بہار: مدارس کے اساتذہ مالی بحران سے دو چار

غیر امدادی یعنی نان-ایڈیڈ مدارس کی ابتر حالت اور اساتذہ کے مالی بحران کی وجہ سے تعلیمی معیار متاثر ہو رہا ہے۔

غیر امدادی یعنی نان-ایڈیڈ مدارس کی ابتر حالت اور اساتذہ کے مالی بحران کی وجہ سے تعلیمی معیار متاثر ہو رہا ہے۔

بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے قیام کے 100 سال مکمل ہونے پر پٹنہ کے باپو آڈیٹوریم میں منعقدتقریب  کی ایک تصویر۔ (تصویر بہ شکریہ: اسپیشل ارینجمنٹ)

پٹنہ: 21 اگست 2025 کو بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ (بی ایس ایم ای بی) نے اپنے قیام کے 100 سال مکمل ہونے پر پٹنہ کے باپو آڈیٹوریم میں ایک عظیم الشان تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ اس موقع پر چیف منسٹر نتیش کمار مہمان خصوصی کے طور پر موجود تھے۔

یہ تقریب بورڈ کی سنہری تاریخ کو اجاگر کرنے کا موقع تھا، جس میں ریاست کے تمام اضلاع سے تقریباً 15000 مدرسہ اساتذہ نے شرکت کی تھی۔ لیکن اس موقع پر اساتذہ کا عدم اطمینان واضح طور پرنظر آیا۔ اساتذہ نے بقایہ تنخواہ اور مدرسہ بورڈ کی ابتر حالت کو لے کر وزیراعلیٰ کے سامنے ہنگامہ کیا۔

بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ 1922 میں قائم کیا گیا تھا اور اسے 1981 کے ایکٹ کے تحت باضابطہ شکل دی گئی تھی۔ یہ بورڈ بہار میں مذہبی اور جدید تعلیم دینے والے مدارس کو منظم کرتا ہے۔

بہار میں کل 3588 مدارس ہیں، جن میں سے 1942 کو ریاستی حکومت سبسڈی دیتی ہے، جبکہ باقی 1646 غیر سبسڈی والے ہیں۔ سبسڈی والے مدارس کو ریاستی حکومت تسلیم کرتی ہے اور انہیں مالی امداد دی جاتی ہے۔ جبکہ غیر سبسڈی والے مدارس کو کوئی مالی امداد نہیں دی جاتی۔

مدارس اکثر نجی یا کمیونٹی وسائل پر منحصر کرتے ہیں

امداد یافتہ یعنی ایڈیڈمدارس ‘وسطانیہ’ (کلاس 8)، ‘فوقانیہ’ (کلاس 10)، ‘مولوی’ (کلاس 12) اور ‘عالم’ (گریجویشن ) تک کی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ غیر امدادی یا نان -ایڈیڈمدارس کا زیادہ تر انحصار نجی یا کمیونٹی وسائل پر ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کا بنیادی ڈھانچہ اور تعلیمی معیار اکثر کمزور ہوتا ہے۔

صد سالہ تقریبات کے موقع پر اپنے خطاب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت نے مدارس کی حالت بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ مثال کے طور پر، 2006 سے امداد یافتہ مدارس کے اساتذہ کو سرکاری اساتذہ کے برابر تنخواہ دینے کی شروعات کی گئی۔ اس کے علاوہ محکمہ اقلیتی بہبود کا بجٹ 2004-05 میں 3.54 کروڑ روپے سے بڑھا کر 2025 میں 1080 کروڑ کردیا گیا ہے۔

تاہم، مظفر پور کے مدرسہ تقویۃ الایمان کے پرنسپل مظفر شفیع وزیراعلیٰ کی ان باتوں کو صحیح نہیں مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مدرسہ کے اساتذہ کو سرکاری اسکولوں کے اساتذہ جیسی سہولیات نہیں ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں انکریمنٹ، طبی سہولیات اور ہاؤس رینٹ الاؤنس نہیں دیا جاتا۔

شفیع سرکاری امداد یافتہ مدرسے میں استاد ہیں۔

متعدد مدارس اب بھی بنیادی سہولیات جیسے عمارتوں، لائبریریوں اور لیبارٹریوں سے محروم ہیں، خاص طور پر غیر سرکاری مدارس میں مسائل زیادہ ہیں۔

بہار مدرسہ بورڈ کی تاریخ شاندار رہی ہے۔ یہ بورڈ نہ صرف مذہبی تعلیم کو فروغ دیتا ہے بلکہ اس نے نصاب میں سائنس، ریاضی اور انگریزی جیسے جدید مضامین کو بھی شامل کیا ہے۔ لیکن آج اس بورڈ کا کوئی مستقل ہیڈ کوارٹر نہیں ہے۔ بورڈ کے موجودہ دفتر کا پتہ 5، ودیا پتی مارگ پٹنہ-800001 ہے۔ جہاں یہ دفتر کرایہ کے مکان میں چلتا ہے۔

اس سلسلے میں مدرسہ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ایم ڈی او) نے کئی بار مدرسہ بورڈ کو خطوط لکھے ہیں، لیکن ابھی تک اس معاملے کا نوٹس نہیں لیا گیا ہے۔ بورڈ ہیڈ کوارٹر کی عمارت کی تعمیر پر 9 کروڑ روپے سے زائد خرچ کا تخمینہ ہے۔

فنڈنگ ​​کے مسائل

گرانٹس کا مسئلہ سنگین ہے۔ بہار میں 1646 غیر سبسڈی والے مدارس کو سرکاری امداد نہیں ملتی، جس کی وجہ سے ان کی حالت قابل رحم ہے۔ کٹیہار کے عزیزیہ گنج باری مدرسہ کے پرنسپل محمد سیف الدین 1987 سے اس مدرسہ میں پڑھا رہے ہیں۔

ان کے مدرسے کو آج تک گرانٹ کیٹیگری میں شامل نہیں کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے مدرسہ کے پاس عمارت نہیں ہے۔ سیف الدین کا کہنا ہے کہ بارش کے موسم میں مدرسہ مہینوں تک بند رہتا ہے کیونکہ سیلاب کی وجہ سے مدرسہ ڈوب جاتا ہے۔

دربھنگہ کے مدرسہ محمودیہ کے محمد محبوب عالم کا حال بھی تقریباً ایسا ہی ہے۔ وہ 2011 میں مدرسہ میں استاد بنے تھے، لیکن انہیں مالی بحران کا سامنا ہے کیونکہ انہیں گرانٹ کیٹیگری میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔

بہار ریاستی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین غلام رسول بلیاوی کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ نے 2005 کے بعد کے مدارس پر بات کرنے کے لیے میٹنگ بلائی تھی، وہاں کسی  طرح کے اعلان کی بات نہیں ہوئی تھی۔

مدرسے مسلم بچوں کے لیے خاص طور پر دیہی علاقوں میں تعلیم کے اہم ذرائع میں سے ایک ہیں۔ غیر امدادی مدارس کی ابتر حالت اور اساتذہ کے مالی بحران کی وجہ سے تعلیمی معیار متاثر ہو رہا ہے۔ 2020 سے کوئی نئی تقرری نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں مدارس کو اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے۔

مدارس کے اساتذہ کے اہم مطالبات

مدرسہ کے اساتذہ کے اہم مطالبات میں بقایہ تنخواہوں کی فوری ادائیگی، گرانٹس کی باقاعدہ ادائیگی، انکریمنٹ، طبی سہولیات اور ہاؤس رینٹ الاؤنس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ 1646 ’پلس ون‘ اور 339 ’ٹو‘ کیٹیگری کے مدارس کو پے اسکیل میں شامل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اس دوران غیر اردو اساتذہ کی تقرری کا معاملہ بھی موضوع بحث ہے۔ کچھ اساتذہ نے الزام لگایا کہ اردو اسکولوں میں ایسے اساتذہ کی تقرری کی جارہی ہے جنہیں اردو کا خاطر خواہ علم نہیں ہے۔ اس صورتحال سے اردو تعلیم کا معیار متاثر ہو رہا ہے اور یہ اساتذہ میں اضطراب کا باعث ہے۔

(نیر اعظم آزاد صحافی ہیں۔)