کینیڈا کے خالصتان حامی رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ہندوستان کے ملوث ہونے کے دعوے پر امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا نےتشویش کا اظہار کیا ہے۔ این آر آئیز کی ایک بڑی تعداد تینوں ممالک میں رہتی ہے اور تینوں ہی کینیڈا کے ساتھ ‘فائیو آئیز’انٹلی جنس الائنس میں شامل ہیں۔
کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو پارلیامنٹ میں۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس)
نئی دہلی: جہاں ہندوستان نے
کینیڈین شہری کے قتل میں ملوث ہونے کے کینیڈا کےالزامات کو ‘اسپانسرڈ اور متعصب’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے، وہیں امریکہ اور آسٹریلیا نے کہا ہے کہ انہیں ‘سخت تشویش’ ہے، جبکہ برطانیہ نے کہا ہے کہ ‘سنگین الزامات’ کے حوالے سےوہ اوٹاوا سے رابطے میں ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ان تینوں ممالک میں نہ صرف ہندوستانی تارکین وطن کی بڑی تعداد موجود ہے، بلکہ وہ کینیڈا کے ساتھ ‘فائیو آئیز’ خفیہ اتحاد کا حصہ بھی ہیں- حالانکہ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فائیو آئیز ممالک میں سے کچھ نے تحقیقات کے نتائج پر ایک مشترکہ بیان جاری کرنے کی کینیڈا کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔
امریکہ اور آسٹریلیا بھی کواڈ گروپ کےممالک میں ہندوستان کے شراکت دار ہیں جو چینی تسلط کا مقابلہ کرنے کے لیے کھڑا ہوا ہے۔
واضح ہو کہ کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے سوموار (18 ستمبر) کو کینیڈا کی پارلیامنٹ میں سنسنی خیز بیان دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے ملک کی سکیورٹی ایجنسیوں کے پاس ‘قابل اعتماد’ خفیہ جانکاری ہے کہ جون 2023 میں برٹش کولمبیا میں خالصتان کے حامی رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے پیچھےہندوستانی حکومت کا ہاتھ تھا۔ کینیڈا نے ایک سینئر ہندوستانی سفارت کار کو بھی ملک بدر کر دیا، جن کی پہچان ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) کے کینیڈین چیف کے طور پر کی گئی ہے۔ ہندوستان نے ان الزامات کو ’مضحکہ خیز اور اسپانسرڈ‘ قرار دیا ہے۔
تاہم، ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان اور کینیڈا دونوں کے قریبی اتحادیوں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، کسی بڑی رینک کے عہدیدار کی جانب سے عوامی سطح پر ردعمل کا اظہار کرنے والوں میں برطانیہ کے وزیر خارجہ جیمز کلیورلی کا نام ہے۔انہوں نے ٹوئٹ کیا،’تمام ممالک کو خودمختاری اور قانون کی حکمرانی کا احترام کرنا چاہیے۔ کینیڈین پارلیامنٹ میں لگائے گئےسنگین الزامات کے حوالے سے ہم اپنے کینیڈین اتحادیوں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ کینیڈاکی تحقیقات اپنا کام کرے اور قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔’
دوسری جانب آسٹریلیا میں وزیر خارجہ پینی وونگ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا اس الزام سے ‘شدید تشویش’ میں ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے ملک کے ایس بی ایس نیوز کو بتایا کہ تمام ممالک کو ‘خودمختاری اور قانون کی حکمرانی کا احترام کرنا چاہیے۔’
آسٹریلوی وزیر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم نے ‘اعلیٰ سطح’ پر ہندوستان سے اپنی ‘تشویش’ کا اظہار کیا ہے۔ بیان میں اس بات کا بھی نوٹس لیا گیا کہ اس کا اثر آسٹریلیا پر بھی پڑ سکتا ہے کیونکہ بڑی تعداد میں ہندوستانی تارکین وطن یہاں رہتے ہیں۔
اس حوالے سے میڈیا نے آسٹریلوی وزیراعظم انتھونی البانیس سے سوال بھی کیے جس کا انہوں نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔
امریکہ میں وہائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا اورشدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت پر زور دیا۔
واٹسن نے کہا،’ہمیں وزیر اعظم ٹروڈو کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر انتہائی تشویش ہے اور ہم اپنے کینیڈین اتحادیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ کینیڈاکی تحقیقات آگے بڑھے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔’
دریں اثنا، رائٹرز نے اطلاع دی ہے کہ برطانوی حکومت کے ترجمان نے بھی منگل (19 ستمبر) کو کہا کہ وہ مذکورہ ‘سنگین الزامات’ کے حوالے سے اپنے کینیڈین اتحادیوں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کینیڈا حکام کی جانب سے جاری تحقیقات کے دوران مزید تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
مشترکہ بیان کے لیے کینیڈا کی درخواست کو ٹھکرا دیا: ڈبلیو اے پی او
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق،کینیڈا نے فائیو آئیز اتحاد کے ارکان سے کہا تھا کہ وہ مشترکہ طور پر تحقیقات کے نتائج کا اعلان کریں لیکن امریکہ سمیت کچھ ارکان نے اسے ٹھکرا دیا کیونکہ بائیڈن ہندوستان کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے اور وہ چین کے خلاف اسٹریٹجک لڑائی کے لیے اہم ہے۔
اخبار نے ایک نامعلوم مغربی سفارت کار کے حوالے سے بتایا کہ کینیڈا فائیو آئیز انٹلی جنس شیئرنگ نیٹ ورک کے ارکان پر نجر کے قتل کو ہندوستان کے ساتھ’ حکومت کی اعلیٰ سطح پر اٹھانے اوراس عمل کی بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دے کر مذمت کرتے ہوئے ایک مشترکہ بیان جاری کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا تھا۔
اخبارکے ذرائع کے مطابق، تمام ارکان نے اس پر اتفاق نہیں کیا۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ جب ہندوستان نئی دہلی میں جی—20 کے عظیم الشان سربراہی اجلاس کی میزبانی کر رہا تھا تو انہیں ایسا قدم اٹھانا ٹھیک نہیں لگا۔ رپورٹ کے مطابق، اس کے بجائے سربراہی اجلاس سے چند ہفتے قبل فائیو آئیز ممالک کے کئی اعلیٰ حکام نے اس مبینہ قتل کے معاملے کونجی طور پر اٹھایا تھا۔