کورٹ نے معاملے کی سماعت کے لئے پانچ ججوں کی بنچ بنانے کا اشارہ دیا ہے۔ درخواست گزاروں نے مانگ کیا کہ اس قانون کو نافذکرنے کی کارروائی کو ٹال دیا جائے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کو متنازعہ شہریت ترمیم قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرتے ہوئے دائر کی گئیں تقریباً140 عرضیوں پر جواب دینے کے لئے مرکزی حکومت کو چار ہفتے کا وقت دیا۔کورٹ نے معاملے کی سماعت کے لئے پانچ ججوں کی بنچ بنانے کا اشارہ دیا ہے۔ عبوری احکام کے لئے معاملے کو پانچ ہفتے کے بعد فہرست کیا جائےگا۔
حالانکہ کچھ درخواست گزاروں نے مانگ کی کہ اس قانون کو نافذ کرنے کی کارروائی کو ٹال دیا جائے، لیکن کورٹ نے اس بارے میں کوئی حکم منظور نہیں کیا۔لائیو لا کے مطابق، چیف جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس عبدالنذیر اور سنجیو کھنہ کی بنچ نے اس معاملے میں آسام اور تریپورہ کی خصوصی حالت کو لےکر ان کی عرضی کو الگ سے سننے پر اتفاق کیا۔
اٹارنی جنرل کےکے وینو گوپال نے یہ کہتے ہوئے کورٹ سے اور وقت مانگا کہ ان کو 80 اور عرضیوں پر جواب دینے ہوںگے۔ پچھلی بار18 دسمبر کو کورٹ نے نوٹس جاری کر مرکز سے 60 عرضی پر جواب مانگا تھا۔اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ نے اس معاملے میں کسی بھی ہائی کورٹ کے ذریعے سماعت کرنے پر بھی روک لگا دی ہے۔
معاملے کی سماعت کے دوران سینئر وکیل کے وی وشوناتھن نے کہا کہ اگر این پی آر کے دوران کسی بھی شخص کو مشکوک شہری یا ڈاؤٹ فل سٹیزن مانا جاتا ہے تو اس سے بڑا مسئلہ کھڑا ہو جائےگا۔انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے نہ صرف مسلم بلکہ ہندو بھی کافی متاثر ہوںگے۔ اس بنیاد پر کے وی وشوناتھن نے قانون پر روک لگانے کی مانگ کی۔ انہوں نے کہا کہ قانون کی عمل آوری کو ٹالنے کا مطلب قانون پر روک لگانا نہیں ہے۔
حالانکہ چیف جسٹس نے اس پر عدم اتفاق کااظہار کرتے ہوئے کہا، لیکن دونوں کا اثر ایک جیسا ہے، بھلےہی لفظ الگ الگ ہوں۔وہیں سینئر وکیل اے ایم سنگھوی نے کہا کہ اترپردیش حکومت نےبنا اصول بنے ہی شہریت ترمیم قانون کے تحت کارووائی شروع کر دی ہے۔انہوں نے کہا، بنا کوئی اصول بنے 40 لاکھ لوگوں کومشکوک کے زمرہ میں ڈالا گیا ہے۔ یہ اتر پردیش کے 19 ضلعوں میں ہواہے۔ ان کے ووٹ دینے کا حق ختم کر دیا جائےگا۔ برائے مہربانی اس عمل پر روک لگائیں۔
معلوم ہو کہ شہریت ترمیم قانون کےخلاف ملک بھر میں احتجاج اور مظاہرہ ہو رہے ہیں۔ حالانکہ اس بیچ وزارت داخلہ نے نوٹیفکیشن جاری کر اس متنازعہ قانون کو گزشتہ10 جنوری سے نافذ کر دیا۔اس قانون میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے ہندوستان آئے غیر-مسلموں یعنی کہ ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کےلوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
متعصب قانون ہونے کی وجہ سے اس کی تنقید کی جا رہی ہے اور اس کو ہندوستان کی مذہبی رواداری اورتانے-بانے کو بدلنے کی سمت میں ایک قدم کے طورپر دیکھا جا رہا ہے۔ ابھی تک کسی کو ان کے مذہب کی بنیاد پر ہندوستانی شہریت دینے سے منع نہیں کیا گیا تھا۔