ذات کا تعارف: دی وائر نے بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ حصہ امات کے بارے میں ہے۔
(علامتی تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons/Vivekkr2015)
امات کے لفظی معنی سے اس کے بارے میں نہیں جانا جا سکتا۔ لفظی معنی کے لحاظ سے تو امات وہ ہے جس نے کسی سے مات نہ کھائی ہو۔ لیکن امات ایسے نہیں ہوتے اور اگر ہوتے تو ہندو کی اعلیٰ ذاتوں کی طرح ہوتے۔ ممکن ہے کہ انہیں برہمن مانا جاتا، جو صدیوں سے (1818 میں بھیما-کورےگاؤں کی لڑائی کو چھوڑ کر) ناقابل شکست رہے ہیں۔ یا یہ ممکن ہے کہ وہ راجپوتوں کی طرح جنگجو رہے ہوں گے، لیکن اس وقت ان کی سماجی حیثیت یہ ہے کہ اونچی ذات میں شامل ہر ذات کے لوگ انہیں اپنے سے کمتر مانتے ہیں۔
دراصل، یہ کون ہیں؟ کیا یہ واقعی برہمن ہیں، جنہیں دوسرے برہمنوں نے بے دخل کر دیا ہے؟ یا پھر یہ راجپوت ہیں، جنہیں حکمران راجپوتوں نے اقتدار سے بے دخل کر دیا ؟ آخر یہ کون ہیں؟ تاریخ میں ان کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہے۔ اس ذات کا نسلی مطالعہ بھی کسی واضح نتیجے پر نہیں پہنچتا۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی سازش کا نتیجہ ہیں۔ یہ بات اس لیے کہ اس ذات کے لوگ عام طور پر غریب نہیں ہوتے۔ اگر کچھ ہیں بھی تو، استثنیٰ ہی ہیں۔
سماجی طور پر بھلے ہی برہمن یا راجپوت ان لوگوں کی عزت نہیں کرتے۔ ان کے ساتھ بیٹی اور روٹی کا رشتہ نہیں رکھتے، لیکن عام اماتی خود کو ان کے جیسا ہی سمجھتا ہے۔ بہرحال بہار میں یہ پسماندہ طبقے میں شامل ہیں اور ریزرویشن کے فائدے حاصل کرتے ہیں۔ تاہم، ایسا صرف یہی نہیں کرتے۔ اتر پردیش میں نوٹیال بھی ہیں، جو خود کو برہمن مانتے ہیں، لیکن شیڈول ٹرائب کو ملنے والا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
لیکن یہ واقعتاً کون ہیں؟ ان کا نام تو امات ہے۔ ممکن ہے یہ اماتیہ لفظ کا اپ بھرنش ہو ۔ اماتیہ کا مطلب ہے وہ شخص جو ہمیشہ ساتھ رہے۔ اب ساتھ رہنے والا شخص دو ہی طرح کا ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر راجا کے تناظر میں۔ ایک اس کا محافظ یا پھر اس کا وزیر۔ اماتیہ کا ایک مطلب وزیر بھی ہوتاہے۔ چندرگپت موریہ کے زمانے میں چانکیہ کو اماتیہ ہی کہا جاتا تھا۔
لیکن اس تھیوری سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ امات کون ہیں۔ اگر محافظ ہونے کی بنیاد پر ان کے باے میں اندازہ لگایا جائے تو یہ راجپوت ہو سکتے ہیں اور اگر وزیر کے طور پر اندازہ لگایا جائے تو ان کا تعلق برہمنوں سے ہو سکتا ہے۔ لیکن واقعی میں یہ ایک راز ہی ہے اور بلاشبہ اس راز کو بہت سوچ سمجھ کر رکھا گیا ہے۔ اگر یہ راز آسانی سے کھل پاتا تو شاید ہی دلتوں اور پسماندہ طبقات کو کوئی ریزرویشن کے ذریعے حکومت اور انتظامیہ میں شراکت دار بنانے کے لیے ریزرویشن میں در اندازی کر سکتا۔
میگاستھینیز نے ان کے بارے میں تھوڑا سا لکھا ہے۔ ان کے مطابق، ‘نیچی ذات کے لوگوں کے لیے اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے کے تمام دروازے بند ہوتے تھے۔ عدلیہ اور ایگزیکٹو میں صرف ایک پیشہ ور طبقے کے لوگ ہی مقرر کیے جاتے تھے۔’ جبکہ کاتیان اس بات پر زور دیتے ہین کہ ‘اماتیہ کو برہمن ذات ہی ہونا چاہیے۔ اماتیہ کا مطلب ہے وزیر، جو منترن سے بنا ہے اور منترن کا مطلب منتر-تنتر سے ہوتاہے۔’
منڈک اپنشد میں بتایا گیا ہے کہ ‘اماتر’ مراقبہ (دھیان ) کی چوتھی حالت ہے، جسے سمادھی بھی کہا جاتا ہے۔ تاہم، اس نظریہ میں تضادات ہیں۔ ایسا اس لیےکہ نرگن یا وحدانیت کا تصور ہندو مذہب میں نہیں ہے۔ اس مذہب میں تو جسم اور روح کو دو مختلف شکلوں میں اہمیت دی گئی ہے۔ لیکن نرگن اور وحدانیت کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ برہمن جو بت پرست نہیں ہیں، امات کہے جا سکتے ہیں۔
ملکی اور غیر ملکی اسکالر نے بھی ان کے بارے میں لکھا ہے۔ مثال کے طور پر ‘بہار اینڈ اڑیسہ ریسرچ سوسائٹی’ کی طرف سے سال 1919 میں شائع ہونے والے جریدے میں امات کو بادشاہ کا پروہت بتایا گیا ہے۔ اس سے قبل 1909 میں ذات کے حوالے سے اپنی کتاب میں ایڈگر تھرسٹن اور کے رنگچاری نے لکھا ہے کہ امات اعلیٰ برہمنوں کا بھی چھوا نہیں کھاتے۔ ان کے مطابق امات کا تعلق شیو فرقے سے ہے اور جس مندر میں جنگم برہمن (جنگم شیوا فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اعلیٰ درجے کے برہمن ہیں) کو شیولنگ کے پجاری کے طور پر رکھا گیا ہے، اسی مندر میں امات کو بھیرو کے پجاری کے طور پر رکھا گیا ہے۔
ہندو دیومالا میں بھیرو کاایک اہم کردار رہا ہے۔ اگرچہ بھیروں کو مندر کے احاطے میں جگہ دی جاتی ہے، لیکن اندر نہیں۔ وہاں برہمنوں کا راج ہوتاہے۔ امات کی ملکیت بھی گربھ گرہ کے باہر ہوتی ہے۔
وہیں 1891 میں شائع ہونے والی کتاب ‘دی ٹرائبس اینڈ کاسٹ آف بنگال’ میں رسلے نے لکھا ہے کہ اماتوں کو گھریلو نوکر کے طور پر رکھا جاتا ہے۔
بہار کے مشہور مؤرخ رہے کاشی پرساد جیسوال نے بھی لکھا ہے کہ 12ویں صدی کے دوران معاشی پالیسی اور مجرمانہ پالیسی کی روایت آہستہ آہستہ کمزور ہوتی گئی اور دھرم کا غلبہ ہوتا گیا اور معاشرہ پاکھنڈ کی گرفت میں آ گیا۔ وہ قیاس کرتے ہیں کہ اکثریت سے علیحدگی کی وجہ سے اماتر کو امت (الگ) کہا جانے لگا ہوگا، جو بعد میں امات ہوگیا ہوگا۔ لیکن جیسوال اپنی اس میں اس مسئلے کو واضح نہیں کرتے کہ 12ویں صدی ہی وہ صدی تھی جب ہندوستان میں باہر کے حکمرانوں کا راج قائم ہونا شروع ہوا۔پھر یہ تو مانا جا سکتا ہے کہ برہمنوں کے غلبہ میں کمی آئی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مسلمان حکمران کسی برہمن کو اپنا امات یعنی وزیر اور محافظ کیوں بنانا چاہے گا۔
ممکن ہے کہ مسلمانوں نے پشیہ متر شونگا کی داستان پڑھ لی ہو کہ کس طرح برہمن کمانڈر نے برہدرتھ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اسے قتل کیا تھا اور کس طرح اس نے موریہ خاندان کی سلطنت پر قبضہ کر لیا تھا۔
خیر، سماجی، تعلیمی اور معاشی بنیادوں پر امات بہار کی دیگر پسماندہ ذاتوں یا دلت ذاتوں کے برابر نہیں ہیں۔ ان کی تعداد بھی 285221 ہے۔
تاہم، اماتوں کے بارے میں ایک بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور صرف نام کے لیے امات ہیں۔ نام کےمطلب یہ کہ اعلیٰ ذات ہونے کے باوجود انہیں ریزرویشن کا فائدہ ملتا ہے۔
(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)