دہلی سرکار نے اس سے پہلے دہلی پولیس کی جانب سے بتائے گئے وکیلوں کے ناموں کوقبول کرنے سے منع کر دیا تھا۔ایل جی انل بیجل نے سرکار کے آرڈر کو خارج کرتے ہوئے پولیس کی جانب سے بھیجے گئے وکیلوں کے نام کو قبول کرنے کو کہا۔
نئی دہلی: دلی سرکار نے متنازعہ شہریت قانون (سی اے اے)کے خلاف ہوئے مظاہرہ اوررواں سال فروری میں ہوئے دنگے کےسلسلے میں دائر 85 ایف آئی آر کو لےکر کورٹ میں سرکار کی پیروی کرنے کے لیے چھ خصوصی وکیلوں کی تقرری کی ہے۔اس میں ہندوستان کے سالیسیٹر جنرل، ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل امن لیکھی، ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل چیتن شرما، ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل ایس وی راجو، وکیل امت مہاجن اور وکیل رجت نائر شامل ہیں۔
دہلی سرکار کے محکمہ داخلہ کے ذریعے گزشتہ جمعرات کو اس سلسلے میں ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ دہلی کے ایل جی انل بیجل کی رضامندی کے بعد ان ناموں کو منظوری دی گئی ہے۔
Delhi Government has issued a notification, appointing the following Law Officers in the Addl. Panel of Special Public Prosecutors in the #DelhiRiotsCases:
SG Tushar Mehta, ASGs Aman Lekhi, Chetan Sharma and SV Raju, and Advocates Amit Mahajan and Rajat Nair. #GNCTD pic.twitter.com/LuC36hjZAT
— Live Law (@LiveLawIndia) July 30, 2020
معلوم ہو کہ دہلی فسادات کے سلسلے میں خصوصی وکیلوں کی تقرری کو لےکر دہلی سرکار اور دہلی ایل جی کے بیچ لمبےوقت سے اختلاف چل رہا ہے۔حال ہی میں دہلی پولیس نے دنگا معاملوں میں پیروی کے لیے سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ اور اسسٹنٹ سالیسیٹر جنرل امن لیکھی سمیت چھ وکیلوں کی ایک فہرست دہلی سرکار کو بھیجی تھی، لیکن ریاستی سرکار نے اس کو قبول کرنے سے منع کر دیا تھا۔
ریاستی سرکار نے ایک بیان میں کہا تھا کہ دنگا معاملے میں دہلی پولیس کی جانچ کو عدالت نےغیرجانبدار نہیں پایا ہے۔ اس لیے دہلی پولیس کے پینل کو منظوری دی گئی تو معاملوں کی غیرجانبدارانہ شنوائی نہیں ہو پائےگی۔اس کے بدلے میں دہلی سرکار نے اپنے محکمہ داخلہ کو ہدایت دی تھی کہ وہ دنگوں سے جڑے معاملوں میں مقدمے کے لیے ملک کے سب سے اچھےوکیلوں کا ایک پینل بنائیں۔
یہ معاملے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں لڑے جانے ہیں۔ حالانکہ اس بیچ دہلی ایل جی انل بیجل نےعام آدمی پارٹی سرکار کے فیصلے کو پلٹ دیا اور کہا کہ دیلی پولیس کی جانب سے بھیجی گئی فہرست کوقبول کیا جائے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ایسا کرنے کے لیے بیجل نے آئین کے آرٹیکل 239 اےاے(4)کا سہارا لیا اور عآپ سرکار کے ساتھ ‘اختلافات ’ کا حوالہ دیتے ہوئے معاملے کوصدر کے پاس بھیجا۔
اس کے بعد ایل جی نے دہلی کے محکمہ داخلہ کو ہدایت دی کہ دہلی پولیس کی جانب سے بھیجی گئی وکیلوں کی فہرست قبول کی جائے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ دہلی سرکار کو کسی بھی قیمت پر یہ فیصلہ نافذکرنا ہوگا کیونکہ ایسا آئین میں کہا گیا ہے۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب وکیلوں کی تقرری کو لےکر دہلی سرکار اور ایل جی کے بیچ تنازعہ کھڑا ہوا ہو۔
لائیو لاء کے مطابق فروری مہینے میں دہلی فسادات کے سلسلے میں جانچ کی مانگ کرنے والے ایک معاملے میں دلی ہائی کورٹ میں سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ کی موجودگی کو لےکر تب تنازعہ کھڑا ہو گیا جب دہلی سرکار کے وکیل راہل مہرا نے اعتراض کیا کہ وکیلوں کی تقرری کا اختیار صرف دہلی سرکار کے پاس ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایل جی صرف دہلی سرکار کی صلاح پر وکیل کی تقرری کر سکتے ہیں۔اس کے بعد 27 فروری کو دہلی کے ایل جی نے ایک آرڈرپاس کیا جس میں انہوں نے سماجی کارکن ہرش مندر کے ایک معاملے میں دہلی پولیس کی جانب سے سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ کو پیروی کرنے کی منظوری دی۔
اس کے بعد دہلی سرکار کے محکمہ داخلہ نے 29 مئی کو دہلی دنگا کے ایک معاملے (عقیل حسین بنام دہلی اسٹیٹ)میں سالیسیٹر جنرل، اے ایس جی منندر آچاریہ، اے ایس جی امن لیکھی، مستقل وکیل(حکومت ہند امت مہاجن اور وکیل رجت نائر کی تقرری کی تھی۔