اس بیچ انہوں نے این آر سی کی مخالفت کرنے والوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ایسے لوگوں کو زمینی حقائق کی جانکاری نہیں ہے۔
نئی دہلی : چیف جسٹس (سی جے آئی) رنجن گگوئی نے آسام میں این آر سی کی موجودہ قواعد کا زورداربچاؤ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے ریاست میں غیر قانونی مہاجروں کی تعداد کو لےکراندازہ لگایا جاتا تھا جس سے ڈر، گھبراہٹ اورتشدد اور اناکزم کوطاقت ملتی تھی۔انہوں نے کہا کہ این آر سی مستقبل کے لئے ایک بنیادی دستاویز ہوگا۔ جسٹس گگوئی سپریم کورٹ کی اس بنچ کے صدر ہیں جو آسام میں این آرسی کے عمل کی نگرانی کر رہی ہے۔
اس بیچ انہوں نے این آر سی کی مخالفت کرنے والوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ایسے لوگوں کو زمینی حقائق کی جانکاری نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لوگ نہ صرف زمینی حقائق سے ناواقف ہیں، بلکہ خراب تصویر بھی پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے آسام اور اس کی ترقی کاایجنڈہ متاثر ہوا ہے۔آسام کے رہنے والے سی جے آئی نے کہا کہ این آر سی کا خیال کوئی نیا نہیں ہے، کیونکہ 1951 میں ہی اس کا ذکر کیا گیا تھا اور موجودہ قواعد 1951 کی این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے کی ایک کوشش ہے۔
CJI Ranjan Gogoi: Irresponsible reporting by a few media outlets only worsened the situation. There was an urgent need to ascertain with some degree of certainty the number of illegal migrants, which is what the current exercise of NRC had attempted, nothing more nothing less. https://t.co/FlMUdOyEu9 pic.twitter.com/eFuc3Swvb9
— ANI (@ANI) November 3, 2019
سینئر صحافی مرنال تعلق دار کی کتاب پوسٹ کولونیل آسام (1947-2019) کی رسم رونمائی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئےجسٹس گگوئی نے کہا،این آر سی تنازعات کے بغیر نہیں ہے۔ میں اس موقع پر واضح کر دوں۔ این آر سی کوئی نیا یا انوکھا خیال نہیں ہے۔اس کا ذکر 1951 میں اور خاص طورپر 1985 میں ہوا جب آسام سمجھوتہ پر دستخط کیا گیا۔ اصل میں، موجودہ این آر سی 1951 کی این آرسی کو اپ ڈیٹ کرنے کی ایک کوشش ہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ میڈیا اداروں کی لاپرواہی اور غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ نے صورت حال کو اور خراب کر دیا۔ گگوئی نے این آر سی کی تیاری کےلئے مختلف ڈیڈ لائنوں کو بڑے دل سےقبول کرنے پر آسام کے شہریوں کی تعریف کی۔
آسام میں اپ ڈیٹ کی گئی آخری این آر سی 31 اگست کو جاری کی گئی تھی جس میں 19 لاکھ سے زیادہ امید واروں کے ناموں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔سی جے آئی نے کہا،اس کو بتانے اور ریکارڈ میں لانے کی ضرورت ہے کہ جن لوگوں نے ان کٹ آف تاریخ سمیت اعتراضات کو اٹھایا ہے،وہ آگ سے کھیل رہے ہیں۔ اس فیصلہ کن لمحے میں ہمیں یہ دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے قومی مکالمہ میں زمینی حقائق سے غافل مبصرین (آرم چیئر کمینٹیٹر) کےارتقاکو دیکھا گیا ہے، جو نہ صرف زمینی حقائق سےدور ہیں، بلکہ بےحد خراب تصویر پیش کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے ارتقا اور ا س کے آلات نے اس طرح کےزمینی حقائق سے غافل مبصرین کے ارادے کو ہوا دی ہے،جو اپنی دوہری زبان کے ذریعے پھلتے-پھولتے ہیں۔جسٹس گگوئی نے کہا،وہ جمہوری کام اور جمہوری اداروں کے خلاف بے مقصد اور بدنیتی سے ترغیبی مہم چلاتے ہیں۔ ان کو چوٹپہنچانے اور ان کی مناسب کارروائی کو پلٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ مبصر اور ان کے گھناؤنے ارادے ان حالات میں اچھی طرح سے بچے رہتے ہیں جہاں حقیقت شہریوں سے کافی دور رہتی ہیں اور افواہ تنتر پھلتا-پھولتا ہے۔ آسام اور اس کی ترقی کا ایجنڈہ ایسے زمینی حقائق سےغافل مبصرین کا شکار رہا ہے۔
رنجن گگوئی نے کہا کہ لوگوں کو ہرجگہ غلطیاں اور کمیاں ڈھونڈنے کی خواہش اوراداروں کو نیچا دکھانےکی خواہش کو روکناچاہیے۔این آر سی قواعد کے بارے میں انہوں نے کہا،یہ چیزوں کو صحیح سیاق میں رکھنے کا ایک موقع ہے۔ این آر سی فی الحال کے لئےکوئی دستاویز نہیں ہے۔ 19 لاکھ یا 40 لاکھ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ مستقبل کے لئے ایک بنیادی دستاویز ہے۔ یہ ایسا دستاویز ہے جس کامستقبل میں دعووں کے لئے ذکر کیا جا سکتا ہے۔ یہ میری سمجھ میں این آر سی کی فطری قیمت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اداروں کے کام کی تشخیص بنیادی طور پر میڈیا اور خاص طورپر سوشل میڈیا کے ذریعے کی جاتی ہے۔چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس ہرش کیش رائے اور 1975-بیچ کے آئی پی ایس افسر اے بی ماتھر بھی تقریب میں موجود تھے۔جسٹس رائے نے کتاب لکھنے کے لئے تعلق دار کی تعریف کی اور کہا کہ آسام کے بارے میں کئی تاریخی پہلو اس کتاب میں سامنے آئے ہیں۔انہوں نے چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ اگر سی جے آئی کوئی کتاب لکھنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ بیسٹ سیلر ہوگی۔ پروگرام کوماتھر نے بھی خطاب کیا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)