متنازعہ پولیس افسر آئی جی کلوری کو گزشتہ دنون اکانومک آفینس ونگ(ای او ڈبلیو)اور اینٹی کرپشن بیورو(اے سی بی)کی ذمہ داری دینے پر بھوپیش بگھیل حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ 15 ایم پی نے کلوری کے خلاف جانچ کے لیے سی ایم کو خط لکھا تھا۔
نئی دہلی: چھتیس گڑھ کی بھوپیش بگھیل حکومت نے متنازعہ پولیس افسر ایس آر پی کلوری کا پھر تبادلہ کر دیا ہے۔ ان کو اکانومک آفینس ونگ(ای او ڈبلیو)اور اینٹی کرپشن بیورو(اے سی بی)سے ہٹاتے ہوئے ان ٹرانسپورٹ کمشنر بنایا گیا ہے۔ہندوستان ٹائمس کی خبر کے مطابق؛بدھ کی دیر رات جاری ایک حکم کے مطابق، آئی جی جی پی سنگھ کو اب ای او ڈبلیو اور اے سی بی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے،وہیں آئی جی کلوری کو ایڈیشنل ٹرانسپورٹ کمشنر بنایا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں جب آئی جی کلوری کو ای او ڈبلیو اور اے سی بی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی تب بھوپیش بگھیل حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ ا تھا۔ اس کے پہلے حکومت بننے کے بعد جنوری میں کانگریس نے ریاست کے پی ڈی ایس گھوٹالے کی جانچ کے لیے ایک ایس آئی ٹی کی تشکیل کی تھی،جس کا ذمہ ای او ڈبلیو کو دیا گیا تھا اور بعد میں کلوری کو اس محکمہ کا انچارج دیا گیا۔
واضح ہو کہ کلوری پر حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے کئی الزام لگ چکے ہیں،جس میں کانگریس ان کو حقوق انسانی کی خلاف ورزی اور زیادتیوں کا ملزم بتا چکی ہے۔ اکتوبر 2016 میں موجودہ وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل نے کلوری کو نہ صرف برخاست کرنے بلکہ ان کو گرفتار کرنے کی بھی مانگ کی تھی۔گزشتہ 12 فروری کو 15 ایم پی نئ ایس آر پی کلوری کے بستر ڈی جی پی کے بطور مدت کار کے دوران ان کی سرگرمیوں کی جانچ کے لیے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل کو خط لکھا تھا۔
اس خط میں ایم پی نے لکھا تھا کہ سلوا جڈوم مہم کے دوران آدیواسیوں کے خلاف ظلم و ستم میں اضافہ ہوا ، جہاں سکیورٹی فورسز اور نکسلیوں نے آدیواسیوں پر بے حساب ظلم کیےتھے۔ مختلف جماعتوں کے ایم پی نے خط میں یہ بھی کہا تھا کہ سماجی کارکنوں کے خلاف شکایتوں اور جھوٹے معامے درج کرنے کی بنیاد پر ایس آر پی کلوری کا تبادلہ تو کیا گیا لیکن ان کے ذریعے کیے گئے ظلم و ستم اور غیر قانونی کاموں کے لیے ان کو کبھی سزا نہیں دی گئی۔
انھوں نے آگے کہا تھا،’ ہم آپ سے گزشتہ 5 سالوں میں ان کی مدت کار کے دوران ان کی سرگرمیوں کی جانچ کرنے اور ان کے غلط کاموں کے لیے ان کو سزا دینے کی گزارش کرتے ہیں۔ ہم علاقہ میں امن اور وکاس لانے کے لیے آپ کو ملے مینڈیٹ کی روشنی میں یہ معاملہ آپ کے سامنے اٹھا رہے ہیں۔’