ملک کی سب سے بڑی سرکاری ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی بی ایس این ایل نے حکومت سے کہا کہ کمپنی نقدی کے بحران سے جوجھ رہی ہے اور کام کاج جاری رکھنے کے لئے اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔
نئی دہلی: ملک کی سب سے بڑی سرکاری ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی بی ایس این ایل نے حکومت سے کہا کہ کمپنی نقدی کے بحران سے جوجھ رہی ہے اور اس کے پاس کام کاج جاری رکھنے کے پیسے نہیں ہیں۔اکانومک ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق، بی ایس این ایل کے ملازمین نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھکر کمپنی کو اس بحران سے نکالنے کے لئے قدم اٹھانے کی درخواست کی ہے۔
بی ایس این ایل نے حکومت کو ایک ایس او ایس بھیجا ہے، جس میں کمپنی نے کام جاری رکھنے میں تقریباً نااہلی کا اظہار کیا ہے۔ کمپنی نے کہا ہے کہ نقدی کی کمی کی وجہ سے ملازمین کو جون مہینے کی تقریباً 850 کروڑ روپے کی تنخواہ دے پانا مشکل ہے۔کمپنی پر ابھی تقریباً 13000 کروڑ روپے کی آؤٹ اسٹینڈنگ لائبلیٹی ہے، جس کی وجہ سے بی ایس این ایل کا کاروبار برے حالات میں چلا گیا ہے۔
بی ایس این ایل کے کارپوریٹ بجٹ اینڈ بینکنگ ڈویژن کے سینئر جنرل مینجر پورن چندر نے ڈپارٹمنٹ آف ٹیلی کمیونیکیشن کے جوائنٹ سکریٹری کو لکھے ایک خط میں کہا، ‘ ہر مہینے کی کمائی اور خرچوں میں گیپ کی وجہ سے اب کمپنی کا کام کاج جاری رکھنا تشویش کا موضوع بن گیا ہے کیونکہ اب یہ ایک ایسی سطح پر پہنچ چکا ہے، جہاں بنا کسی مناسب اکویٹی کو شامل کئے بی ایس این ایل کے کام کاج کو جاری رکھنا تقریباً ناممکن ہوگا۔ ‘
پچھلے ہفتے بھی بی ایس این ایل نے حکومت سے کمپنی کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے اگلی کارروائی سے متعلق صلاح مانگنے کے لئے ایک خط لکھا تھا۔کوٹک انسٹی ٹیوشنل اکویٹیج کی رپورٹ کے مطابق، بی ایس این ایل کو دسمبر، 2018 کے آخر تک 90000 کروڑ روپے سے زیادہ کا آپریٹنگ نقصان جھیلنا پڑا تھا۔واضح ہو کہ اس سے پہلے اتوار کو بی ایس این ایل کے انجینئروں اور اکاؤنٹ پیشہ وروں کے ایک یونین نے وزیر اعظم مودی سے کمپنی کے احیا کے لئے مداخلت کرنے کی گزارش کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ کمپنی پر کوئی قرض نہیں ہے اور اس کی بازار حصےداری میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں کمپنی کو پھر سے کھڑا کیا جانا چاہیے۔ کمپنی میں ان ملازمین کی جوابدہی طے کی جانی چاہیے جو اپنا کام صحیح سے نہیں کر رہے ہیں۔غور طلب ہے کہ 1.7 لاکھ ملازمین والی بی ایس این ایل سب سے زیادہ نقصان سہنے والی ٹاپ سرکاری کمپنی (پی ایس یو)ہے۔