جلیاں والا باغ قتل عام تاریخ کو شرمسار کرنے والا بدنما داغ:​ برٹن کی وزیر اعظم

ہندی نژاد رکن پارلیامان نے جلیاں والا باغ قتل عام کے لئے رسمی طور پر معافی مانگنے کی مانگ برٹن کی حکومت سے کی تھی۔ برٹن کے وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر ہم تمام واقعات پر معافی مانگنے لگیں‌گے تو اس سے معافی کی اہمیت کم ہو جائے‌گی۔

ہندی نژاد رکن پارلیامان نے جلیاں والا باغ قتل عام کے لئے رسمی طور پر معافی مانگنے کی مانگ برٹن کی حکومت سے کی تھی۔ برٹن کے وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر ہم تمام واقعات پر معافی مانگنے لگیں‌گے تو اس سے معافی کی اہمیت کم ہو جائے‌گی۔

برٹن کی وزیر اعظم ٹیریسا مے اور جلیاں والا باغ قتل عام کی یاد میں بنایا گیا میموریل(فوٹو : رائٹرس/ وکی پیڈیا)

برٹن کی وزیر اعظم ٹیریسا مے اور جلیاں والا باغ قتل عام کی یاد میں بنایا گیا میموریل(فوٹو : رائٹرس/ وکی پیڈیا)

نئی دہلی: برٹن کی وزیر اعظم ٹیریسا مے نے امرتسر کے جلیاں والا قتل عام کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر گزشتہ بدھ کو اس سانحے کو برٹش ہندوستانی تاریخ میں’شرمسار کرنے والا بدنما داغ ‘قرار دیا لیکن انہوں نے اس معاملے میں رسمی طور پرمعافی نہیں مانگی۔ہاؤس آف کامنس میں وزیر اعظم کے ہفتہ وار سوال جواب کی شروعات میں انہوں نے اپنے بیان میں اس سانحےپر ‘افسوس ‘ کا اظہار کیا۔حالاں کہ  برٹش حکومت پہلے ہی اظہار افسوس کر چکی ہے۔انہوں نے ایک بیان میں کہا،1919 کے جلیاں والا باغ قتل عام کا واقعہ برٹش ہندوستانی تاریخ میں  شرمسار کرنے والا بدنما داغ ہے۔ جیسا کہ ملکہ ایلزبتھ دوم نے 1997 میں جلیاں والا باغ جانے سے پہلے کہا تھا کہ یہ ہندوستان کے ساتھ ہمارے ماضی کی تاریخ کی تکلیف دہ مثال ہے۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘ جو کچھ ہوا اور لوگوں کو تکلیف جھیلنی پڑی، اس کے لیے ہمیں شدیدرنج ہے۔ میں خوش ہوں کہ آج برٹن-ہندوستان کے تعلقات ہر طرح سے اچھے ہیں۔ ہندوستانی کمیونٹی برٹش سماج میں اپنی خدمات  دے رہی ہے اور مجھے اعتماد ہے کہ پورا ایوان چاہے‌گا کہ برٹن کے ہندوستان کے ساتھ تعلقات خوشگوار رہیں۔ ‘حزب مخالف لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کاربن نے مانگ کی کہ قتل عام میں مارے گئے لوگ اس واقعہ کے لئے پوری طرح سے واضح معافی کے حق دار ہیں۔پنجاب کے امرتسر واقع جلیاں والا باغ میں 1919 میں ہوا قتل عام اپریل مہینے میں بیساکھی کے دن ہوا تھا۔ جنرل ڈائر کے حکم پر برٹش ہندوستانی فوجیوں نے پنجاب کے امرتسر شہر واقع جلیاں والا باغ میں آزادی کے لئے مظاہرہ کر رہے لوگوں پر گولی چلا دی تھی۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، اس گولی باری میں برٹش حکومت کے ریکارڈ میں 400 لوگوں کے مارے جانے کی بات درج کی گئی، لیکن کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ مرنے والوں میں مرد، خواتین اور بچے شامل تھے۔رپورٹ کے مطابق ہندوستانی نژادکے لیبر رکن پارلیامان پریت کور گل نے اس دوران کہا، ‘ جیسا کہ جلیاںوالا باغ قتل عام کے 100 سال پورے ہو رہے ہیں اس لئے برٹن کی حکومت کو اس کے لئے رسمی طور پرمعافی مانگنے کی ضرورت ہے۔ ‘گل کی بات کی حمایت کرتے ہوئے لیبر رکن پارلیامان ویریندر شرما نے کہا کہ برٹن کی وزیر اعظم کے لئے یہ صحیح وقت ہے کہ وہ اس واقعہ کے لئے عوامی طور پر معافی مانگ لیں۔

دریں اثناجلیاں والا باغ قتل عام کی سالگرہ کے موقع پر رسمی طور پرمعافی کی مانگ کو لےکر برٹش حکومت نے گزشتہ منگل کو اس پر غور کرنے کے لئے ‘ مالی مشکلات ‘ کی حقیقت کو بھی دھیان میں رکھنے کو کہا۔برٹش وزیر خارجہ مارک فیلڈ نے ‘جلیاںوالا باغ قتل عام ‘پر ہاؤس آف کامنس کے ویسٹ منسٹر ہال میں منعقد بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان باتوں کے حدود کی لکیر کھینچنی ہوگی، جو تاریخ کے شرمناک حصے ہیں۔ برٹش حکومت سے متعلق مسائل کے لئے بار بار معافی مانگنے سے اپنی طرح کی دقتیں سامنے آتی ہیں۔فیلڈ نے کہا کہ وہ برٹن کے نوآبادیاتی وقت کو لےکر تھوڑے قدامت پسند  ہیں اور ان کو ماضی میں ہو چکیں باتوں پر معافی مانگنے کو لےکر ہچکچاہٹ ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی حکومت کے لئے یہ فکر کی بات ہو سکتی ہے وہ معافی مانگے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی معافی مانگنے میں مالی مشکلات بھی ہو سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم تمام واقعات پر معافی مانگنے لگیں‌گے تو اس سے اس کی اہمیت کم ہو جائے‌گی۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)