عراق میں بےروزگاری اور بد عنوانی کے خلاف مظاہرہ، 20 لوگوں کی موت

عراق کی راجدھانی بغداد میں گزشتہ ایک اکتوبر سے حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے ، جو جلدہی جنوبی عراق کے شیعہ اکثریتی شہروں میں پھیل گیا۔

عراق کی راجدھانی بغداد میں گزشتہ ایک اکتوبر سے حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے ، جو جلدہی جنوبی عراق کے شیعہ اکثریتی شہروں میں پھیل گیا۔

عراق کی راجدھانی بغداد میں مظاہرین (فوٹو : رائٹرس)

عراق کی راجدھانی بغداد میں مظاہرین (فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: عراق میں بد عنوانی اور بےروزگاری کے خلاف تین دنوں سے چل رہے حکومت مخالف مظاہروں میں جمعرات کو مرنےوالوں کی تعداد تقریباً 20 ہو گئی۔ بنا کسی قیادت کے شروع ان مظاہروں کا جنوبی عراق میں زیادہ اثر ہے۔گولی اور آنسو گیس کے گولے داغنے اور مقامی سطح پر کرفیو کے باوجود بڑی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر اترے۔مظاہروں سے پریشان وزیر اعظم عدیل عبدالمہدی نے راجدھانی بغداد میں صبح پانچ بجے سے لوگوں کی آمد ورفت پر پوری طرح سے روک لگا دی اس کے باوجود لوگ مشہور تحریر چوک پر جمع ہوئے۔

پولیس کے ذریعے بھیڑ کو منتشر کرنے سے پہلے ایک مظاہرین نے اے ایف پی کو بتایا،’ہم یہی سو رہے ہیں تاکہ پولیس اس مقام پر قبضہ نہ کرے۔ ‘مظاہرین نے گزشتہ ایک اکتوبر کو بغداد میں مظاہرہ کی شروعات کی تھی، جو جلدہی جنوبی عراق کے شیعہ اکثریتی شہروں میں پھیل گیا۔حفاظتی اور طبی ذرائع نے بتایا کہ جنوبی عراق کے عمارہ شہر میں چار مظاہرین کی گولی لگنے سے موت ہو گئی جبکہ زیکر ریاست میں ایک دیگرمارا گیا۔انہوں نے بتایا کہ اس کے ساتھ ہی تین دن سے جاری مظاہرے میں ایک پولیس افسر سمیت 20 لوگوں کی موت ہو چکی ہے جبکہ 600 مظاہرین اور محافظ دستے زخمی ہوئے ہیں۔

کشیدگی کے درمیان تیز طرار مذہبی رہنما مقتدہ الصدر کی طرف سے عام ہڑتال کے اعلان کے مدنظر بغداد میں انٹرنیٹ اور سرکاری دفتروں کو بند کرنے کے حکم دئے گئے ہیں۔اس بیچ حفاظتی ذرائع نے بتایا کہ جمعرات کو طلوع آفتاب سے پہلے دو دھماکے گرین زون میں ہوئے جہاں پر کئی وزارت اور سفارت خانہ ہیں۔ پچھلے ہفتے بھی دو راکٹ یہاں داغے گئے تھے۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، پچھلے سال گرمیوں کے بسرا شہر کے جنوبی علاقے میں اسی طرح کے مظاہرے نے سابق وزیر اعظم حیدر العابدی کی  دوسری مدت کار کے امکان کو ختم کر دیا تھا۔

عدیل عبدالمہدی اگلے مہینے وزیر اعظم کے طور پر ایک سال مکمل  کر لیں‌گے۔تحریرچوک پر الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے 27 سال کے عبداللہ ولید نے کہا،’ہم نوکری اور بہتر خدمات چاہتے ہیں۔ ہم اس کی کئی سالوں سے مانگ کر رہے ہیں، لیکن حکومت نے کبھی اس طر دھیان نہیں دیا۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘مظاہرین زیادہ تر ناراض نوجوان ہیں، جو کسی سیاسی یا مذہبی تنظیم سے تعلق نہیں رکھتے۔ وہ بےحد مایوس ہیں کیونکہ ان کے پاس نوکریاں نہیں ہیں۔ ‘

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)