سال 2020 کے دہلی فسادات کے دوران ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا، جس میں پانچ نوجوان زخمی حالت میں زمین پر پڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کم از کم سات پولیس اہلکار ان نوجوانوں کو گھیرکر قومی ترانہ گانے کے لیے مجبور کرنے کے علاوہ انہیں لاٹھیوں سے مارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے ایک نوجوان فیضان کی موت ہو گئی تھی۔
نئی دہلی: سال 2020 میں شمال-مشرقی دہلی میں فسادات کے دوران پولیس نے مبینہ طور پر ایک 23 سالہ مسلم نوجوان کی پٹائی کی تھی اور قومی ترانہ گانے کے لیے مجبور کیا تھا۔ اس دوران نوجوان کا ویڈیو بھی بنایا گیا تھا۔ مسلمان نوجوان کی موت ہوگئی تھی۔ منگل (23 جولائی) کو دہلی ہائی کورٹ نے سی بی آئی کو اس معاملے کی جانچ کرنے کا حکم دیا ہے۔
بتادیں کہ فروری 2020 میں دہلی میں ہوئے فسادات کے دوران فیضان کی گرفتاری سے پہلے ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا، اس ویڈیو میں زخمی حالت میں فیضان سمیت پانچ نوجوان زمین پر پڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کم از کم سات پولیس اہلکارنوجوانوں کو گھیر کر قومی ترانہ گانے کے لیے مجبور کرنے کے علاوہ انہیں لاٹھیوں سے پیٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اس واقعہ کے بعدفیضان کی والدہ نے د ی وائر کو بتایا تھا کہ پولیس کی جانب سے طبی سہولیات نہیں دینےکی وجہ سے ان کے بیٹے کی موت ہوئی ہے۔ اس معاملے کی ایس آئی ٹی جانچ اور ملزمین کو سزا دلانے کے لیےانہوں نے دہلی ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی ہے۔
فیضان کی والدہ کی عرضی پر فیصلہ سنانے والے جسٹس انوپ جے رام بھمبھانی نے اب کیس کی جانچ سی بی آئی کو سونپ دی ہے۔
فیضان کی والدہ نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ ان کے بیٹے کو پولیس اہلکاروں نے کردم پوری میں بے دردی سے مارا اور پھر اسے جیوتی نگر پولیس اسٹیشن میں غیر قانونی حراست میں رکھا، جہاں اسے کوئی طبی امداد نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے بالآخر اس کی موت ہوگئی۔
ان کی طرف سے پیش ہونے والی ایڈوکیٹ ورندا گروور نے الزام لگایا کہ دہلی پولیس کی تحقیقات جیوتی نگر کے ایس ایچ او (اسٹیشن ہاؤس آفیسر) کے کردار کی جانچ کرنے میں ناکام رہی ہے، جہاں فیضان پر حملہ کیا گیا تھا۔
گروور نے یہ بھی الزام لگایا کہ کیری نگر پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او اور دیگر عہدیداروں نے ریکارڈ میں چھیڑ چھاڑ جعلسازی کی، اس کے باوجود دہلی پولیس نے انہیں تحقیقات سے باہر رکھا جا رہا ہے۔
متاثرہ کی جانب سے عدالت کی نگرانی میں تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے گروور نے افسوس کا اظہار کیا کہ متاثرہ کے خاندان کو انصاف دیے بغیر دہلی پولیس کی تفتیش ہمیشہ جاری رہ سکتی ہے۔
اپنے دفاع میں، دہلی پولیس نے عدالت کو بتایا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے، لیکن اس میں وقت لگ رہا ہے کیونکہ کچھ ویڈیو اور شواہد کی فارنزک جانچ کی جانی ہے۔ دہلی پولیس نے کہا کہ وائرل ویڈیو سے پولیس اہلکاروں کی پہچان کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے کیونکہ ان کے چہرے صاف نظر نہیں آ رہے ہیں۔
تاہم، دو سال قبل اسی معاملے میں عدالت نے دہلی پولیس کو بغیر کسی دباؤ میں آئے قانون کے مطابق تحقیقات کرنے کو کہا تھا۔ اس سے قبل ہائی کورٹ نے بھی اس معاملے کی تحقیقات کے حوالے سے پولیس کی سرزنش کی تھی اور سخت سوال کیے تھے۔ عدالت نے استفسار کیا تھا کہ فیضان کو پولیس کی تحویل میں لینے سے قبل جو میڈیکل رپورٹ تیار کی گئی تھی اس میں اس کے جسم پر صرف 3 زخم تھے جبکہ اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں 20 زخموں کا انکشاف ہوا تھا۔