بی جے پی نے آئندہ اسمبلی انتخابات کے لیے اپنے امیدواروں کی فہرست جاری کی اور بعد میں اس کو واپس لے لیا، کیوں کہ نئے امیدواروں اور حال ہی میں بی جے پی میں شامل ہونے والے لوگوں کے انتخاب پر پرانے قائدین میں عدم اطمینان کی بات کہی جا رہی ہے۔
سری نگر: جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے والے امیدواروں کی فہرست میں دیگر جماعتوں سے آئے کئی نئے لوگ بھی شامل ہیں۔ دیگر پارٹیوں کے یہ رہنما بی جے پی کی اس حکمت عملی کا حصہ ہیں ، جس کے تحت وہ جموں کے ہندو گڑھ سمجھے جانے والے علاقے میں اپنی زمین بچائے رکھنا چاہتی ہے۔
ایسا مانا جا رہا ہے کہ پارٹی کو جموں کے کچھ علاقوں میں حکومت مخالف لہر کا سامنا کرنا پڑ رہاہے ، جو ایک دہائی سے زیادہ کے بعد ہونے والے انتخابات میں اس کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
گزشتہ 26 اگست (سوموار) کو ، بی جے پی نے 44 بی جے پی امیدواروں کی ایک فہرست جاری کی تھی ، جس میں جموں و کشمیر کے دو سابق نائب وزیر اعلیٰ – ڈاکٹر نرمل سنگھ اور کویندر گپتا کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر بی جے پی کے صدر رویندر رینا کا نام بھی نہیں تھا۔ بعد میں بی جے پی نے اس فہرست کو واپس لے لیا۔
دیگر پارٹیوں سےآئے چھ لیڈروں کو بی جے پی سے ٹکٹ
بی جے پی نے چھ ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے جو ابھی حال تک دیگر پارٹیوں سے وابستہ تھے ، جن میں نیشنل کانفرنس کے سابق صوبائی صدر دیویندر رانا اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے سابق رہنما اور جموں و کشمیر کے وزیر چودھری ذوالفقار شامل ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ کے سابق معاون اور دوست دیویندر رانا نگروٹا انتخابی حلقہ سے انتخاب لڑ رہے ہیں، جبکہ ذوالفقار راجوری ضلع کے اپنے قبائلی گڑھ بدھل سے اپنے بھتیجے اور نیشنل کانفرنس لیڈر جاوید چودھری کے خلاف الیکشن لڑ رہے ہیں۔
کانگریس کے سابق لیڈر شیام لال شرما کا نام بھی بی جے پی کی فہرست میں شامل ہے ، انہیں جموں شمالی سے ٹکٹ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے نیشنل کانفرنس کے سابق لیڈر سرجیت سنگھ سلاتھیا کو سامبا انتخابی حلقہ سے اپنا امیدوار بنایا ہے۔
جموں و کشمیر پولیس کے سابق ایس ایس پی موہن لال بھگت کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے ، جنہوں نے کچھ دن پہلے ہی پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ انہیں جموں ڈویژن کے مخصوص حلقہ اکھنور سے ٹکٹ ملا ہے۔
اپنے 11 سابق کامیاب امیدواروں نہیں کیا بھروسہ
بی جے پی کی فہرست میں 2014 کے اسمبلی انتخابات کے 11 فاتحین کے نام شامل نہیں ہیں ۔ فہرست کے منظر عام پر آنے کے بعد بی جے پی کے جموں ہیڈکوارٹر کے باہر احتجاج شروع ہو گیا۔ ناراض کارکنوں اور کچھ رہنماؤں نے دھمکی دی کہ اگر پارٹی نے فہرست پر نظر ثانی نہیں کی تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔
بعد میں ، پارٹی نے انتخابات کے پہلے مرحلے کے لیے دو فہرستوں میں صرف 16 امیدواروں کے نام جاری کیے ، جبکہ نئے لوگوں اور حال ہی میں بی جے پی میں شامل ہونے والوں کے انتخاب پر اب بھی عدم اطمینان کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔
بی جے پی کے جموں و کشمیر کے ترجمان سنیل سیٹھی نے دی وائر کو بتایا ، ‘ پہلی فہرست سے صرف ایک امیدوار کو ہٹایا گیا ہے ۔ روہت دوبے کو بلدیو شرما کی جگہ کٹرا حلقہ سے ٹکٹ ملا ہے۔ باقی فہرست میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ ‘
کیا کہتے ہیں سیاسی مبصرین ؟
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سابق ایم ایل اے چودھری سکھ نندن ، شام چودھری ، ست شرما اور دیگر سینئر لیڈروں کا امیدواروں کی فہرست سے اخراج بی جے پی کے اندر جموں میں زمینی سطح کے جذبات کے بارے میں بے چینی کو ظاہر کرتا ہے ، جہاں اسے حکومت مخالف لہر کا سامنا ہے ، وہیں یہ مقامی قیادت کے درمیان علیحدگی اور اندرونی رقابت کا شکار ہے۔
جموں یونیورسٹی میں سیاسیات کی سابق پروفیسر اور رائٹر ریکھا چودھری کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے پرانے لیڈروں میں یہ شدید احساس ہے کہ نئے لوگوں کو ترجیح دی جا رہی ہے اور پرانے لوگوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا ، ‘جموں میں بی جے پی کی طاقت اس کی کمزوری بن رہی ہے۔ انتخابات سے پہلے پارٹی کے لیے یہ یقینی طور پر اچھی شروعات نہیں ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں ہوئے لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے ظاہر کیا ہے کہ کانگریس جو جموں میں معدومیت کے دہانے پر تھی، اب واپسی کے راستے پر ہے۔‘
جموں میں رہنے والے سینئر سیاسی تجزیہ کار اور ایڈیٹر ظفر چودھری کا کہنا ہے کہ پارٹی نے دوسری پارٹیوں کے اتنے سارے لوگوں اور بزنس کمیونٹی کے بڑے ناموں کو پارٹی میں شامل کر لیاہے کہ اس نے اندرونی بنام بیرونی کا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔‘
چودھری نے کہا ، ‘تاہم ، وہ سب زمین سے کٹے ہوئے ہیں اور ان کا واحد انحصار دہلی سے چلائے جانے والے بیانیے پر ہے۔ ‘
کچھ مبصرین بی جے پی کی جموں و کشمیر یونٹ میں ہونے والی تبدیلیوں کو مثبت انداز میں دیکھ رہے ہیں ۔ دیویندر رانا نیشنل کانفرنس کے سابق لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کے دفتر میں وزیر مملکت جتیندر سنگھ رانا کے بھائی بھی ہیں۔ سال 2021 میں جب دیویندر رانا نے نیشنل کانفرنس چھوڑی تو وہ کئی سینئر اور نوجوان لیڈروں کو بی جے پی میں لے آئے تھے۔
جموں میں مقیم ایک تجزیہ کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ، ‘رانا کو جموں میں ایک سیکولر لیڈر کے طور پر دیکھا جاتا ہے ، کیونکہ وہ پہلے نیشنل کانفرنس سے وابستہ رہے ہیں۔ یہ بی جے پی کے لیے بھی مفید ہے کیونکہ پارٹی کو ایک طویل عرصے سے اندرونی خلفشار اور قیادت کے مسائل کا سامنا ہے۔ (جموں و کشمیر بی جے پی کے ) سابق اعلیٰ لیڈروں کو انتخابی میدان میں نہ اتارنا یہ بہت معنی رکھتا ہے۔ ‘
بی جے پی کے امکانات
مختلف اندازوں کے مطابق ، بی جے پی کو 18-21 سیٹیں ملنے کا امکان ہے ، جو 2014 کے اسمبلی انتخابات میں حاصل کی گئی سیٹوں سے کم از کم چار سیٹیں کم ہوں گی ۔ اس وقت بی جے پی نے پی ڈی پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی تھی، جس کے اس وقت کے صدر مفتی محمد سعید تھے ۔
چودھری نے کہا ، ‘ بی جے پی کے حالیہ اندرونی سروے سے پتہ چلتا ہے کہ پارٹی 20 سے زیادہ سیٹیں نہیں جیت پائے گی ، یہی وجہ ہے کہ کئی سینئر لیڈروں کو ہٹا دیا گیا ہے۔ ‘
پارٹی کو کشتواڑ میں اچھی کارکردگی کی امید ہے ، جہاں اس نے شگن پریہار کو میدان میں اتارا ہے ، جن کے دو بھائیوں کو 2018 میں ایک حملے میں مشتبہ دہشت گردوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا ۔
بی جے پی ڈوڈا کے بارے میں بھی پر امید ہے ، جہاں پارٹی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے رکن شکتی پریہار پر منحصر ہے ، جنہیں مسلم نواز سمجھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ بی جے پی ادھم پور شہر کی سیٹ کے بارے میں بھی پر امید ہے جہاں سے پون گپتا نے الیکشن لڑ ر ہے ہیں ۔ 2014 میں گپتا نے آزاد امیدوار کے طور پر کامیابی حاصل کی تھی۔
مزید برآں ، پارٹی کو چنانی رام نگر ، جموں ( مشرقی ) اور جموں ( مغربی )، اکھنور ، سانبہ ، وجئے پور ، کٹھوعہ ، جسروٹا اور ویشنو دیوی میں بھی اپنی اکثریت برقرار رکھنے کی امید ہے۔
کہاں کہاں بی جے پی مل رہی ہے ٹکر ؟
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ جموں کی کچھ سیٹوں پر نیشنل کانفرنس – کانگریس اتحاد اور بی جے پی کے درمیان سخت مقابلہ ہوگا ،جس میں ناگسانی – پدارانتخابی حلقہ بھی شامل ہے، جہاں موجودہ ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کونسل کی چیئرپرسن پوجا ٹھاکر کا مقابلہ بی جے پی لیڈر اور جموں کشمیر کے سابق وزیر سنیل شرما سےہے۔
ان مبصرین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ، ‘ڈی ڈی سی صدر زمینی لیڈر ہیں، جنہوں نے حلقہ میں کئی ترقیاتی کام کیے ہیں ، لیکن بی جے پی اس سیٹ کو جیتنے کے لیے فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا پرانا کارڈ کھیل رہی ہے۔ اس حلقے میں تقریباً 90 فیصد ہندو آبادی ہے۔ ‘
بی جے پی کو جموں (مشرقی) اور جموں مغربی) میں بھی کڑی ٹکر ملنے کی امید ہے ، جہاں نیشنل کانفرنس – کانگریس اتحاد نے جموں و کشمیر کے سابق وزیر یوگیش ساہنی اور سریندر سنگھ شنگاری کو میدان میں اتارا ہے ؛ باہو حلقہ ، جہاں کانگریس کے سینئر لیڈر رمن بھلا اتحاد کے ایک مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں ؛ آر ایس پورہ ، جہاں جاٹ برادری کی خاصی آبادی ہے ؛اور کھوڑ ، جہاں ایک اور کانگریسی لیڈر تارا چند میدان میں ہیں۔
اس کے علاوہ، سیاسی مبصرین کے مطابق کٹھوعہ ضلع کی دو سیٹوں پر سخت مقابلہ ہوگا۔ تجزیہ کار نے کہا ، ‘اگرچہ جموں کے کچھ علاقوں میں ناراضگی ہے اور پارٹی کے حامی امیدواروں کے انتخاب سے ناخوش ہیں ، وہ پھر بھی بی جے پی کو ووٹ دیں گے کیونکہ یہ کیڈر پر مبنی پارٹی ہے۔ ‘
چودھری نے کہا کہ بی جے پی کی مقامی قیادت بہت زیادہ ’پر امید‘ ہو گئی ہے اور ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ بی جے پی کا ٹکٹ ہی جیت کا یقینی راستہ ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ دہلی کو زیادہ تر چیلنجز سے نمٹنے کی حکمت عملی معلوم ہے۔ ‘
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)