‘دہلی کے گاندھی نگر واقع گورنمنٹ سروودے بال ودیالیہ کے نویں جماعت کے طالبعلموں نے ایک کاؤنسلنگ سیشن کے دوران بتایا کہ ان کی ٹیچر نے یہ بھی کہا کہ ،’تقسیم کے دوران تم لوگ پاکستان نہیں گئے۔ ہندوستان کی آزادی میں تمہارا کا کوئی رول نہیں ہے۔’
نئی دہلی: اترپردیش میں ایک اسکول کی پرنسپل کی جانب سے طالبعلموں کو اپنے مسلمان ہم جماعت لڑکےکو پیٹنے کے لیے مجبور کرنے کا ویڈیو وائرل ہونے کے چند دنوں بعد دہلی میں چار مسلم طالبعلموں نے کہا ہے کہ ان کی ٹیچر نے ان کے خلاف فرقہ وارانہ تبصرے کرتے ہوئے انہیں نشانہ بنایا۔
رپورٹ کے مطابق، ٹیچر نے مبینہ طور پر مسلمانوں کی مذہبی علامتوں کی توہین کی اور طالبعلموں سے پوچھا کہ ملک کی تقسیم کے دوران ان کے گھر والے پاکستان کیوں نہیں چلے گئے۔
این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق، دہلی پولیس نے گاندھی نگر واقع گورنمنٹ سروودے بال ودیالیہ کی ٹیچر ہیما گلاٹی کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
شاہدرہ کے ڈی سی پی روہت مینا نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو واضح کیا کہ یہ دراصل ایک سرکاری اسکول ہے اور ایک جوینائل ویلفیئر آفیسر کاؤنسلروں کے ساتھ طالبعلموں کی کاؤنسلنگ کر رہے تھے۔
نویں جماعت کے طالبعلموں کے اہل خانہ نے کہا تھا کہ گلاٹی نے یہ تبصرہ گزشتہ بدھ 23 اگست کو کیا تھا۔ اہل خانہ نے جمعہ 25 اگست کی شام کو پولیس میں شکایت درج کرائی۔
شکایت میں کہا گیا ہے کہ ٹیچر نے خانہ کعبہ اور قرآن پاک کے بارے میں توہین آمیزتبصرے کیے تھے۔ ٹیچر نے یہ بھی کہا کہ ،’تقسیم کے دوران تم پاکستان نہیں گئے ۔ تم ہندوستان میں رہے۔ ہندوستان کی آزادی میں تمہارا کوئی رول نہیں ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق،ٹیچر کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 153اے (مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 295اے (جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی عمل جس کا مقصد کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرکے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا ) دفعہ 298 (جان بوجھ کر مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ارادے سے بولنا وغیرہ) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
اخبار نے یہ بھی اطلاع دی ہےکہ گلاٹی نے طالبعلموں کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ چندریان 3 کی کامیابی کا جشن منا رہے تھے۔