’ون نیشن، ون الیکشن‘ کی تجویز میں لوک سبھا، ریاستی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ بلدیاتی اداروں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی سفارش کی گئی ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ ناقابل عمل اور جمہوریت کے خلاف ہے۔
نئی دہلی: مرکزی کابینہ نے بدھ (18 ستمبر) کو ‘ون نیشن ، ون الیکشن ‘ پر تشکیل دی گئی اعلیٰ سطحی کمیٹی کی سفارشات کو قبول کر لیا ہے۔ یہ اعلیٰ سطحی کمیٹی ستمبر 2023 میں سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت میں مرکزی حکومت نے تشکیل دی تھی، جس نے اس سال مارچ میں صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کو اپنی رپورٹ سونپی تھی۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق ، وزیر داخلہ امت شاہ نے دو دن پہلے ہی اس بات کا اشارہ دے دیا تھا، جب انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ حکومت اس ٹرم میں ‘ون نیشن، ون الیکشن’ نافذ کرے گی۔
بدھ کو وزیر اطلاعات و نشریات اشونی ویشنو نے میڈیا کو بتایا کہ ‘ون نیشن ، ون الیکشن’ کے لیے جو اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی گئی تھی،اس کی سفارشات کو مرکزی کابینہ نے قبول کر لیا ہے۔ 1951 سے 1967 تک ایک ساتھ انتخابات ہوتے تھے۔ بعد ازاں 1999 میں لاء کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی تھی کہ ملک میں ایک ساتھ انتخابات ہونا چاہیے، تاکہ ملک میں ترقیاتی کام جاری رہے۔
انہوں نے مزید کہا ، ‘انتخابات کی وجہ یہ ہے کہ بہت زیادہ اخراجات ہوتے ہیں، امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے، وہ نہ ہو۔ ایک طرح سے آج کا جو نوجوان ہے ، وہ چاہتا ہے کہ ترقیاتی کام تیزی سے ہو اور انتخابی عمل اس میں رکاوٹ نہ بنے۔ وقتاً فوقتاً ملک میں بیک وقت انتخابات کرانے کی تجاویز دی جاتی رہی ہیں۔ اس لیے سابق صدر رام ناتھ کووند کی صدارت میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ اس کمیٹی نے تمام سیاسی جماعتوں، ججوں اور مختلف شعبوں کے ماہرین کی بڑی تعداد سے مشاورت کے بعد یہ رپورٹ تیار کی ہے۔
معلوم ہو کہ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے، ون نیشن ، ون الیکشن قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) حکومت کا ایک بڑا وعدہ رہا ہے۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی کئی مواقع پر اس کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ یہ بات بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی منشور میں بھی شامل تھی۔
’ون نیشن، ون الیکشن‘ کی تجویز میں لوک سبھا، ریاستی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ بلدیاتی اداروں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی سفارش کی گئی ہے۔
اپوزیشن نے تنقید کی
اس حوالے سے کئی سیاسی جماعتوں کے ردعمل بھی سامنے آئے ہیں۔ کانگریس سے لے کر اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے اس کی مخالفت کی ہے۔
کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے ‘ون نیشن ، ون الیکشن’ تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ناقابل عمل قرار دیا۔ انہوں نےاسے پریشان کن مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے عوام بھی اسے قبول نہیں کریں گے۔
One Nation, One Election केवल ध्यान भटकाने का भाजपाई मुद्दा है।
ये संविधान के ख़िलाफ़ है,
ये लोकतंत्र के प्रतिकूल है,
ये Federalism के विरूद्ध है।देश इसे कभी स्वीकार नहीं करेगा। pic.twitter.com/rFMFInrnNA
— Mallikarjun Kharge (@kharge) September 18, 2024
وہیں ، اویسی نے کہا کہ انہوں نے ون نیشن ون الیکشن کی مسلسل مخالفت کی ہے، کیونکہ یہ ملک کی وفاقیت ختم کرتا ہے اور جمہوریت کے ساتھ سمجھوتہ کرتا ہے، جو آئین کے بنیادی ڈھانچے کا ایک اہم حصہ ہے۔
I have consistently opposed #OneNationOneElections because it is a solution in search of a problem. It destroys federalism and compromises democracy, which are part of the basic structure of the constitution.
Multiple elections aren’t a problem for anyone except Modi & Shah.…
— Asaduddin Owaisi (@asadowaisi) September 18, 2024
انہوں نے کہا کہ ایک سے زیادہ انتخابات مودی اور شاہ کے علاوہ کسی کے لیے پریسانی کا سبب نہیں ہیں کیونکہ انہیں میونسپل اور بلدیاتی انتخابات میں بھی مہم چلانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں بیک وقت انتخابات کی ضرورت ہے۔ بار بار اور متواتر انتخابات سے جمہوری جوابدہی میں بہتری آتی ہے۔
قبل ازیں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے جنرل سکریٹری ڈی راجہ نے کہا تھا کہ ان کی پارٹی ون نیشن، ون الیکشن کی تجویز کی حمایت نہیں کرتی ہے۔ ہندوستان ایک متنوع ملک ہے اور پارلیامنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات باقاعدگی سے ہوتے رہتے ہیں۔ آئین لوک سبھا، ریاستی اسمبلی، منتخب وزرائے اعلیٰ اور ریاستوں میں حکومتوں کے اختیارات کو واضح کرتا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘میں ون نیشن ، ون الیکشن کی کمیٹی کی سربراہی کر رہے سابق صدر سے ملا تھا۔ مرکزی حکومت ریاستی حکومتوں سے تمام اختیارات نہیں چھین سکتی۔ اس مسئلے پر دستور ساز اسمبلی میں بحث ہوئی تھی اور چیزیں بالکل واضح ہیں۔ الیکشن کمیشن ایک مستقل کمیشن ہے، جو اپنے تمام اختیارات آئین سے حاصل کرتا ہے۔ کمیشن کو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کا مینڈیٹ ملا ہے۔‘
راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے راجیہ سبھا ایم پی منوج جھا نے کہا، ‘اسے اس طرح پیش کیا جا رہا ہے جیسے کوئی بڑا فیصلہ لیا گیا ہو۔ کابینہ مودی جی کی ہے، اس لیے وہ جو چاہیں گے وہی ہوگا۔ ہماری پارٹی کے کچھ بنیادی سوال ہیں۔ یہ نظام 1962 تک موجود تھا جو اس لیے ختم ہوا کہ ایک پارٹی کے غلبے کو چیلنج کیا جا رہا تھا، اقلیتی حکومتیں بن رہی تھیں، وسط مدتی انتخابات ہو رہے تھے۔ اس بار اس کے لیے کیا انتظامات کیے جائیں گے؟‘
VIDEO | “It is being claimed that the Union Cabinet has approved the proposal for ‘one nation, one election’ as recommended by the Kovind committee. We have some basic questions. There was ‘one nation, one election’ in India till 1962, but this ended because the dominance of a… pic.twitter.com/uqWvsoPUnx
— Press Trust of India (@PTI_News) September 18, 2024
عام آدمی پارٹی کے راجیہ سبھا ایم پی سندیپ پاٹھک نے بھی اس معاملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا، ‘ہمیں لگتا ہے کہ یہ بی جے پی کا نیا جملہ ہے۔ کچھ دن پہلے 4 ریاستوں کے انتخابات کا اعلان ہونا تھا، لیکن انہوں نے (بی جے پی) نے مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کو چھوڑ کر صرف ہریانہ اور جموں و کشمیر کے لیے انتخابات کا اعلان کیا۔ اگر 4 ریاستوں میں ایک ساتھ انتخابات نہیں کرا سکتے تو پورے ملک میں کیسے کرائیں گے۔ اگر کوئی ریاستی حکومت اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے گر جائے تو کیا ہوگا؟‘
VIDEO | Here’s what AAP MP Sandeep Pathak (@SandeepPathak04) said on the Union Cabinet approving ‘one nation, one election’ proposal.
“They were incapable of holding simultaneous polls in four states, and managed to hold elections in Haryana and Jammu & Kashmir. My submission… pic.twitter.com/JRsZy2XyE9
— Press Trust of India (@PTI_News) September 18, 2024
قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل لاء کمیشن نے سابق صدر رام ناتھ کووند کی سربراہی والی کمیٹی سے کہا تھا، جو ملک میں ایک ساتھ انتخابات کے انعقاد کے امکان پر غور کر رہی تھی، کہ یہ 2029 کے لوک سبھا انتخابات تک ہی ممکن ہو سکے گا کیونکہ ریاستی اسمبلیوں کی مدت کو بڑھا یا گھٹا کرتمام انتخابات ایک ساتھ کرانے کے لیے فارمولہ تیار کرنا ہے۔
کووند کمیشن کی تشکیل کرتے ہوئے 2 ستمبر 2023 کو جاری کردہ ایک سرکاری نوٹیفکیشن میں حکومت نے کہا تھا کہ اب تک بار بار انتخابات کے انعقاد کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر اخراجات، انتخابی کاموں کے لیے سرکاری مشینری کا استعمال اور ماڈل ضابطہ اخلاق کی وجہ سے ترقیاتی سرگرمیوں میں خلل پڑا ہے۔ اس لیے اگر انتخابات ایک ساتھ ہوں تو ان تینوں سے نمٹا جا سکتا ہے۔
تاہم، حکومت کو ون نیشن ، ون الیکشن کی تجویز پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سابق الیکشن کمشنر اشوک لواسا نے میل کے مضمون میں کہا تھا کہ اس سے اوربھی زیادہ بامعنی اور ٹھوس انتخابی اصلاحات ہیں جن پر پارلیامنٹ کی فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
لواسا نے کہا تھا کہ حکومت کی طرف سے ‘ون نیشن،ون الیکشن’ کے حق میں دی گئی وجوہات ‘معصوم اندازوں’ سے زیادہ کچھ نہیں ہیں جو ‘اہم اثر رکھنے والے فیصلے لینے کے لیے مناسب بنیاد نہیں بنا سکتے۔’