کلکتہ ہائی کورٹ نےایک 19سالہ لڑکی کے والد کی عرضی پر شنوائی کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔ پولیس کے مطابق، لڑکی نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرکے شادی کی تھی اوروہ اپنے والد کے گھر نہیں لوٹنا چاہتی۔
نئی دہلی: کلکتہ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ اگر کوئی بالغ خاتون اپنی مرضی سے شادی اورمذہب تبدیل کرتی ہے تو عدالتیں اس میں دخل اندازی نہیں کر سکتیں۔بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق،جسٹس سنجیو بنرجی اور جسٹس ارجیت بنرجی کی بنچ نے 19 سالہ لڑکی کے والد کی عرضی پرشنوائی کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔
لڑکی نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرکے شادی کی تھی۔ پولیس کے بیان کے مطابق لڑکی نے اپنی مرضی سے ایسا کیا ہے اور وہ اپنے والد کے گھر لوٹنا نہیں چاہتی ہیں۔وہیں،والد کا الزام ہے کہ اس کی بیٹی پر دباؤ ڈال کر پولیس بیان درج کروایا گیا۔ اس لیےلڑکی نے مجسٹریٹ کے سامنےدوسرا بیان دیتے ہوئے کہا کہ مذہب تبدیل کرنے کے لیے اس پر کسی طرح کا دباؤ نہیں تھا اور نہ ہی اس نے جھوٹا بیان دیا ہے۔
عدالت نے واضح طور پر کہا کہ اس میں دخل اندازی نہیں کی جا سکتی۔ہائی کورٹ نے کہا، ‘اگر کسی بالغ خاتون نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ اپنے والد کے گھر نہیں لوٹنا چاہتی تو اس معاملے میں دخل نہیں دیا جا سکتا۔’
بتا دیں کہ اتر پردیش سمیت کچھ ریاستوں نے حال ہی میں مبینہ لو جہاد سے نپٹنے کے لیےتبدیلی مذہب سے متعلق قانون نافذکیا ہے۔لو جہاد ہندووادی تنظیموں کے ذریعے استعمال میں لائی جانے والی اصطلاح ہے، جس میں مبینہ طور پر ہندو خواتین کو زبردستی یا بہلا پھسلاکر ان کا مذہب بدلواکر مسلمانوں سے اس کی شادی کرائی جاتی ہے۔
بتا دیں کہ گزشتہ 24 نومبر کو اتر پردیش سرکار ‘لو جہاد’ کو روکنے کے لیے شادی کے لیےتبدیلی مذہب پر لگام لگانے کے لیے‘قانون’لے آئی تھی۔اس میں شادی کے لیے فریب، لالچ دینے یا جبراً تبدیلی مذہب کرائے جانے پر مختلف اہتماموں کے تحت زیادہ سے زیادہ 10سال کی سزا اور 50 ہزار تک جرما نے کا اہتمام ہےجبکہ ہماچل پردیش میں اس کے لیے سات سال تک کی سخت سزا کا اہتمام ہے۔