جا رہی ہیں۔ مگر بڑی طاقتیں شاید ہی اس پر کان دھریں گی۔ گزشتہ 10 سالوں میں، گرین لینڈ نے اسکاٹ لینڈ کی کیرن، روس کی گازپروم اور ناروے کی اسٹیٹ آئل سمیت تیل اور گیس کے بڑے کھلاڑیوں کو معدنیات کو تلاش اورکانکنی کے کئی لائسنس دیے ہیں۔

اس کے آس پاس کے پانیوں میں پانامہ تک چین کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ چین کی تگ و دو کو دیکھ کر 2020 میں، امریکہ نے نے گرین لینڈ میں اپنا قونصل خانہ دوبارہ کھولا، جو 1953 سے بند تھا۔ اس نے گرین لینڈ کے لیے دو اقتصادی امدادی پیکجوں میں بھی توسیع کی ہے اور نایاب زمین کی معدنیات کی حکمرانی اور تلاش میں تعاون کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ ٹرمپ کے گرین لینڈ کو آزادی دلوانے یا اس کو امریکی کالونی بنوانے پر چین اور روس کس طرح کے رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ با ت تو طے ہے ہے کہ قطب شمالی نیز گرین لینڈ دوسری گریٹ گیم کا مرکز بن رہے ہیں۔