ایک آر ٹی آئی کے جواب میں دہلی پولیس نے بتایا ہے کہ فروری میں نارتھ -ایسٹ دہلی میں ہوئے تشدد میں 23 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ اس سے پہلے وزارت داخلہ نے پارلیامنٹ میں کہا تھا کہ اس تشدد میں 52 جانیں گئی ہیں۔
نئی دہلی: دہلی فسادات سے متعلق کئی اہم جانکاریوں کو خفیہ رکھنے اور ‘زندگی یا آزادی ’ کا معاملہ ہونے کے بعد بھی تاخیر سے جانکاری دینے کی کوشش کرتی دہلی پولیس نے اس سمت ایک قدم اور بڑھایا ہے۔آر ٹی آئی کے تحت پولیس نے بتایا ہے کہ فروری کے آخری ہفتہ میں ہوئے دہلی فسادات میں 23 لوگ مارے گئے تھے اور اس تشدد میں کل 48 لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
خاص بات یہ ہے دہلی پولیس کا یہ جواب مرکزی وزارت داخلہ کے ذریعے پارلیامنٹ میں پیش کئے گئے اور دہلی کے اسپتالوں کے ذریعے دیے گئے مرنے والوں کے اعدادوشمار کے مقابلے میں آدھے سے بھی کم ہے۔
کامن ویلتھ ریسرچ کے ایکسیس ٹو انفارمیشن پروگرام کے پروگرام ہیڈ وینکٹیش نایک نے دہلی فسادت میں مارے گئے لوگوں کے نام اور پتہ، گرفتار کئے گئے لوگوں کے نام، دہلی پولیس کنٹرول روم کے نوٹس بورڈ پر دکھائے گئے گرفتار لوگوں کی مصدقہ کاپی ، دنگے کے دوران سبھی پولیس اسٹیشنوں میں حراست میں لیے گئے لوگوں کے نام کے متعلق جانکاری مانگی تھی۔
دہلی پولیس نے آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کے تحت 30 دن کے اندر جواب دینے کی طے مدت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ہی نوڈل ڈپارٹمنٹ وزارت داخلہ کے اعدادوشمار کے برعکس جواب بھیجا ہے۔
دہلی پولیس کی کرائم برانچ کے ڈپٹی پولیس کمشنر اورپبلک انفارمیشن افسر جوائے ٹرکی نے 13 اپریل 2020 کو بھیجے اپنے جواب میں کہا، ‘دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد میں کل 23 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ باقی جانکاری آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کی دفعہ 8 (1) (ایچ) کے تحت نہیں دی جا سکتی ہے۔’
درخواست میں مرنے والوں کے نام اور پتہ کی بھی جانکاری مانگی گئی تھی لیکن پولیس نے اس کودینے سے انکار کر دیا۔دفعہ 8 (1) (ایچ) کے تحت اگر کسی اطلاع کے انکشاف سے جانچ کی کارروائی یا یا مجرموں کا حزب متاثر ہوتا ہے تو ایسی جانکاری کو بھی دینے سے منع کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ٹرکی نے بتایا کہ فرقہ وارانہ تشدد میں کل 48 لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ حالانکہ پبلک انفارمیشن افسر نے ان لوگوں کی بھی پہچان بتاتے سے منع کر دیا۔بتا دیں کہ نارتھ -ایسٹ دہلی فسادات کو لےکر دہلی پولیس کا یہ جواب مرکزی وزارت داخلہ کے ذریعےپارلیامنٹ میں پیش کئے گئے مرنے والوں اور گرفتار کئے گئے لوگوں کے اعدادوشمار کے مقابلے میں آدھے سے بھی کم ہے۔
18 مارچ 2020 کو مرکزی وزیر جی کشن ریڈی نے راجیہ سبھا میں پیش کئے اپنے تحریری جواب میں کہا تھا کہ دہلی پولیس کی رپورٹ کے مطابق نارتھ -ایسٹ دہلی دنگے میں کل 52 لوگ مارے گئے اور 545 لوگ زخمی ہوئے تھے۔
ایم ڈی ایم کے کے جنرل سکریٹری اور تمل ناڈو سے راجیہ سبھا ایم پی وائیکو کے ایک اور سوال کے جواب میں وزیر نے ایوان کو بتایا کہ تشدد میں کل 3304 لوگوں کو گرفتار یا حراست میں لیا گیا تھا اور 12 مارچ 2020 تک میں 763 کیس درج کئے گئے، جس میں سے 51 معاملے آرمس ایکٹ کے تحت درج کئے گئے۔
دہلی پولیس کے ذریعےآر ٹی آئی کے تحت دی گئی جانکاری اسپتالوں کے ذریعے دیےگئے دنگے میں مارے گئے لوگوں اور زخمیوں کے اعدادوشمار سے بھی میل نہیں کھاتے ہیں۔آٹھ مارچ کو دہلی پولیس نے خود یہ تصدیق کی تھی کہ دنگے میں 53 لوگوں کی موت ہوئی ہے اور میڈیا میں بڑے پیمانے پر یہ اعدادوشمارشائع بھی کئے جا چکے ہیں۔
اس لنک پر د ی وائر نے 53 میں سے 51 لوگوں کی پہچان کے بارے میں جانکاری دی ہے، جس میں سے زیادہ تر لوگ مسلم کمیونٹی سے ہیں۔دہلی کے نارتھ -ایسٹ ضلع میں تب دنگا بھڑک گیا تھا جب شہریت قانون (سی اےاے) کے خلاف مظاہرہ کر رہے لوگوں کو ہٹانے کی مانگ لے کر بڑی تعداد میں سی اے اےحمایتی سڑک پر اتر گئے تھے۔ یہ دنگا 24 فروری سے لےکر 27 فروری، 2020 تک چلا تھا۔
معلوم ہو کہ دہلی فسادات کے لیے بنائی گئی دواسپیشل جانچ ٹیم (ایس آئی ٹی) میں سے ایک کی قیادت جوائے ٹرکی ہی کر رہے ہیں۔ٹرکی جے این یو میں پانچ جنوری کی رات ہوئے تشدد، جب مبینہ طور پر اے بی وی پی کارکنوں نے نقاب لگاکر جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کی صدر اوئیشی گھوش پر حملہ کیا اور کیمپس میں توڑ پھوڑ کی تھی، معاملے کی بھی جانچ کر رہے ہیں۔
حالانکہ 10 جنوری کو آناً فاًمیں کئے ایک پریس کانفرنس میں جوائے ٹرکی نے حملے میں شدید طور پر زخمی ہوئی گھوش سمیت نو لوگوں کو ملزم بتایا۔تب ٹرکی نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ گھوش نے پانچ جنوری کو پیریار ہاسٹل میں حملہ کرنے والی بھیڑ کی قیادت کی تھی۔دہلی فسادات کو لےکر وزارت داخلہ اور دہلی پولیس کے اعدادوشمار میں اتنافرق کیوں ہے، یہ جاننے کے لیے دہلی پولیس کے پی آراو ایم ایس رندھاوا اور ڈی ایس پی جوائے ٹرکی کو کئی بار کال کیا گیا، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
رندھاوا اور ٹرکی کو سوالوں کی فہرست بھیج دی گئی ہے۔ ان کا جواب آنے پر اس کو رپورٹ میں شامل کیا جائےگا۔آر ٹی آئی کارکن وینکٹیش نایک کہتے ہیں کہ یہ جانکاری پوری طرح سے جھوٹی معلوم ہوتی ہے اور یہ عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔دہلی پولیس کے ذریعے کئی جانکاری چھپانے کو لےکر انہوں نے کہا، ‘سینٹرل انفارمیشن کمیشن اور دہلی ہائی کورٹ نے اپنے احکامات میں کہا ہے کہ کسی آر ٹی آئی کو خارج کرتے ہوئے پبلک انفارمیشن افسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ بتائیں کہ کس بنیاد پر وہ ایسی جانکاری کا انکشاف کرنے سے منع کر رہے ہیں۔’
اس سے پہلے دی وائر نے پچھلی رپورٹ میں بتایا تھا کہ کس طرح دہلی پولیس ان اطلاعات کے علاوہ دوسری جانکاریوں کا بھی انکشاف کرنے سے انکار کر رہی ہے۔نارتھ -ایسٹ دہلی میں ہوئے دنگے کے بارے میں پولیس پر اٹھ رہے سوالوں کو لے کر دی وائر نے آرٹی آئی کے تحت کئی درخواست دائر کر کے اس دوران پولیس کے ذریعے لیے گئے فیصلے اور ان کے ذریعے کی گئی کارروائی کے بارے میں جانکاری مانگی تھی۔
لیکن پولیس نے آر ٹی آئی ایکٹ کی جانکاری دینے سے چھوٹ حاصل دفعات کا ‘غیر قانونی’ استعمال کرتے ہوئے اور اس سے لوگوں کی جان خطرے میں ہونے کا حوالہ دےکر دہلی فسادات سے متعلق کئی اہم جانکاریوں کاانکشاف کرنے سے انکار کر دیا۔