بی جے پی نے اب اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ملک سال بھر انتخابی بخار میں مبتلارہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہر دوسرے دن ہیجانی مسائل پیدا کیے جاتے ہیں، اور ایک بحث لوگوں پر زبردستی مسلط کی جاتی ہے۔ یہ حجاب پہننے کا مسئلہ ہو سکتا ہے، مسلمان تاجروں کا ہندو عبادت گاہوں کے قریب دکانیں کھولنا یا پھر 1990 میں کشمیری ہندوؤں کے اخراج پر بننے والی فلم کے اوپر گفتگو۔
ہندوستان میں 2014 کے عام انتخابات کی کوریج کے دوران صوبہ بہار کے سمستی پور قصبہ کے ایک سینما ہال کے منیجر کے دفتر میں موجود چند افراد سے جب میں انتخابی رجحان کو جاننے کی کوشش کر رہا تھا، تو ایک مقامی سیاسی کارکن نے لقمہ دےکر کہا کہ یہ انتخاب دراصل ٹکنالوجی اور انسانی احساسات کے درمیان ایک جنگ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر نریندر مودی یہ انتخابات واضح اکثریت سے جیتتے ہیں، تو ہندوستان کیا پوری دنیا میں انتخابات لڑنے کی نوعیت ہی بدل جائےگی۔ ان انتخابات میں جس طرح دنیا کی تاریخ میں پہلی بار مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز کا بڑے پیمانے پر استعمال کرکے افواہوں اور آدھے سچ کو پھیلا کر عوام کی ذہن سازی کی، اس کی کہیں نظیر نہیں ملتی ہے۔
اس کے بعد اسی طریقہ کو امریکی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ نے اور پاکستان میں مسلم لیگ اور عمران خان کی تحریک انصاف نے پروان چڑھایا۔
سمستی پور کے اس مقامی سیاسی کارکن نے ثابت کردیا کہ جنوبی ایشیاء میں بہاریوں سے بڑھ کر کوئی سیاسی نبض شناس نہیں ہے۔ صوبہ کے دیہی علاقوں میں گھوم کر پتہ چلا کہ موبائل فونز پر ایس ایم ایس، اور دیگر پلیٹ فارمز کی مدد سے ایک ایسی مہم چل رہی ہے، جو سڑکوں پر گاجے باجے کے بجائے براہ راست ذہنو ں کو متاثر کر رہی تھی۔
مغربی صوبہ گجرات جہاں مودی وزیرا علیٰ تھے، کو ایک ایسے خطہ کے طور پر پیش کیا جارہا تھاکہ جیسے وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہوں۔ بتایا جاتا تھا کہ بقیہ ہندوستان کو بس کانگریس اور اس کے حواریوں نے پسماندہ رکھا ہوا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اسی طرح کے ایک پیغام میں کسانوں کو بتا یا گیا تھا کہ گجرات حکومت نے کسی علاقہ میں کیلے کی فصل اگانے والے کسانوں کے لیے ایسی صاف و شفاف سڑکیں بنائی ہیں، تاکہ منڈیوں میں جانے والے ٹرکوں میں ان کے پکے ہوئے کیلے پچکنے سے بچ جائیں۔
واپسی پر جب ہم نے اپنے اخبار کے گجرات ایڈیشن سے گزارش کی کہ کسی رپورٹر کو اس خطہ میں بھیج کر وہاں کے کسانوں سے اس کے بارے میں معلومات اکھٹی کریں، تو معلوم ہوا کہ اس علاقہ میں کیلے کی فصل ہی پیدا نہیں ہوتی ہے اور سڑکوں پر دیگر دیہی علاقوں کی طرح ہی گڑھے کھدے ہوئے تھے۔ مگر جب تک اس کا پتہ چلتا، عوام پر جادو چل چکا تھا۔
ایک سال بعد اسی صوبہ میں اسمبلی انتخابات کی کوریج کے دوران، میں دربھنگہ ضلع سے نیپال کی سرحد سے ملحق علاقہ مدھوبنی کی طرف رواں تھا کہ راستے میں ایک مسلمان پولیس سب انسپکٹر،نے پوچھا کہ کیا دہلی میں ایسی کوئی بات ہو رہی ہے کہ انتخابات کے بعد مسلمانوں کو بھارت چھوڑ کر پاکستان جانا ہوگا؟ سوال پر میں چکرا گیا۔
میں نے پوچھا کہ ایسا وہ کیوں سمجھتا ہے اور کس نے یہ افواہ پھیلائی ہے؟ پولیس کے ایک فرد کی حیثیت سے اس کو فوراً ہی اس افواہ باز کو گرفتار کرکے نشانہ عبرت بنانا چاہیے۔ اس نے جواب دیاکہ، وہ پاس کے ملاحوں کے گاؤ ں میں بسے چند آسودہ حال مسلم گھرانوں کے محلہ میں رہتا ہے۔ اس نے حال ہی میں ایک تین منزلہ مکان تعمیر کیا ہے۔ چند روز سے گاؤں کا نمبردار مسلسل گھر آکربتا رہا ہے کہ اپنا مکان جلد فروخت کرو، انتخابا ت کے بعد کوئی دام نہیں دےگا۔ کیونکہ اس کے فون پر پیغام آیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو جلد ہی پاکستان بھگایا جائےگا۔
سوشل میڈیا کے ذریعے ایسی افواہیں پھیلانے اور ان سے ذہن سازی کرنے میں بی جے پی نے تمام مخالفین کو مات دے دی ہے۔پہلے ا نتخابی بخار ووٹنگ کے دن سے قبل ایک یا دو ماہ تک رہتا تھا۔
مگر بی جے پی نے اب اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ملک سال بھر انتخابی بخار میں مبتلارہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہر دوسرے دن ہیجانی مسائل پیدا کیے جاتے ہیں، اور ایک بحث لوگوں پر زبردستی مسلط کی جاتی ہے۔ یہ حجاب پہننے کا مسئلہ ہو سکتا ہے، مسلمان تاجروں کا ہندو عبادت گاہوں کے قریب دکانیں کھولنا یا پھر 1990 میں کشمیری ہندوؤں کے اخراج پر بننے والی فلم کے اوپر گفتگو۔
بی جے پی کے سوشل میڈیا روم میں کام کرنے والے ایک سابق کارکن کا کہنا ہے کہ پارٹی کے پاس کم از کم ایک لاکھ وہاٹس ایپ گروپس اور سو سے زائد فیس بک صفحات ہیں۔ پارٹی نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ تقریباً ہر بھارتی شہری جس کے پاس اسمارٹ فون ہے وہ اس کے کسی نہ کسی گروپ کا ممبر ہو۔ ان گروپس کے ذریعے پیغامات اور ویڈیوز کی ترسیل کرکے فرقہ وارانہ پروپیگنڈہ کو پھیلاکر پولرائزیشن کی جاتی ہے۔
حال ہی میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کو یہ مسئلہ پارلیامنٹ میں اٹھانے پر مجبور ہونا پڑا۔ مسز گاندھی نے اس مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے دلیل دی کہ فیس بک اور ٹوئٹر جیسی عالمی کمپنیاں ہندوستانی ووٹرز پر اثر انداز ہونے کی نہ صرف کوشش کر رہی ہیں، بلکہ بے جے پی کو ایک ہموار میدان بھی فراہم کرتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کے پلیٹ فارم باقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہیں۔
سمرتھ سرن، جو کانگریس پارٹی کی سوشل میڈیا سیل میں کام کرتے تھے، کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں بی جے پی نے اور خصوصاً نریندر مودی نے اس میڈیم کو پہلی با انتخابی ہتھیار کے بطور استعمال کیا۔مودی وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی اس میڈیم کی اہمیت کو سمجھ چکے تھے۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر، انہوں نے اپنی ریاست میں ترقی کا تاثر پیدا کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا بھر پور استعمال کیا۔ وہ ایک منظم سوشل میڈیا ٹیم اور آئی ٹی ڈپارٹمنٹ قائم کرنے والے پہلے شخص تھے۔ جبکہ دوسری پارٹیاں اس میڈیم کے بارے میں بے خبر تھیں۔
حال ہی میں ختم ہونے والے پانچ صوبائی انتخابات میں، فیس بک، ٹوئٹر اور وہاٹس ایپ کے علاوہ، بی جے پی نے یوٹیوب اور انسٹاگرام کی رسائی کا بھی فائدہ اٹھایا۔ جب تک کانگریس اور دیگر سیاسی پارٹیوں کو سوشل میڈیا کی رسائی کا احساس ہوا، تب تک تمام ممکنہ صفحات اور جگہیں بی جے پی کے کنٹرول میں چلی گئی تھیں۔
سرن، جو سوشل میڈیا پر مہم چلانے والے ایک ادارہ ریسرچ انیشیٹو فارا سٹریٹیجک اینالیسس اینڈ پلاننگ کے بانی بھی ہیں کا کہنا ہے کہ بی جے پی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو سارا سال چلاتی ہے، دوسری پارٹیاں الیکشن سے کچھ مہینوں پہلے ہی بیدار ہوجاتی ہیں، اس دوڑمیں وہ کافی پیچھے رہ جاتی ہیں۔ایک سوشل میڈیا پیج کو چلانے پر تقریباً ہر ماہ75ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے تک خرچ ہوتے ہیں۔ اس طرح کے ہزاروں صفحات کو چلانے کے لیے ایک خطیر رقم درکار ہوتی ہے۔ یہ خرچہ حکمران جماعت ہی برداشت کرپاتی ہے۔
سرن کا کہنا تھا کہ ایک ویڈیو یا صوتی پیغام کو بی جے پی اپنے نیٹ ورک کی وجہ سے آخری صارف تک 20گھنٹے میں پہنچاتی ہے، جبکہ دیگر پارٹیوں کو اسی طرح کے پیغام کی ترسیل کے لیے 72گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ یعنی جب تک آپ ان کے ذریعے اٹھائے گئے کسی ایشو کے لیےجوابی مہم چلائیں گے، تب تک انہوں نے دوسرا اشو کھڑا کیا ہوتا ہے۔
حال ہی میں الجزیرہ نے اپنی ایک تفتیشی رپورٹ میں بتایا کہ کس طرح سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خاص طور پر فیس بک بی جے پی کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 22ماہ تک فیس بک کے الگورتھم کے جائزہ لینے کے بعد پتہ چلا کہ یہ پلیٹ فارم بی جے پی کو رعایتی نرخوں پر اشتہارات چلانے دیتا ہے۔
رپورٹرز کلیکٹوکے ایک تحقیقی پروجیکٹ نے فروری 2019 اور نومبر 2020 کے درمیان فیس بک پر دیے گئے 536070 سیاسی اشتہارات کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔اوسطاً، فیس بک نے بی جے پی، اس کے امیدواروں اور اس سے منسلک تنظیموں سے 41844 روپے ($546) ایک ملین بار اشتہار دکھانے کے لیے وصول کیے۔
لیکن حزب اختلاف کی مرکزی جماعت کانگریس، اس کے امیدواروں اور اس سے منسلک تنظیموں کو اتنی ہی تعداد کے لیے 53776 روپے ($702)، تقریباً 29 فیصد زیادہ رقم ادا کرنی پڑی۔
ان نتائج سے ہندوستانی سپریم کورٹ کے اندیشوں کو تقویت ملتی ہے کہ فیس بک کی پالیسیاں اور الگورتھم انتخابی سیاست اور جمہوریت کے لیے خطرہ ہیں۔ گزشتہ جولائی میں عدالت اعظمیٰ نے کہا تھا انتخابات اور ووٹنگ کے عمل، جو جمہوری حکومت کی بنیاد ہیں، سوشل میڈیا کی ہیرا پھیری سے خطرے میں ہیں۔
فیس بک اپنے صارفین کے نیوز فیڈ میں اشتہارات فراہم کرتا ہے، جو سیاسی جماعتوں یا ان کے سروگیٹ مشتہرین کی طرف سے ادا کردہ پوسٹس ہیں۔ روایتی پرنٹ یا براڈکاسٹ میڈیا کے برعکس جو پہلے سے طے شدہ نرخوں کی بنیاد پر مشتہرین سے چارج کرتے ہیں، فیس بک کا مالک میٹا فیس بک کی نیوز فیڈ کی ریئل ٹائم نیلامی اور اس کے دوسرے پلیٹ فارمز پر جگہ کی بنیاد پر اشتہارات کے لیے مختلف قیمتیں وصول کرتا ہے۔
سال 2020 کے دہلی اسمبلی انتخابات کی مہم میں، کانگریس اور اس کے امیدواروں نے فیس بک کو اوسطاً فی ملین ویوز 39909 روپے ($521) ادا کیے، لیکن بی جے پی نے صرف 35596 روپے ($465) ادا کیے۔ عام آدمی پارٹی (عآپ )، دہلی انتخابات کی فاتح سے سب سے زیادہ 64173 روپے یعنی ($838) فی ملین ویوز وصول کیے گئے، جو کہ بی جے پی کی ادائیگی سے 80 فیصد زیادہ ہے۔
ہندوستانی انتخابی قوانین امیدواروں کے انتخابی اخراجات پر ایک حد لگاتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ انتخابات برابری کی بنیاد پر لڑے جائیں۔ لیکن فیس بک نے بی جے پی اور اس کے امیدواروں کو ہر ایک روپیہ خرچ کرنے پر دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں زیادہ لوگوں تک پہنچنے کی اجازت دی ہے۔
امریکہ میں 2020 کے انتخابات کے لیے نیویارک یونیورسٹی ایڈ آبزرویٹری کے ذریعے حاصل کردہ ایڈ لائبریری اے پی آئی ڈیٹا کے اسی طرح کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی مہم نے صدر جو بائیڈن کے مقابلے میں کم اشتہارات کی شرح ادا کی۔
ایڈ آبزرویٹری پروجیکٹ کی لیڈ محقق لورا ایڈلسن کا کہنا ہے کہ ،یہ نتائج سیاسی اشتہار کی قیمتوں میں اہم تفاوت کو ظاہر کرتے ہیں جس کے مختلف سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی ووٹروں تک پہنچنے کی صلاحیت پر سنگین نتائج ہوتے ہیں۔ جو بھی جمہوری عمل کے بارے میں فکر مند ہے، اسے ان نتائج کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے، اور فیس بک کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے کہ ان کا پلیٹ فارم سیاسی تقریر کے لیے برابر کا میدان بن سکے۔
فیس بک نے 2019 کے پارلیامانی انتخابات سے عین قبل پراکسی مہم چلانے والوں کے خلاف بہت بڑا کریک ڈاؤن کیا۔ اس وقت، فیس بک نے کہا کہ اس نے 687 صفحات اور اکاؤنٹس کو ہٹا دیا جو کانگریس کے آئی ٹی سیل سے منسلک تھے اور جو پارٹی کو فروغ دیتے تھے لیکن اپنی شناخت چھپاتے تھے۔ اس کریک ڈاؤن کے دوران، صرف ایک صفحہ اور 14 اکاؤنٹس کو ہٹا دیا گیا جو بی جے پی کو فروغ دیتے تھے اور پارٹی کے ساتھ اپنی شناخت اور وابستگی چھپاتے تھے۔
گزشتہ دس سال کے عالمی حالات پر نظر ڈال لی جائے۔عرب اسپرنگ سے لے کر شام کے محاذ تک، مِڈل ایسٹ کی ہر دَم بدلتی صْورتِ حال، امریکہ کا دوسرا صدارتی الیکشن اور بریگزٹ کے معاملات میں سوشل میڈیا کا اہم رول رہا ہے۔ یہ پلیٹ فارم جو دراصل ایک عوامی پلیٹ فارم کے بطور ابھرا تھا، کارپوریٹ کمپنیاں اب اس کے ذریعے جمہوریت کا گلا گھونٹنے کا کام کررہی ہیں۔
یہ سچ ہے کہ سوشل میڈیا تک رسائی کی وجہ سے عوام خود ہی واقعات کا تجزیہ کرتے ہیں، مگر جھوٹ، افواہوں اور آدھے سچ کی آمیزیش سے تیار خبر سم قاتل ہوتی ہے۔ اس کا خمیازہ اس وقت ہندوستان کے طول و عرض میں اقلیتوں اور بی جے پی کے مخالفین کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ دو سال قبل میونخ سکیورٹی کانفرنس میں بھی ماہرین نے واضح کیا تھا کہ سوشل میڈیا پر نفرت آمیز مواد، جھوٹی معلومات اور غلط خبریں جمہوریت اور انتخابی عمل کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔