بنگلورو کے ورتھر پولیس اسٹیشن نے 22سالہ نوجوان سلمان کو بیٹری چوری کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔ اس نےالزام لگایا ہے کہ اس دوران انہیں بے رحمی سے پیٹا گیا، جس کی وجہ سے انہیں اپنا ایک ہاتھ گنوانا پڑا۔
نئی دہلی: ایک22سالہ نوجوان نے الزام لگایا ہے کہ بنگلورو کے ورتھر پولیس اسٹیشن میں غیرقانونی حراست کے دوران پولیس کی بربریت کی وجہ سے انہیں اپنا داہنا ہاتھ گنوانا پڑا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق،مشرقی بنگلورو کے نزدیک ورتھر کے رہنے والے سلمان نے الزام لگایا ہے کہ اس سال اکتوبر کے اواخر میں کار کی بیٹری چوری ہونے کے معاملے میں انہیں پولیس نے اٹھایا تھا۔ وہ ایک چکن کی دکان میں کام کرتے تھے لیکن مہاماری کے بیچ ان کی نوکری چلی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق، دیر شام اسے لینے آئی پولیس مبینہ طور پر سادے کپڑوں میں تھی۔ سلمان نے بتایا کہ ورتھر پولیس اسٹیشن میں تین لوگوں نے اس پر ‘بےرحمی سے حملہ’کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں ان لوگوں، جنہیں سلمان نے بیٹری بیچی تھی، کے پاس لے جانے کے علاوہ پولیس نے ان پر ان جرائم کو قبول کرنے کے لیے بھی دباؤ ڈالا، جو انہوں نے نہیں کیے تھے۔
سلمان کے اہل خانہ نے کہا ہے کہ وہ گھر کے کمانے والوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ سلمان کوتلاش کرتے ہوئے تھانے پہنچے تو ورتھر پولیس نے ‘سلمان’نام کےکسی بھی شخص کو حراست میں لینے سے انکار کیا تھا۔
نوجوان نے اخبار کو بتایا، ‘مجھے الٹا باندھ کر بری طرح پیٹا گیا تھا۔ تین دن تک تین پولیس اہلکاروں نے مجھ پر حملہ کیا۔ وہ ایک وقت میں جسم کے ایک حصہ کو نشانا بناتے تھے۔ انہوں نے میرے داہنے ہاتھ پر مارا پیٹا اور ایک کے بعد ایک پیروں پر لات ماری۔’
انہیں تین دنوں کے بعد رہا کیا گیا تھا۔ کچھ ہی دیر میں انہیں داہنے ہاتھ کی طاقت کم ہوتی محسوس ہوئی اور چوٹ گہری ہو گئی۔ گھر والے انہیں تین اسپتالوں میں لے گئے، جہاں انہیں بتایا گیاکہ زندہ رہنے کے لیے ہاتھ کاٹنا پڑےگا۔ اس کے بعد آٹھ نومبر کو سلمان کے ہاتھ کی سرجری کی گئی۔
ڈپٹی کمشنر آف پولیس(وائٹ فیلڈ)ڈی دیوراج نے بتایا کہ انہوں نے واقعہ کے سلسلے میں ورتھر کے دائرہ اختیار میں اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس سے رپورٹ طلب کی ہے۔
ہندوستان میں ٹارچر پر کام کرنے والے غیر سرکاری اداروں کے فورم نیشنل کمپین اگینسٹ ٹارچر کی ایک رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں ہر دن اوسطاً پانچ لوگ حراست میں مر جاتے ہیں، جن میں سے کچھ پولیس یا عدالتی حراست میں تشددکی وجہ سے دم توڑ دیتے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سلمان کے معاملے کی طرح چوری جیسےجرائم کی جانچ کرتے ہوئے کئی صوبوں میں پولیس اہلکاروں نے مشتبہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔
سال2005 سے 2018 کے بیچ پولیس حراست میں مبینہ طور پر تشددکی وجہ سے500 لوگوں کی موت کے معاملے میں کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی ہے۔