عمر خالد، شرجیل امام اور دیگر 7 افراد کی ضمانت کی درخواست مسترد

دہلی ہائی کورٹ نے دہلی فسادات 2020 کے مبینہ 'لارجر کانسپیریسی' کیس میں عمر خالد، شرجیل امام اور سات دیگر ملزمان کی ضمانت کی درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے۔ ملزمین کو جنوری-ستمبر 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

دہلی ہائی کورٹ نے دہلی فسادات 2020 کے مبینہ ‘لارجر کانسپیریسی’ کیس میں عمر خالد، شرجیل امام اور سات دیگر ملزمان کی ضمانت کی درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے۔ ملزمین کو جنوری-ستمبر 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اوپر بائیں سے: شفا الرحمان، خالد سیفی، میران حیدر، گلفشاں فاطمہ، اطہر خان، شرجیل امام، عمر خالد اور سلیم خان۔

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے دہلی فسادات 2020 کے نام نہاد ‘لارجر کانسپیریسی ‘ کیس میں عمر خالد، شرجیل امام اور 7 دیگر کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا ہے ۔ ان سب کو جنوری – ستمبر 2020 کے درمیان گرفتار کیا گیا تھا۔

یہ فیصلہ جسٹس نوین چاولہ اور جسٹس شالندر کور کی بنچ نے 2 ستمبر 2025 (منگل) کو سنایا۔

دیگر ملزمان میں اطہر خان، خالد سیفی، محمد سلیم خان، شفا الرحمان، میران حیدر، گلفشاں فاطمہ اور شاداب احمد شامل ہیں۔ ان تمام ملزمان نے نچلی عدالت کے ان احکامات کو چیلنج کیا تھا، جن میں انہیں ضمانت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔

عمر خالد کے دلائل: سماعت کے دوران عمر خالد کے وکیل سینئر ایڈوکیٹ تردیپ پیس نے کہا تھا کہ محض وہاٹس ایپ گروپس میں ہونا،لیکن کوئی پیغام نہ بھیجنا، کسی جرم  کے دائرے میں نہیں آتا۔ انہوں نے یہ بھی دلیل دی  تھی کہ خالد سے نہ تو کوئی رقم برآمد ہوئی ہے اور نہ ہی کچھ اور ۔ پراسیکیوشن جس مبینہ خفیہ میٹنگ کے بارے میں بات کر رہا ہے (23-24 فروری 2020 کی رات) وہ بالکل بھی’خفیہ’  نہیں تھی، جیسا کہ پولیس دعویٰ کر رہی ہے۔

خالد سیفی کے دلائل: سینئر وکیل ربیکا جان نے کہا، ‘کیا عام پیغامات کی بنیاد پر یا استغاثہ کی کہانیاں گھڑنے کی کوششوں کی بنیاد پریو اے پی اےلگایا جا سکتا ہے؟ کیا یہ ضمانت سے انکار، یا یو اے پی اےکے تحت مقدمہ چلانے کی بنیاد ہو سکتی ہے؟’ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سیفی کو ضمانت دی جانی چاہیے کیونکہ تین شریک ملزمان کو جون 2021 میں ضمانت مل چکی ہے۔

شرجیل امام کے دلائل: شرجیل نے کہا کہ ان کا باقی شریک ملزمان سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی سازش یا سازشی بیٹھکوں کا حصہ رہے ہیں۔ ان کے وکیل طالب مصطفیٰ نے عدالت کو بتایا کہ دہلی پولیس کی طرف سے لگائے گئے الزامات کے مطابق امام کا کردار 23 جنوری 2020 تک محدود ہے۔ دہلی پولیس نے امام کے خلاف جو سب سے بڑا’ثبوت’ پیش کیا ہے وہ ان کی بہار میں دی گئی تقریر ہے۔

حکومت کے دلائل: سالیسٹر جنرل تشار مہتہ، جو دہلی پولیس کی طرف سے پیش ہوئے تھے، نے ضمانت کی درخواستوں کی مخالفت کی اور کہا،’اگر آپ ملک کے خلاف کچھ کر رہے ہیں، تو بہتر ہے کہ آپ جیل میں رہیں، جب تک کہ آپ کو بری  نہیں کر دیا جاتایا سزا نہیں دی جاتی۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملزمین کا مقصد تھا کہ ایک  خاص دن فساداورآگ زنی کر اکر ملک کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کیا جائے۔

اس کیس کے ملزم ہیں : طاہر حسین، عمر خالد، خالد سیفی، عشرت جہاں، میران حیدر، گلفشاں فاطمہ، شفا الرحمان، آصف اقبال تنہا، شاداب احمد، تسلیم احمد، سلیم ملک، محمد سلیم خان، اطہر خان، صفورہ زرگر، شرجیل امام، فیضان خان اور نتاشا نروال۔

دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کا کیا دعویٰ ہے؟

انڈین ایکسپریس کے مطابق ، دہلی پولیس کی اسپیشل سیل، جو فسادات کے پیچھے مبینہ سازش کی تحقیقات کر رہی ہے، نے ان 18 افراد کو سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) اور تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی متعلقہ دفعات کے تحت گرفتار کیا تھا۔

فی الحال، یہ معاملہ الزامات طے کرنے کے عمل میں ہے۔ فروری 2020 کے دہلی فسادات میں 53 افراد ہلاک اور 700 سے زیادہ  لوگ زخمی ہوئے تھے۔

دہلی فسادات سے متعلق معاملات میں 6 مارچ 2020 کو ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ 16 ستمبر 2020 سے 7 جون 2023 کے درمیان پانچ چارج شیٹ داخل کی گئی ہیں۔

اسپیشل سیل کے مطابق، فسادات کئی مہینوں تک چلی ‘گہری سازش’ کا نتیجہ تھے، جو مبینہ طور پر دسمبر 2019 میں کابینہ کی جانب سے شہریت ترمیمی بل کی منظوری کے بعد رچی گئی تھی۔ اس ‘سازش’ میں 23 احتجاجی مقامات کا قیام بھی شامل تھا، جو ‘مسلم اکثریتی’ علاقوں میں مساجد اور مرکزی سڑکوں کے قریب بنائے گئے تھے اور 24 گھنٹےچلائے گئے۔

اسپیشل سیل کا دعویٰ ہے کہ ملزمان کا ارادہ تھا کہ ‘جب کافی تعداد میں لوگ جمع ہوجائیں تو احتجاج کو ‘چکہ جام’ میں تبدیل کیا جائے’، اور یہ سب اس منصوبے کا حصہ تھا جب اس وقت کے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ 2020 میں دہلی کے دورہ پر تھے۔ اسپیشل سیل کے مطابق، ان کا مقصد فرقہ وارانہ تشدد پھیلانا تھا۔

اپنا مقدمہ ثابت کرنے کے لیے، انسداد دہشت گردی یونٹ نے بنیادی طور پر ان وہاٹس ایپ چیٹس پر انحصار کیا، جس میں مبینہ طور پر احتجاج کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی؛ سی سی ٹی وی فوٹیج، جس میں کچھ ملزمان کو املاک کو تباہ کرتے دیکھا جا سکتا ہے؛ اور محفوظ گواہوں کے بیانات، جنہوں نے ملزمین کی اس ‘سازش’ میں کردار کے بارے میں گواہی دی۔

وہاٹس ایپ گروپس مسلم اسٹوڈنٹ آف جے این یو (ایم ایس جے)، جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی (جے سی سی) اور دہلی پروٹسٹ سپورٹ گروپ (ڈی پی ایس جی) سے ہوئی  بات چیت کا ذکر چارج شیٹ میں بار بار آیا ہے۔