ٹرمپ کے جوہری تجربہ دوبارہ شروع کرنے کے اعلان سے ہتھیاروں کے حصول کے نئے دوڑ کا آغاز ہو سکتا ہے

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے 33 سال بعد جوہری تجربہ دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ قدم عالمی ایٹمی طاقتوں کے توازن کو نئی شکل دے سکتا ہے۔ ٹرمپ کے اس فیصلے سے ہندوستان میں جوہری تجربے پر بحث تیز ہونے کا امکان ہے۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے 33 سال بعد جوہری تجربہ دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ قدم عالمی ایٹمی طاقتوں کے توازن کو نئی شکل دے سکتا ہے۔ ٹرمپ کے اس فیصلے سے ہندوستان میں جوہری تجربے پر بحث تیز ہونے کا امکان ہے۔

سال 1952میں کیے گئے امریکی ایٹمی تجربے کی فائل فوٹو۔ (تصویر: وکی میڈیا)

نئی دہلی: امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جمعرات (30 اکتوبر) کو اعلان کیا کہ انہوں نے پینٹاگون (امریکی محکمہ دفاع) کو فوراً جوہری ہتھیاروں کے تجربات کو دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے دی ہے، امریکہ نے آخری بار33 سال قبل جوہری تجربہ کیا تھا اورمستقبل میں ایسے تمام تجربات پر پابندی عائد کرنےکا اعلان کیاتھا۔

ٹرمپ نے اس فیصلے کی وجہ’دوسرے ممالک کے جوہری تجربات کے پروگراموں’ کو بتایا ہے؛


امریکہ کے پاس کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں۔ یہ کامیابی میری پہلی مدت کارکے دوران  حاصل ہوئی تھی، جب موجودہ ہتھیاروں کو بخوبی اپڈیٹ کیا گیا تھااور اسے جدید بنایا گیا تھا۔ ان ہتھیاروں کی زبردست تباہ کن طاقت کو دیکھتے ہوئے، مجھے یہ کرنا پسند نہیں تھا، لیکن میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا! روس دوسرے نمبر پر ہے اور چین تیسرے نمبر پر بہت پیچھے، لیکن وہ اگلے پانچ سالوں میں برابری کر لے گا۔ دوسرے ممالک کے جوہری تجربات کے پروگراموں کی وجہ سے، میں نے محکمہ جنگ (ڈپارٹمنٹ آف وار)کو ہدایت کی ہے کہ وہ ہمارے جوہری ہتھیاروں کا تجربہ اسی سطح پر شروع کرے۔ یہ عمل فوراً شروع ہو جائے گا۔


چین اور روس کی جانب سے آخری جوہری تجربات بالترتیب جولائی 1996 میں تبت کے لوپ نور اور نوایا زیملیہ میں 1990 میں کیے گئے تھے۔ اس کے بعد سے، کسی بھی ملک نے کوئی نیاتجربہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی ایسا کرنے کی دھمکی دی ہے۔ لہذا، یہ واضح نہیں ہے کہ ٹرمپ نے ‘محکمہ جنگ ‘کو’برابری کی سطح’ پرجوہری ہتھیاروں کا تجربہ شروع کرنے کا جوحکم دیا ہے، اس  کا کیا مطلب ہے۔

درحقیقت، روس اور چین نے امریکہ کی طرح جامع نیوکلیئر ٹیسٹ بین ٹریٹی (سی ٹی بی ٹی)پر دستخط کیے ہیں، حالانکہ ان تینوں بڑی ایٹمی طاقتوں نے ابھی تک اس معاہدے کی توثیق نہیں کی ہے۔ ستمبر 1996 میں سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے کے بعد سے، اب تک صرف تین ممالک نے جوہری تجربات کیے ہیں- 1998 میں ہندوستان اور پاکستان، اور شمالی کوریا نے 2006 اور 2017 کے درمیان۔

امریکی میڈیا ٹرمپ کے فیصلے کو روس کی طرف سے اپنے جوہری ہتھیاروں کے لیے نئے ڈیلیوری سسٹم (یعنی ہتھیاروں کی لوڈنگ اور فائرنگ کےنظام)کے حالیہ تجربے سے جوڑ کر دیکھ رہا ہے، حالانکہ دونوں بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ خود امریکہ نےکبھی ان ڈیلیوری سسٹم پر کام کرنا بند نہیں کیا ہے۔

ٹرمپ نے اس فیصلے کا اعلان سیول میں چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ اپنی طے شدہ ملاقات سے چند گھنٹے قبل عوامی طور پر کیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر میٹنگ کا اعلان کرتے ہوئے لکھا، جی 2 (امریکہ اور چین)کی ملاقات کےبعدجلد ہی شروع ہونے والی ہے۔’

امریکی صدر کی جانب سے ‘جی 2’ کی اصطلاح کا استعمال اقتدار کی سیاست کے حوالے سے امریکہ کے نقطہ نظر میں ایک بنیادی تبدیلی کا اشارہ دیتا ہے، جو کہ چین کوروکنے کی بجائے اس کے ساتھ کام کرنے کی بات کرتا ہے۔ اس وژن کے تحت دو بڑی طاقتیں (امریکہ اور چین) عالمی مسائل سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں گی۔

‘جی2’ کا یہ تصور سب سے پہلے تقریباً 15 سال قبل ماہر اقتصادیات فریڈ برگسٹن، سابق امریکی قومی سلامتی کے مشیر زبیگنیف برژینسکی اور دیگر ماہرین نے تجویز کیا تھا۔ تاہم، اس خیال کو آگے بڑھا مشکل ثابت ہوا ہے اور یہ صرف تھوڑے وقت کے لیے ممکن ہوسکا ۔

سی ٹی بی ٹی ابھی تک نافذ نہیں ہوا ہے، اس لیے امریکہ کی جانب سے جوہری تجربہ دوبارہ شروع کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔ تاہم، اگر امریکہ اپنے جوہری تجربات پر عائدپابندی کو ختم کرتا ہے، تو یہ تقریباً یقینی ہے کہ روس اور چین بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کی جانچ دوبارہ شروع کر دیں گے تاکہ وہ موجودہ ہتھیاروں کے ‘اعتبار’ کو یقینی بناسکیں اور نئے ڈیزائن اور تصورات کی جانچ کی جا سکے۔

امریکہ نے آخری ٹیسٹ کے بعدسی ٹی بی ٹی کو آگے بڑھایا  تھا،کیونکہ اس وقت اسے روس اور چین پر دوہری برتری حاصل تھی – پہلا، اس کے پاس جوہری ذخیرہ بہت زیادہ تھا۔ دوسرا، اس میں کمپیوٹر سمیلیشن کی مدد سے نئے ہتھیاروں کو ڈیزائن اور ‘ٹیسٹ’ کرنے کی اعلیٰ تکنیکی صلاحیت تھی۔

جہاں تک روس اور چین کا تعلق ہے، اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ امریکہ نے سی ٹی بی ٹی سے نسبتاً زیادہ فائدہ اٹھایا ہے، تو امریکہ کی طرف سے کوئی بھی نیا جوہری تجربہ ان کے لیے اپنے تجربات کا ایک نیا سلسلہ شروع کرنے کا بہانہ بن سکتا ہے۔

ہندوستان اور ایٹمی تجربہ

نوےکی دہائی میں امریکہ نے، خاص طور پر کلنٹن انتظامیہ کے دوران، سی ٹی بی ٹی کو آگے بڑھانے کی کوشش اس لیے بھی کی تھی تاکہ ہندوستان اور پاکستان جیسے ممالک کو جوہری تجربات کرنے سے پہلے ہی روک دیا جائے ، یعنی ان کے لیے یہ راستہ بند کردیا جائے۔

اس کے جواب میں، ہندوستان نے مئی 1998 میں جوہری تجربات کی ایک سیریز کی اور پھر ٹیسٹنگ پر رضاکارانہ پابندی کا اعلان کیا۔ پاکستان نے جلد ہی اس کی پیروی کی۔ اس وقت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) نے دونوں ممالک کی مذمت کی تھی۔

امریکہ نے اسی سال ہندوستان پر کئی پابندیاں عائد کیں، لیکن بعد میں جارج ڈبلیو بش انتظامیہ کے دور میں ان میں نرمی کا عمل شروع ہوا۔ یہ عمل 2005 میں اختتام پذیر ہوا جب امریکہ نے ہندوستان کے ساتھ مکمل جوہری تعاون کا وعدہ کیا، بشرطیکہ ہندوستان اپنی ٹرائل اسٹاپ پالیسی کو برقرار رکھے، اپنے فوجی اور سویلین جوہری پروگراموں کو الگ کرے، اور سویلین پروگراموں کو بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی نگرانی میں رکھے۔

جب ہندوستانی مذاکرات کاروں نے 2005 کے جوہری معاہدے پر عملدرآمد کے بارے میں بات چیت شروع کی، تو انھوں نے پایا کہ امریکی فریق ہندوستان کے رضاکارانہ جوہری تجربات کی پابندی کو قانونی طور پر پابند بنانے کی کوشش کر رہا  تھا۔ ہندوستانی حکام نے اس کوشش کو ٹال دیا، لیکن امریکی کانگریس اور انتظامیہ نے 2007 کے ‘123 معاہدے’ میں ایک شق (آرٹیکل 14) شامل کرنے پر اصرار کیا (جو ہندوستان اور امریکہ کے درمیان جوہری تجارت کو کنٹرول کرتا ہے)۔ اس شق سے امریکہ کو یہ حق مل جاتا کہ وہ نہ صرف معاہدہ ختم کر سکتا ہے بلکہ اگر ہندوستان نے ایٹمی تجربہ کیا تو وہ ہندوستان کو فراہم کردہ آلات یا مواد کی واپسی کا بھی مطالبہ کر سکتا ہے۔

تاہم، ہندوستانی مذاکرات کار ان امریکی شرائط کو کمزور کرنے میں کامیاب ہو گئے، جنہیں اس وقت ڈیل بریکنگ سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے یہ شرط رکھی کہ کوئی بھی امریکی سازوسامان واپس کرنے سے پہلے، امریکہ کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہندوستانی نیوکلیئر ری ایکٹر بغیر کسی رکاوٹ کے کام کرتے رہیں، چاہے ہندوستان نے کوئی جوہری تجربہ کیا ہو۔

اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹرمپ کے جوہری تجربات کو دوبارہ شروع کرنے کےحالیہ اعلان کے تناظر میں ‘آرٹیکل 14.2’ ہندوستان کو یہ کہنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے ‘بدلتے ہوئے سکیورٹی حالات’ کی وجہ سے نیا جوہری تجربہ کرسکتا ہے۔

آرٹیکل میں لکھا ہے؛


[امریکہ اور ہندوستان] اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اگر حالات کسی بھی فریق کی طرف سے ‘بدلتے ہوئے سکیورٹی حالات’ کے بارے میں، یا دوسرے ممالک کی طرف سے اسی طرح کے اقدامات کے جواب میں جو قومی سلامتی کو متاثر کر سکتے ہیں، اس معاہدے کو ختم کرنے یا معطل کرنے پر غور کیا جائے گا۔


مزید برآں، ہندوستانی مذاکراتی ٹیم نے بالواسطہ طور پر ہندوستان کے اسٹریٹجک نیوکلیئر پروگرام کی حفاظت 123 معاہدے میں ایک اہم حفاظتی شق کو شامل کرکے کی۔ معاہدے کے آرٹیکل 2.4 میں واضح کیا گیا ہے کہ ‘اس معاہدے کا مقصد پرامن جوہری تعاون کو فروغ دینا ہے اور کسی بھی فریق کی غیر محفوظ (یعنی غیر نگرانی شدہ) جوہری سرگرمیوں کو متاثر نہیں کرنا ہے۔’

مذاکرات کے دوران، جوہری سائنسدانوں اور تزویراتی تجزیہ کاروں کا ایک گروپ (پی کے آئینگر کی قیادت میں) چاہتا تھا کہ ہندوستان نہ صرف مستقبل میں جوہری تجربے کا آپشن برقرار رکھے (جس کی 123 معاہدے نے واضح طور پر ضمانت دی ہے) بلکہ حقیقت میں ٹیسٹ بھی کرے، خاص طور پر تھرمونیوکلیئر بم کا۔ ان کادعویٰ تھا کہ مئی 1998 میں پوکھرن ٹیسٹ کے دوران بم نے توقع کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔

اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کی حکومت کے پرنسپل سائنسی مشیر آر چدمبرم نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کھلے عام کہا کہ پوکھرن-II سیریز کے کامیاب تجربات کے بعد ہندوستان کو مزید جوہری تجربات کی کوئی فوجی ضرورت نہیں ہے۔

تاہم، اب امریکہ کا یہ اعلان کہ وہ جوہری تجربہ دوبارہ شروع کرے گا، ہندوستان میں نئی ​​بحث کو جنم دے سکتا ہے اور ممکنہ طور پر ہندوستان کے لیے دوبارہ تجربہ شروع کرنے کا دروازہ کھل سکتا ہے۔ اس کے بعدپاکستان بھی ایسا ہی قدم اٹھا سکتا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔