ممدانی کی جیت نے جمہوریت میں دوستی اور رفاقت کے امکان کو بحال کیا ہے

امریکہ میں جس ایک پہچان کو مجرمانہ قرار دیاگیا ہے،  وہ ہے مسلمان پہچان۔ اسے مکمل طور پر قبول کرنا کسی بھی سیاستدان کے لیے آسان نہیں ہے۔ لیکن ظہران ممدانی نے یہ مشکل کام کر دکھایا ہے۔

امریکہ میں جس ایک پہچان کو مجرمانہ قرار دیاگیا ہے،  وہ ہے مسلمان پہچان۔ اسے مکمل طور پر قبول کرنا کسی بھی سیاستدان کے لیے آسان نہیں ہے۔ لیکن ظہران ممدانی نے یہ مشکل کام کر دکھایا ہے۔

ظہران ممدانی کو سنتے ہوئے محسوس ہوا کہ یہ جمہوریت میں زبان کی واپسی بھی ہے۔ ممدانی کی تقریر زبان کی شعریت اور اپنی قوت کے لیے بھی یاد رکھی جائے گی۔ (تصویر: اے پی/پی ٹی آئی)

ظہران ممدانی کی فتح کی تقریب کی تصویروں اور آوازوں نے سب کے دل موہ لیا ہے۔ ایک طرف ہندوستانی ساڑھی میں پنجابی ہندو ماں، دوسری طرف کوٹ اور پینٹ میں گجراتی، یوگانڈوی، امریکی مسلمان باپ، ساتھ میں ایک شامی -عرب بیوی اور ہندی  میں بمبیا فلمی گانا ‘دھوم مچا دے’! یہ سب ایک خواب جیسا ہے۔ اس منظر کے تنوع نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے۔ لیکن یہ منظر ان الفاظ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا جو ممدانی نے اسٹیج پر آنے سے پہلے کہے۔

تنوع اپنے آپ میں کافی نہیں ہے اگر یہ مساوات کے اصول پر مبنی نہ ہو۔ کہنے کو ریپبلکن پارٹی میں بھی تنوع ہے: نائب صدر کی اہلیہ ہندو، ہندوستانی نژاد ہیں۔ بہت سے اہلکار اور وزراء غیر امریکی اور غیر مسیحی ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنے لیڈر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرح ہی ،مساوات کے اصول پر یقین نہیں رکھتا۔

نیو یارک کے میئر کے انتخاب میں ظہران ممدانی کی جیت بظاہر ناممکن نظر آنے والے لاکھوں لوگوں کے یقین کا نتیجہ ہے۔ جیت کے بعد کی اپنی تقریر میں بھی ممدانی نے یہی کہا۔

ابھی-ابھی 34 کے ہوئےممدانی نے خود کہا کہ بہت سی چیزیں ان کے خلاف تھیں: مثلاً ان کے بہت چاہنے کے باوجود کہ وہ بزرگ ہو جائیں، وہ جوان ہی بنے رہے، وہ مسلمان ہیں، اور یہ کہ وہ ایک جمہوری سوشلسٹ ہیں۔ اور سب سے بری بات یہ کہ وہ ان میں سے کسی بھی چیز کے لیے معافی مانگنے کو تیار نہیں ۔

ایک اور بات تھی جو ممدانی کے خلاف تھی۔ انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ بنجمن نیتن یاہو کو نیویارک آنے پر گرفتار کر لیا جائے گا۔ ممدانی نے نیتن یاہو کو جنگی مجرم کہنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ وہ اسرائیل کو صرف یہودیوں کا ملک تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے۔ بار بار اشتعال انگیزی کے باوجود وہ اپنے اس موقف پر ڈٹے رہے کہ اسرائیل کو ایک خودمختار ملک کے طور پر وجود میں آنے کا حق ہے، لیکن اسے ایک ایسا ملک ہونا چاہیے جہاں سب کو برابر کے حقوق حاصل ہوں۔

اسرائیل کے باہر یہودیوں کی سب سے بڑی آبادی والے شہر نیو یارک میں یہ کہہ پانے کے لیےمساوات کے اصول پر کامل یقین کی ضرورت تھی۔ اور مسئلہ صرف اس بات پر اپنے عقیدے کا نہیں تھا۔ ممدانی کو امریکہ اور نیویارک کے یہودیوں پر بھروسہ تھا کہ وہ بنیادی طور پر اچھے ہیں اور انسانیت پر یقین رکھتے ہیں۔ اور آخر انسانیت کیا ہے اگر وہ مساوات اور انصاف کے اصولوں پر کاربند نہ ہو؟

جیت کے بعد ظہران ممدانی کی فیملی کے ساتھ تصویر نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے۔ (تصویر: اے پی/پی ٹی آئی)

یہودیوں نے ممدانی کو مایوس نہیں کیا۔ انہوں نے یہودیوں کی برتری کے نظریے کو مسترد کر دیا اور کہا کہ وہ بالکل دوسرے نیویارک کے باشندوں کی طرح ہیں: ان کی ضروریات، وقار، انصاف اور مساوات کے لیے ان کی توقعات باقی شہر والوں سے الگ نہیں  ہیں۔ یہودیوں کو سب سے خاص لوگوں کی طرح دیکھنے کی ضرورت نہیں ۔

یہ سچ ہے کہ لاکھوں ووٹروں نے ان باتوں پر یقین کیا۔ لیکن اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ممدانی خود ان پر یقین کرتے تھے۔ اس لیے، جب بھی ان سے ان کی شناخت کے بارے میں پوچھا گیا، انہوں نے یہ کہہ کر بچنے کی کوشش نہیں کی کہ وہ پہلے امریکی ہیں، بعد میں کچھ اور۔ یہ بھی ان کی ہمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔  جہاں جو بات سب سے زیادہ نقصان کر سکتی ہے، اس پر قائم رہنے میں ہی کردار کا اصل امتحان ہوتا ہے۔


ایک شناخت جسے امریکہ میں مجرم قرار دیا گیا ہے وہ ہے مسلم شناخت۔ اسے مکمل طور پر اپنانا کسی بھی سیاستدان کے لیے آسان نہیں ہے۔ لیکن ممدانی نے اس مشکل کام کو کر دکھایا۔


امریکہ میں خود کو ڈیموکریٹک سوشلسٹ کہنا بھی خطرے سے خالی نہیں، حالانکہ امریکہ میں اس نظریے کی ایک طویل روایت ہے۔ جس طرح ہندوستان میں راہل گاندھی کو ماؤ نواز یا اربن نکسل کہا گیا، اسی طرح ممدانی کو کمیونسٹ کہہ کر ووٹروں کو ڈرانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ممدانی نے جمہوری سوشلزم کی بات کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئےانہوں نے مارٹن لوتھر کنگ کا حوالہ دیا؛’چاہے آپ اسے جمہوریت کہیں یا سوشلسٹ جمہوریت، اس ملک میں خدا کے تمام بچوں کے لیے دولت کی منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے۔’

ممدانی کی انتخابی مہم اس نعرے پر مبنی تھی کہ نیویارک میں رہنا سب کے لیے آسان ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ممدانی نے مکان کے کرایہ میں اضافے پر روک، مفت بس سروس، اور مزدوروں کے لیے تنخواہ میں اضافے کا وعدہ کیا۔ پیسہ کہاں سے آئے گا؟ ممدانی نے سرمایہ داروں پر زیادہ ٹیکس لگانے کی بات کہی۔ امریکہ میں اس سے بڑی دہشت گردی اور کیا ہو سکتی ہے۔

ارب پتیوں نے ممدانی کو روکنے کے لیے لاکھوں ڈالر جھونک دیے۔ لیکن عوام کی طاقت اس دولت کی طاقت کے خلاف کھڑی تھی۔ اور دولت ہار گئی۔

یہ سچ ہے کہ ممدانی اپنے اصولوں اور عوام کی اندرونی اچھائی پر یقین رکھتے تھے، لیکن یہ کافی نہیں تھا۔ اس نیکی کو متحرک کیے بغیر یہ کارآمد نہیں ہو سکتا۔ ممدانی نے اپنی انتخابی مہم کو انتہائی مستعدی سے منظم کیا۔ آہستہ آہستہ، لوگ تقریباً 30 کارکنوں پر مشتمل اس کی ٹیم میں شامل ہوتے  گئے، اور یہ تعداد 100,000 تک پہنچ گئی۔ گھر گھر مہم چلانے سے لے کر کمیونٹی سینٹرز، پبوں، مسجد، مندر اور یہودی عبادت گاہوں تک لوگوں سے بات چیت تک، اس مہم کو منظم کیا گیا۔ اور اس طرح 1فیصد کی حمایت کو ممدانی کی اس ٹیم نے 50فیصد تک پہنچا دیا۔

یہ مہم خشک سیاسی فرض کے احساس کی وجہ سے محدود نہیں تھی۔ اس میں ایک طرح کی خوشی تھی۔ انتخابی مہم آپس میں ملنے جلنے اور دوستی کرنے کا موقع بن گئی۔ ممدانی نے سوشل میڈیا کا بہت بھرپور استعمال کیا اور انتہائی تخلیقی انداز میں کیا، لیکن وہ ہمیشہ لوگوں کے درمیان نظر آئے۔ ٹیکسی ڈرائیوروں، کارکنوں اور راہگیروں سے ہاتھ ملاتے اور گپ شپ کرتے ہوئے، ممدانی نے انتخابی مہم کو تناؤ سے پاک، دوستانہ مہم میں بدل دیا۔

شہر میں رہنا صرف کام کا تجربہ نہیں ہونا چاہیے۔ وہاں رہنا خوشی کا باعث ہونا چاہیے۔ یہ تھا ممدانی کی انتخابی مہم کا منتر۔ انہوں نے ایک خاتون سے ملاقات کا ذکر کیا جس نے کہا کہ میں اس شہر سے محبت کرتی تھی، اب میں یہاں رہتی ہوں۔ ممدانی کی فتح  گویا شہر کو اس انسانی تجربے کے طور پر دوبارہ حاصل کرنے کے لیے بہت ضروری تھی۔


ٹرمپ کی دھمکیوں اور ممدانی کے خلاف ان کی مسلم اور سوشلسٹ شناخت کی وجہ سے نفرت انگیز مہم کے درمیان، ممدانی کی مسکراہٹ، ہنسی اور مذاق کی تصویر نے ایک ایسے شخص کو ظاہر کیا جو مکمل طور پر خود پر یقین رکھتا تھا۔ ایس آدمی کی سطح پر ہر کوئی چلنا چاہے گا۔

ممدانی نے مزاح سے اپنے مخالفین کی تلخیوں کا مقابلہ کیا۔ ان کی خوش مزاجی متعدی تھی، اور اس نے اپنے مخالفین کو بھی غیر مسلح کر دیا۔


میں ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا۔ یہ جولائی کا ویڈیو ہے۔ ہر امیدوار سے پوچھا گیا کہ اگر وہ جیت گئے تو کیا وہ اسرائیل کا دورہ کریں گے۔ سب نے کہا کہ وہ کریں گے، لیکن ممدانی نے کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی۔ انہوں نے کہا،’میں یہ پہلے کہہ چکا ہوں کہ نیو یارک کے یہودیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے اسرائیل جانا ضروری نہیں ہے۔ میرا ماننا ہے کہ نیو یارک کے یہودیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا مطلب ہے کہ آپ ان سے وہیں ملیں  جہاں وہ ہوں- چاہے وہ ان کے کنیسہ اور مندر ہوں، ان کے گھر ہوں ،میٹرو پلیٹ فارم پر ہوں، یا پارک میں- جہاں بھی وہ ہوں۔’

اس طرح وہ 75 سالہ روایت کو توڑ رہے تھے۔ نیویارک کے یہودیوں کا اعتماد جیتنے کے لیے ہر میئر نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ ممدانی نے یہاں بھی مضبوطی دکھائی۔ ایسا کرکے وہ یہودیوں کا بھی احترام کر رہے تھے۔ یہودی کا گھر اسرائیل نہیں، وہ جہاں ہیں،  وہی ہے۔ ہر یہودی اسرائیل کی بربریت کی حمایت نہیں کرتا۔

ممدانی کی جیت نے جمہوریت میں دوستی کے امکان  کوبحال کیا ہے۔ مضبوطی اور نرمی متضاد نہیں ہیں۔ ممدانی کی بات سن کر یہ بھی محسوس ہوا کہ زبان جمہوریت کی طرف لوٹ آئی ہے۔ ممدانی کی تقریر ان کی زبان کی شاعرانہ طاقت اور قوت کے لیے یاد رکھی جائے گی۔ 32 سال پہلے نیویارک کے گورنر ماریو کوومو کا حوالہ دیتے ہوئے ممدانی نے کہا، ‘آپ انتخابی مہم توشاعری میں چلاتے ہیں، لیکن حکومت نثر میں۔’ ممدانی نے مزید کہا، ‘ہم شاعری کو نثر میں زندہ رکھنے کی کوشش کریں گے۔ آمین!

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)