کو ویکسین سے متعلق معلومات/اعدادوشمار پر رازداری کا پردہ پڑا ہوا ہے اور ہم ایک ایسی ناگفتہ بہ حالت میں ہیں، جس میں کم سے کم کچھ لوگوں کے پاس ویکسین لینے کے علاوہ شایداور کوئی راستہ نہیں ہے، خواہ ان کے دل میں اپنی سلامتی کو لے کر کتنا ہی شبہ کیوں نہ ہو۔
گزشتہ3 جنوری کو صبح 11 بجے ڈرگ کنٹرولر جنرل آف انڈیا(ڈی جی سی آئی)ڈاکٹر وی جی سومانی نے ایک بیان میں کوویکسین -کووڈ 19 ویکسین کینڈیڈیٹ کو ‘کلینکل ٹرائل کےمرحلے’میں منظوری کااعلان کیا۔مشہورڈاکٹر اور ویکسین کے ماہر گگن دیپ کانگ سمیت متعددماہرین کے لیےیہ ایک حیران کن خبر تھی۔
اسی دن رات کو 9: 40 بجے وزیر صحت ہرش وردھن نے ٹوئٹر پر کہا کہ جن لوگوں کو کو ویکسین کا ٹیکہ لگایا جائےگا، وہ اصل میں ویکسین کی سکیورٹی اور افادیت کااندازہ کرنے کے لیےکلینکل ٹرائل کا حصہ ہوں گے۔
جبکہ ڈاکٹر سومانی کے3جنوری کے بیان میں‘کلینکل ٹرائل موڈ’ کا ذکر کیا گیا تھا، وہیں سینٹرل ڈرگ اسٹینڈرڈ کنٹرول آرگنائزیشن(سی ڈی ایس سی او)کی سبجیکٹ ایکسپرٹ کمیٹی کی جانب سے شائع ایک دیگر نوٹ میں کہا گیا کہ ‘عوامی مفاد میں کو ویکسین کو کلینکل ٹرائل کے مرحلے میں ایمرجنسی اور محدود استعمال کی اجازت اضافی احتیاط کے طور پر دی جائےگی تاکہ ٹیکہ کاری کے لیے زیادہ متبادل موجود ہوں، بالخصوص میوٹینٹ اسٹرینوں سے ہونے والے انفیکشن کے معاملے میں۔’
اس طرح کی تفصیلات کے ساتھ منظوری کو ہندوستان میں تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ بالخصوص نئے ڈرگس اینڈ کلینکل ٹرائل رولز، 2019 اور ڈرگس اینڈ کاسمیٹکس ایکٹ 1940کے تحت۔ ڈاکٹرسومانی نے صحافیوں کے سوالوں کا جواب دینے سے بھی انکار کر دیا، جس نےمزید کنفیوژن پھیلانے کا کام کیا ہے۔
حالانکہ، وردھن کے ٹوئٹس سے اس بات کو لےکر کسی شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے کہ سی ڈی ایس سی او، ڈی سی جی آئی اور وزارت صحت کو ویکسین کے عوامی استعمال میں تیزی لانے کے لیے نوویل کورونا وائرس کے نئے اور زیادہ متعدی اسٹرین کا استعمال ایک بہانے کے طور پر کر رہی ہے۔
ایک نیا تجربہ
مشہور وائرولوجسٹ اور فی الحال ترویدی اسکول آف بایوسائنسز، اشوکا یونیورسٹی، سونی پت کے ڈائریکٹر شاہد جمیل نے د ی وائر سائنس کو بتایا،‘مجھے بھروسہ ہے کہ آخرکار کو ویکسین محفوظ اور 70 فیصدی سے زیادہ مفید ثابت ہوگا۔ ایسا میں وسیع پیمانے پراستعمال ہونے والے پلیٹ فارم اور کامیابی کے ساتھ غیرفعال(ان ایکٹویٹیڈ)وائرل ٹیکے بنانے کے بھارت بایوٹیک کے خود کے ٹریک ریکارڈ کی بنیاد پرکہہ رہا ہوں ۔ میری تشویش عمل اور ذمہ دارعہدوں پر بیٹھے لوگوں کی بیان بازیوں کو لےکر ہے۔’
ہندوستان میں کلینکل ٹرائلزکا ریگولیشن کئی قانونی،سائنسی،اخلاقی اور جمہوری اصولوں کے تحت کیا جاتا ہے، جس کی اشاعت تین اکائیوں کے ذریعے کی جاتی ہے :سی ڈی ایس سی او، ٹرائل کو اسپانسر کرنےوالی کمپنی یا انسٹی ٹیوٹ اور وہ مخصوص مراکز جہاں ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ،ٹیسٹ کے نتائج کو لےکر پیپرشائع کرنے والےرسالوں کی اپنی ضروریات ہیں۔ یہ حدودان خاص حالات اور سیاق وسباق کو جنم دیتے ہیں، جن میں کلینکل ٹرائل ہو سکتے ہیں۔ اگر ٹیسٹ ان حدود کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ان کے ذریعے ان کےسلوک کاڈائریکشن کرنے والے کچھ یاتمام ضابطوں کو توڑے جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔
ان حدودکی نوعیت کو سمجھنے کے لیے ان مثالوں پرغور کیجیے جن میں ٹیسٹ نے انہیں عبورکیا۔ جیسا کہ ڈاکٹرجمی ناگ راج راؤ نے بایوکان کےآدھا تیتر آدھار بٹیر آئٹولجمیب ٹیسٹ کے بارے میں لکھا ہے:اس ٹیسٹ کو کرنے والے محققوں نے ٹیسٹ شروع ہونے کے بعداس کے نتائج میں پھیر بدل کر دیا، انہوں نے سیمپل سائزکےشمار کے طریقہ کی وضاحت نہیں کی، وہ اس میں حصہ لینے والوں کے گروپوں کے بیچ اثر کے سائز میں کے فرق کے بارے میں صاف نہیں تھے، ٹیکہ دینے کی مبہم پالیسی اپنائی اور کچھ مریضوں کے نتائج کو چھپایا۔ ایک دوسرے ٹیسٹ نے یہ دکھایا کہ فیوی پراور کووڈ 19 کے خلاف ایک مفید اینٹی وائرل ایجنٹ نہیں ہے لیکن محققوں نے اس کے الٹ دعویٰ کرنے والے پریس ریلیز کو شائع کیا۔
ایک تیسری مثال میں بھوپال میں کام کر رہے ایک ایکٹوٹ رچنا ڈھینگرا نے 13 جنوری کو الزام لگایا کہ اسپتال بھولے بھالے انجان لوگوں کو ویکسین کینڈیڈیٹ کو ویکسین کا ٹیکہ لگا رہا ہے، جنہیں اس بات کی بھی جانکاری نہیں دی گئی تھی کہ وہ اصل میں ایک کلینکل ٹرائل کا حصہ ہیں۔
چوتھی مثال:بھارت بایوٹیک نے مبینہ طور پر اپنے ٹرائل مراکز کے پرنسپل انویسٹی گیٹروں(جانچ کرنے والے)سے یہ کہتے ہوئے50 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو (ٹیسٹ میں)حصہ لینے کے لیے مدعوکرنے کے لیے کہا کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں، تو انہیں کو ویکسین لگانے کے لیے زیادہ وقت تک انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔
اور پانچویں مثال: جس وقت انڈین کاؤنسل آف میڈیکل ریسرچ(آئی سی ایم آر)نے کو ویکسین کے لیے بھارت بایوٹیک کے تیسرےمرحلےکےٹرائل کومنظوری دی،اس وقت ایک مبصرکو ٹیسٹ کےغیرجانبدارانہ عمل کی نگرانی کی ذمہ داری نبھانے والی والی ایتھکس کمیٹی کےانتخاب اور تنظیم کو لےکر کئی گڑبڑیاں ملی تھیں۔
فی الحال آئی سی ایم آر اور ایمس، نئی دہلی کے ڈائریکٹر رندیپ گلیریا جس طرح سے ڈی جی سی آئی کے دفاع میں اتر آئے ہیں، اس نے کئی لوگوں کا دھیان اپنی طرف کھینچا ہے۔ (گلیریا نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ کو ویکسین کا استعمال صرف ‘بیک اپ’کے طور پر کیا جائےگا۔ جیسا کہ جمیل نے نشان زد کیا ہے، ‘آئی سی ایم آر کو ویکسین کے فروغ میں شراکت دار ہے اور ایمس ایک ٹیسٹ سینٹر ہے۔ یہ کافی پریشان کن ہے۔’
تیسرا مرحلہ کہاں ہے؟
رولنگ ریویوزکی بنیادپر ویکسین امیدوار کے ایک‘کھلے’کلینکل ٹرائل پر ان خلاف ورزیوں کو اور ساتھ ہی دوسری خلاف ورزیوں کو بھی دہرانے کا خطرہ ہے۔مثال کےطورپرکو ویکسین بنانے والی بھارت بایوٹیک کمپنی نے جانکاری دی ہے کہ اس نے کو ویکسین کے تیسرےمرحلہ کے کلینکل ٹرائلز کے لیے20000 سے زیادہ رضاکاروں کو رکھا ہے۔
گزشتہ 3 جنوری کو وزارت صحت کی پریس ریلیز کے مطابق بھارت بایوٹیک اب تک 22500 کے قریب امیدواروں کو کو ویکسین کا ٹیکہ لگا چکی ہے اور ان کے سلوک کی بنیاد پر ویکسین کو محفوظ پایا ہے۔لیکن کمپنی نے اس جانکاری کی افادیت اور محفوظ حصہ کو عوام کے ساتھ شیئرنہیں کیا ہے نہ ہی سائنسی جرنلوں میں پیپروں کے ذریعےآزادانہ سائنسدانوں کے ساتھ ہی اس کو شیئر کیا ہے۔
جبکہ ماہرین کہنا ہے کہ اسے ایسالازمی طریقے سے کرنا چاہیے تھا۔ کمپنی نے اسے صرف سی ڈی ایس سی او کے ساتھ کو ویکسین کی منظوری کے مرحلےمیں شیئر کیا ہے۔
کارر وائی کے اعدادوشمار کے علاوہ جمیل نے کارر وائی پر ہی سوال کھڑے کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ‘اگر منظوری کے لیےتحفظ اورافادیت دونوں کے ہی اعدادوشمارایک نمائندہ آبادی کے لیے چاہیےتو دوسرے مرحلےکی حفاظت اور امیونوجنسٹی کےاعدادوشمار اس شرط کو پورا نہیں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں تیسرے مرحلےکی درکار ہوتی ہے۔ یہ نمائندہ آبادی کے اعدادوشمار کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ وہ ڈیٹا کہاں ہے؟ ویکسین دوائی نہیں ہیں۔ ویکسین صحت مند لوگوں کو دی جاتی ہے۔ یہ علاج نہیں ہے، روک تھام کی تدبیر ہے۔ تحفظ اورافادیت دونوں ضروری ہے۔’
سکیورٹی خدشات، جو مستقل توجہ کا مرکزبنے ہوئے ہیں، کے علاوہ عوامی دائرے میں ویکسین امیدوار کو لےکر دو دعوے ہیں، جس کی بنیاد کا کوئی پتہ نہیں ہے۔پہلا، ویکسین کےقریب60 فیصدی مفید ہونے کی امید ہے۔ دوسرا، آئی سی ایم آر کا خیال ہے کہ کو ویکسین نوویل کورونا وائرس کے نئے اسٹرین کے خلاف زیادہ مفید ہوگی۔
لیکن کم سے کم گگن دیپ کانگ اس کو لےکرمطمئن نہیں تھیں۔ انہوں نے دکن ہیرالڈ کو بتایا،‘ان کی(سبجیکٹ ایکسپرٹ کمیٹی)دلیل ہے کہ کو ویکسین وائرس کے برٹن والےنوع کے خلاف ایک قسم کے بیمہ کی طرح کام کرےگی۔ لیکن سارس سی اووی 2 کے کسی اسٹرین کے خلاف کوویکسین کی افادیت کو لےکر کسی ڈیٹا کو لےکر میں پوری طرح سے ناواقف ہوں،مبینہ اسٹرین کے خلاف کسی خاص افادیت کی بات تو جانے دیجیے۔ یہ ایک مبالغہ ہے کہ یہ برٹش نوع کے خلاف مفید ہوگی۔’
یہاں تک کہ بھارت بایوٹیک کے چیئرمین اور مینیجنگ ڈائریکٹر کرشنا ایلا نے 4 جنوری کی شام کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ویکسین کینڈیڈیٹ کی‘وائرس کے میوٹینٹ اسٹرین کے خلاف افادیت ایک تصور ہے’- کہ اس مورچے پر ابھی تک کوئی ڈیٹانہیں ہے اور کمپنی ’مستند کرنےوالا ڈیٹا ایک ہفتے میں’ پیش کرےگی۔
جہاں تک کو ویکسین کا سوال ہے جو ایک ویکسین کینڈیڈیٹ ہے، جس کے تحفظ اور افادیت کو لےکر خاطر خواہ اعدادوشمارموجود نہیں ہیں اس کے استعمال کے منصوبوں میں اس کے منفی اثرات سے نمٹنےکےمنصوبے بھی شامل ہونے چاہیے۔
سال2019 کے ضابطوں کے مطابق‘کلینکل ٹرائل کے دوران زخمی ہونے والے فردکو ٹیسٹ کے اسپانسر کی طرف سے جب تک ضروری ہو تب تک مفت میڈیکل دیکھ بھال اور مالی معاوضہ پانے کا حق ہے۔’
بھارت بایوٹیک 22500 کے قریب حصہ لینے والے لوگوں پر ہونے والے ‘کلوزڈ’ٹرائل کااسپانسر ہے، لیکن کھلے ٹرائلز کااسپانسرکون ہے، یہ واضح نہیں ہے۔ یہ دھیان رکھتے ہوئے کہ ڈی جی سی آئی، سی ڈی ایس سی او اور وزارت صحت نے ‘کلینکل ٹرائل مرحلہ’میں کو ویکسین کے استعمال کو ہری جھنڈی دکھائی ہے، جوابدہی ان پر ہی آئےگی۔
دوسری بات، ‘ایک کلینکل ٹرائل سے ‘اچھا’ ڈیٹا پانے کے لیے‘اچھے’ٹرائل ڈیزائن کی ضرورت ہوتی ہے۔ باقی چیزوں کے علاوہ اس کا مطلب ہے کہ دو گروپوں کنٹرول گروپ اور ویکسین گروپ میں لوگوں کی تعداد کا تعین پہلے سے ہی ہو جانا چاہیے۔ اس بنیاد پر کہ محقق کس نتیجے کی کھوج کر رہے ہیں، کن متعصب اورمتضاد عوامل سے انہیں بچنے کی ضرورت ہے اور نتائج کو اعدادوشمار کےطور پر کتنااہم ہونے کی ضرورت ہے۔
فی الحال جو حالت ہے، اس کے مطابق ڈی جی سی آئی اور وردھن نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وزارت صحت نوویل کورونا وائرس کے نئے زیادہ متعدی اسٹرین کی وجہ سے کو ویکسین کےایمرجنسی استعمال کو منظوری دے رہا ہے۔
لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم ہے کہ کیا کو ویکسین کے تیسرے مرحلےکے ٹرائل میں26000 سے زیادہ لوگوں کو شامل کرنے کی سچائی بھی اس منظوری کی کوئی بنیاد بنی ہے۔
اس کے علاوہ اس میں خاطر خواہ وقت اور مالیاتی اخراجات شامل ہے۔ جمیل بتاتے ہیں،‘کسی کلینکل ٹرائل کے سلسلے میں شامل کرنے اور چھانٹ دینے کے اپنے معیارہوتے ہیں۔ کیا ویکسین لگائے جانے والے ہر شخص کے لیے ان پرعمل کیا جائےگا؟’
وہ کو ویکسین کے تیسرے مرحلے کے کلینکل ٹرائل کے ساتھ جڑے چھانٹنے کے معیارات کی جانب دھیان دلاتے ہیں:اگر کوئی ان میں سے کسی معیار پر کھرا اترتا ہے، تو کیا اسے ٹرائل سے باہر کر دیا جائےگا؟ ‘مثال کے طورپر کہ کیا پہلے انفیکشن ہوا ہے یا نہیں، یہ جاننے کے لیے ویکسین دیے جانےوالے ہر امیدوارکا اینٹی باڈی اور آر ٹی پی سی آر ٹیسٹ کرایا جائےگا؟ کیا ٹرائل میں شامل ہر امیدوار کا ایچ آئی وی، ایچ بی وی اور ایچ سی وی ٹیسٹ کروایا جائےگا؟ کیا اس سے اخراجات میں اضافہ نہیں ہوگا اور کیا یہ زیادہ انتظامات کی مانگ نہیں کرےگا؟
متبادل کے طور پر کمپنی اور وزارت صحت کو مل کر کو ویکسین کے ‘کھلے’ٹرائل(‘اوپن’ ٹرائل)کو ایک نیا مطالعہ مان سکتے ہیں۔ اگر کو ویکسین کی منظوری کو نئے اسٹرین سے جوڑا جاتا ہے، تو ‘اوپن’ ٹرائل کا استعمال یہ جاننے کے لیے کیا جا سکتا ہے کہ کیایہ ویکسین کینڈیڈیٹ اصل میں اس نئے اسٹرین کے خلاف مؤثر ہے۔
ایلا نے پریس کانفرنس کے دوران یہ ضرور کہا کہ ‘اوپن لیبل’ٹرائل کے منصوبہ میں پلیسیبو والاحصہ شامل کرنے کامنصوبہ نہیں ہے، بلکہ اس کے تحت ‘ویکسین لگانے اور نگرانی کرنے’کامنصوبہ ہے۔
دوسری طرف ایسا مطالعہ مؤثر طریقے سے ایک یک جہتی کلینکل ٹرائل یا ایک مشاہداتی مطالعہ ہوگا۔ اور یہ دونوں ہی رینڈمائزڈکنٹرول ٹرائلز کے مقابلےمیں ویکسینوں کی سکیورٹی،افادیت اور امیونوجنسٹی کا اندازہ کرنے کے حساب سے کم مفید ہیں۔
اختیارات کے بغیر منتخب کرنے کا حق
حتمی تجزیےمیں،وزارت صحت نےآئین کے آرٹیکل 21 کے تحت فرد کے میڈیکل علاج پر رضامندی دینے کے ذاتی حق کی خلاف ورزی کی ہے۔سرکار نے اس سے پہلے کہا تھا کہ ٹیکہ کاری رضاکارانہ ہوگی۔ سرکاری حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ کو ویکسین لینا مرضی پر منحصر کرےگا اور ٹیکہ لینے والوں کو ٹیکہ لینے سے پہلے ایک قبولنامے پر دستخط کرنا ہوگا۔
لیکن نوویل کورونا وائرس نئی طرح یا بلکہ اورملک کے کئی حصوں میں کمتر ہیلتھ بنیادی ڈھانچہ ویکسین کو اختیاری نہیں رہنے دیتا،بالخصوص فرنٹ لائن پر مستعد لوگوں اور طبی اہلکاروں کے لیے اور بزرگوں اور دوہری صحت کے جوکھم والے لوگوں کے لیے۔
اس میں اس سچائی کو جوڑ دیجیے کہ کو ویکسین کو لےکرمعلومات/اعدادوشمار پررزاداری کا پردہ پڑا ہوا ہے، اور ہم ایک ایسی مشکل حالت میں ہیں، جس میں کم سے کم کچھ لوگوں کے پاس ویکسین کینڈیڈیٹ ہی لینے کے علاوہ شاید اور کوئی راستہ نہ ہو، بھلے ہی انہیں اپنی سلامتی کو لےکر کتنا ہی شبہ کیوں نہ ہو۔
جیسا کہ جمیل نے کہا، ‘عمل اور ضابطوں کو نظرانداز کرنا اور خراب/پیچیدہ ابلاغ ہندوستان میں ویکسین کو لےکر بڑھ رہی ہچکچاہٹ کو اور بڑھائےگا۔ ‘وکاس ‘کے ٹائم اسکیل کو جس جلدبازی میں ناپا گیا ہے، وہ پہلے ہی اس کا ثبوت دے رہا ہے۔’
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)