دہلی کابینہ کی میٹنگ میں وکیلوں کی تقرری کے سلسلےمیں دہلی پولیس کی تجویز کو نامنظور کرتے ہوئے کہا گیا کہ دنگا معاملے میں پولیس کی جانچ کو عدالت نے غیرجانبدارنہیں پایا ہے، اس لیے پولیس کے پینل کو منظوری دی گئی، تو معاملوں کی غیرجانبدارشنوائی نہیں ہو پائےگی۔
نئی دہلی: دہلی کی عام آدمی پارٹی(عآپ)سرکار نے اس سال فروری میں شہر میں بھڑکے دنگوں سے جڑے معاملے میں وکیلوں کی تقرری کے سلسلے میں دہلی پولیس کی تجویز کو منگل کو خارج کر دیا۔دہلی سرکار نے اپنے ہوم ڈپارٹمنٹ کوہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں، دنگوں سے جڑے معاملوں میں مقدمے کے لیے ملک کے سب سے اچھےوکیلوں کا ایک پینل بنانے کی ہدایت دی ہے۔
وزیر اعلیٰ ارویند کیجریوال کی قیادت میں دہلی کابینہ کی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا ۔دہلی سرکار نے ایک بیان میں کہا، ‘دہلی کابینہ کی میٹنگ میں وکیلوں کی تقرری کےسلسلےمیں دہلی پولیس کی تجویز کو خارج کر دیا گیا۔ کابینہ کا ماننا ہے کہ دنگا معاملے میں دہلی پولیس کی جانچ کو عدالت نے غیر جانبدارنہیں پایا ہے۔ اس لیے دہلی پولیس کے پینل کو منظوری دی گئی تو معاملوں کی غیرجانبدارانہ شنوائی نہیں ہو پائےگی۔’
بتا دیں کہ دہلی دنگوں سے جڑے معاملوں میں سرکاری وکیلوں کی تقرری کو لے کر عام آدمی پارٹی کی سرکار کاایل جی انل بیجل کے ساتھ اختلاف چل رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق، دہلی پولیس نے سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ اور اسسٹنٹ سالیسیٹر جنرل امن لیکھی سمیت چھ وکیلوں کی ایک فہرست دہلی سرکار کو بھیجی تھی جو کہ دہلی دنگے اورشہریت قانون (سی اے اے )مخالف مظاہروں سے جڑے 85 معاملوں کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں خصوصی ایڈووکیٹ کے طور پر پیش کرتے۔
حالانکہ دہلی پولیس کی تجویز کو خارج کرتے ہوئے دہلی سرکار نے کہا کہ دہلی سرکار کے وکیل راہل مہرا اور ان کی ٹیم ان معاملوں میں انصاف دلانے میں اہل ہیں۔اس کے بعدایل جی انل بیجل نے دہلی کے وزیر داخلہ کی جانب سے بھیجی گئی تجویز پرعدم اتفاق کا اظہار کیا تھا اور اپنے خاص اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے فائل دیکھنے کے لیے مانگی تھی۔
اس کے بعدانل بیجل اور دہلی کے وزیر داخلہ کے بیچ اس مدعے پر ایک بیٹھک ہوئی جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔بیجل نے 17 جولائی کو کیجریوال کو خط لکھ کر سات دنوں کے اندر چھ سینئروکیلوں کی تقرری کی دہلی پولیس کی تجویز پر فیصلہ کرنے کو کہا تھا۔
تحقیقات اور استغاثہ کے مابین آزادی کو یقینی بنانے کی ضرورت
کابینہ میٹنگ میں ایل جی کے خط پر بحث ہوئی۔ بیٹھک کے بعد دہلی سرکار نے ایک بیان جاری کرکے کہا،اصولوں اور جانچ و استغاثہ کے بیچ آزادی کو یقینی بنانے کی ضرورت کو دھیان میں رکھتے ہوئے دہلی کابینہ نے ہوم ڈپارٹمنٹ کو دہلی دنگوں سے متعلق معاملوں کے لیے ملک میں سب سے اچھے وکیلوں کا ایک غیرجانبدارپینل بنانے کی ہدایت دی ہے۔
اس میں کہا گیا کہ کابینہ میٹنگ کے دوران ایل جی اور دہلی پولیس کی جانب سے بھیجی گئی تجویز کا گہرائی سے مطالعہ کیا گیا۔بیان میں کہا گیا، کابینہ نے کہا کہ دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد کرنے والوں کو کڑی سزا دی جانی چاہیے۔ اسی کے ساتھ ہی کابینہ نے یہ بھی کہا کہ بے قصور لوگوں کو کوئی سزانہیں ہونی چاہیے اور ان کوہراساں نہیں کیاجانا چاہیے۔
بیان میں آگے کہا گیا کہ دہلی پولیس کے وکیلوں کے پینل کو منظوری دینے کے ایل جی کے مشورے کو وہ خارج کرتی ہے۔
ہائی کورٹ جج اور سیشن عدالتوں نے دہلی پولیس کے رول پر اٹھائے سوال
بیٹھک کے دوران دہلی کابینہ نے کہا کہ دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس سریش کمار نے شنوائی کے دوران کہا تھا کہ دہلی دنگوں کے معاملے میں دہلی پولیس پورے عدالتی نظام کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔
بیان میں کہا گیا، کابینہ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ مختلف سیشن عدالتوں اور میڈیا نے دنگا اور اس کی جانچ کے دوران دہلی پولیس کے رول پر سوال اٹھائے ہیں۔ دہلی کابینہ نے دیکھا ہے کہ ایسی صورت میں دہلی پولیس کے وکیلوں کا پینل ان معاملوں میں انصاف کو یقینی نہیں کر پائےگا۔ دہلی کابینہ نے دیکھا کہ یہ معاملے بہت اہم ہیں اور دہلی سرکار کے وکیلوں کے پینل کو ان معاملوں کی نمائندگی کرنی چاہیے۔
جانچ ایجنسی کو وکیلوں کا فیصلہ کرنے کی منظوری نہیں ملنی چاہیے
بیان میں آگے کہا کہ کابینہ نے پایا کہ بنیادی اصول یہ ہے کہ جانچ پوری طرح سے آزاد ہونی چاہیے اور جانچ کوعدالتی کارروائی کے باقی حصوں میں دخل نہیں دینا چاہیے۔
اس اصول کو دھیان میں رکھتے ہوئے دہلی کابینہ نے کہا ہے کہ ایسی صورت میں دہلی پولیس کی جانب سے مقرر وکیلوں کے ذریعے آزاد اورغیرجانبدارجانچ کی امید کرناممکن نہیں ہے۔ دہلی سرکار کی کابینہ نے ذکر کیا ہے کہ جانچ ایجنسی کو وکیلوں کو طے کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
ایل جی تقرری میں لگاتار دخل دے رہے ہیں
کابینہ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ وکیلوں کے پینل کی تقرری کے فیصلے میں ایل جی انل بیجل کے باربار دخل دینے کا طریقہ افسوس ناک تھا۔
کابینہ نے یاد دلایا کہ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے 4 جولائی، 2018 کے اپنے آرڈر میں صاف طور پر کہا ہے کہ ایل جی غیر معمولی معاملوں میں چنی گئی سرکار کے فیصلوں پر اپنے اختیار کا استعمال کر سکتے ہیں۔کابینہ نے ذکر کیا کہ اس معاملے میں ایل جی نے وزیر اعلیٰ کو کابینہ میں فیصلہ لینے کے لیے ایک خط لکھا تھا جو دہلی سرکار کے ذریعے پہلے سے مقررہ وکیلوں کے پینل سے راضی نہیں تھے۔
وکیلوں کی تقرری غیرمعمولی معاملوں کے زمرے میں نہیں آتی ہے
حالانکہ، کابینہ نے کہا ہے کہ سی آر پی سی کی دفعہ24 میں یہ بھی ذکر ہے کہ دہلی سرکار کو سرکاری وکیل کی تقرری کا حق ہے۔آئین کے تحت ایل جی کے پاس دہلی کی چنی ہوئی سرکار کے کسی بھی فیصلہ میں دخل دینے اور پلٹنے کے خصوصی اختیارات ہیں۔ لیکن سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ایل جی غیرمعمولی معاملوں میں ہی اس اختیار کااستعمال کر سکتے ہیں۔ورنہ ، یہ جمہوری جذبے کے خلاف ہے۔ وکیلوں کے ایک پینل کی تقرری کسی بھی غیرمعمولی زمرے میں نہیں آتی ہے اور یہ ایک عام پروسس ہے۔ اس وجہ سے دہلی سرکار وکیلوں کی تقرری کے لیے پوری طرح سے اہل ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)