جے این یو کے سابق اسٹوڈنٹ لیڈرعمر خالدنےالزام لگایا ہے کہ شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے دنگوں میں ان کے خلاف بدنیتی کے ساتھ میڈیا مہم چلائی گئی۔ عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ میڈیا رپورٹس میں ان کے ایک مبینہ بیان سے یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ انہوں نے دنگوں میں اپنی شمولیت کی بات قبول کر لی ہے۔ یہ غیرجانبدارانہ شنوائی کے ان کے حق کے تئیں تعصب ہے۔
نئی دہلی: جے این یو کے سابق اسٹوڈنٹ لیڈرعمر خالد کی ایک عرضی پر جمعہ کو دہلی کی ایک عدالت نے کہا کہ عدالتی عمل کی شروعات میں بے قصورہونے کے امکان کو میڈیا ٹرائل سے ختم نہیں کیا جانا چاہیے۔اس عرضی میں عمر خالد نےالزام لگایا ہے کہ شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے دنگوں میں ان کے خلاف بدنیتی کے ساتھ میڈیا مہم چلائی گئی۔شمال-مشرقی دہلی میں پچھلے سال فروری میں ہوئے دنگوں کے سلسلے میں دہلی پولیس نے عمر خالد کو یو ا ےپی اے کے تحت گرفتار کیاہے۔
عدالت نے کہا کہ اسے امید ہے کہ جس معاملے میں جانچ چل رہی ہے یا شنوائی چل رہی ہے اس میں رپورٹنگ کرتے وقت میڈیا سیلف ریگولیشن پر عمل کرےگا۔چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹٹ دنیش کمار نے کہا، ‘سیلف ریگولیشن ریگولیشن کی ایک بہترشکل ہے۔’
انہوں نے کہا کہ جمہوری معاشرےمیں پریس اور میڈیا کو چوتھا ستون بتایا جاتا ہے، لیکن اگر وہ اپنا کام احتیاط سے کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو تعصب کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے اور اسی طرح کا خطرہ ہے ‘میڈیا ٹرائل’۔
خالد کی جانب سے دائر عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ میڈیا رپورٹس میں ان کے مبینہ انکشاف والے بیان سے یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ انہوں نے دنگوں میں اپنی شمولیت کی بات کو قبول کر لیا ہے اور یہ غیرجانبدارانہ شنوائی کے ان کے حق کے تئیں تعصب ہے۔
خالد نے عدالت سے کہا تھا کہ مبینہ انکشاف والے بیان کے نیچے لکھا گیا تھا کہ ملزم نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ بیان اس کے خلاف چارج شیٹ کا حصہ بنایا گیا۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ نیوز رپورٹس میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ ملزم خالد نے دنگوں میں اپنی شمولیت کو قبول کر لیا تھا، لیکن کسی بھی خبر میں قارئین/ناظرین کو یہ واضح نہیں کیا کہ ایسا بیان، بھلے ہی اصل میں دیا گیا ہو، لیکن استغاثہ کے ذریعے اس کا استعمال ثبوت کے طور پر نہیں کیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے میڈیا کی کھینچائی کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کے پاس قانون کی بنیادی جانکاری ہونی چاہیے، کیونکہ قارئین/ناظرین خبر کے حقائق کو پرکھے بغیر اسے سچ مانتے ہیں۔
عدالت نے کہا، ‘ساتھ ہی عام آدمی کو متذکرہ قانون کے بارے میں جانکاری نہیں ہو سکتی ہے۔ اس لیے یہ پریس اور میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ نیوز چینل پر دکھائے جانے والے یا شائع کی جانے والی خبروں کے حالات اور متعلقہ حقائق کے بارے میں اپنے قارئین اورناظرین کو مطلع کرے اور انہیں جانکاری دے۔’
عدالت نے یہ بھی کہا کہ میڈیا کا کوئی بھی کام جو ملزم کو اس کے وقارسے محروم کر سکتا ہے، آئین کے تحت اس کے حقوق کی گارنٹی پر منفی اثر ڈالےگا، اس لیے تمام حقائق کی تصدیق اور وضاحت کے بعد کسی بھی خبر کوشائع کیا جانا چاہیے۔
عدالت نے کہا کہ ایک خبر‘کٹرپنتھی اسلامی اور ہندو ورودھی دلی دنگوں کےآروپی عمر خالد’لفظ کے ساتھ شروع کیا گیا اور اس میں دہلی فسادات کو پوری طرح ہندومخالف دنگے کے طور پر پیش کیا گیا، جبکہ تمام کمیونٹی نے اس کے برے نتیجے کو محسوس کیا۔
جج نے کہا،‘حقائق پر غور کرتے ہوئے کہ ملزم نے عرضی میں کوئی خاص درخواست نہیں کی، مجھے امید ہے کہ رپورٹرزیر التواجانچ یا شنوائی والے معاملوں میں خبرشائع یا نشر کرتے وقت سیلف ریگولیشن تکنیک کا استعمال کریں گے تاکہ کسی ملزم یا کسی دیگرفریق کے تئیں تعصب پیدا نہ ہو۔ریگولیشن کی بہتر شکل سلیف ریگولیشن ہے۔’
خالد نےالزام لگائے تھے کہ کھجوری خاص علاقے میں دنگے سے جڑے معاملے میں میڈیا نے جان بوجھ کر منصوبہ بنایا اور ان کے خلاف متعصب خیالات بنانے کی لگاتار کوشش کی۔
عمر خالد نےالزام لگایا ہے کہ عدالت کی جانب سےنوٹس لینے سے پہلے ہی ان کے خلاف دائرچارج شیٹ میڈیا میں لیک ہو گیا تھا۔ انہوں نے نے کہا ہے کہ مبینہ منفی میڈیا رپورٹس، جس میں انہیں قصوروار کے طور پرنشان زدکیا گیا تھا، اس سے اسے گہری تکلیف ہوئی۔
پولیس نے ان کی درخواست کے جواب میں کہا تھا کہ چارج شیٹ ان کے ذریعے میڈیا میں لیک نہیں کی گئی تھی اور اس وقت یا چارج شیٹ داخل کرنے کے بعد دہلی پولیس نے کوئی پریس ریلیزیا میڈیا بریفنگ نہیں کی تھی۔
بتا دیں کہ پچھلے سال فروری میں شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے دنگے میں مبینہ رول کےالزام میں پولیس نے گزشتہ سال 13 ستمبر کوجے این یوکے سابق اسٹوڈنٹ لیڈرعمر خالد کو گرفتار کیاتھا۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شہریت قانون (سی اےاے)اور این آرسی کے خلاف مظاہروں میں شامل عمر خالد اور دیگر نے دہلی میں دنگوں کی سازش کی تاکہ دنیا میں مودی سرکار کی امیج کو خراب کیا جا سکے۔
پولیس کی جانب سےداخل چارج شیٹ میں ان پر دنگا کرنے،غیر قانونی طریقے سے اکٹھا ہونے، مجرمانہ سازش، قتل، مذہب ،زبان، کمیونٹی وغیرہ کی بنیاددشمنی کو بڑھاوا دینے اور آئی پی سی کی دیگر دفعات کے تحت الزام لگائے گئے ہیں۔ ان جرائم کے تحت سزائے موت تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔
شمال مشرقی دہلی میں پچھلے سال 24 فروری کو شہریت قانون سی اے اےکے حامیوں اور مخالفین کے بیچ جدوجہدہونے کے بعد فرقہ وارانہ فسادات بھڑک گئے جس میں کم سے کم 53 لوگ مارے گئے اور تقریباً 200 زخمی ہو گئے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)