اتر پردیش پولیس نے بارہ بنکی میں غیر قانونی طور پر ایک مسجد کو منہدم کرنے کی رپورٹ کو لےکرجمعرات کی شب دی وائر اور اس کے دو صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔مسجد کو مبینہ طور پر مقامی انتظامیہ کے ذریعے گزشتہ مئی میں منہدم کیا گیا تھا، جس کی خبر ہندوستان اور بیرون ملک میں دی وائر سمیت کئی دیگر میڈیا اداروں نے شائع کی تھی۔
نئی دہلی:اتر پردیش پولیس نے بارہ بنکی میں ایک مسجد کو غیرقانونی طور پرمنہدم کرنے کی رپورٹنگ کو لےکرجمعرات کی شب دی وائر اور اس کے دو صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔یہ مسجد مبینہ طور پر مقامی انتظامیہ کے ذریعے17 مئی2021 کو منہدم کی گئی تھی، جس کی ہندوستان اور بیرون ملک میں دی وائر سمیت اور کئی دیگر میڈیا اداروں نے رپورٹنگ کی تھی۔
اس ویڈیو میں مقامی افراد کو بارہ بنکی کے رام سنیہی گھاٹ میں غریب نواز المعروف مسجد کو غیرقانونی طور پرمنہدم کرنے کے بارے میں بتاتے ہوئےدیکھا جا سکتا ہے۔
دی وائر کے صحافی اس معاملے پر چرچہ کے لیے رام سنیہی گھاٹ کے موجودہ سب ڈویژنل مجسٹریٹ(ایس ڈی ایم)جتیندرکٹیار سے ملنا چاہتے ہیں لیکن کٹیار اس معاملے پر کچھ بھی کہنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیتے ہیں کہ ان کے چارج سنبھالنے سے پہلے ہی مسجد کو مبینہ طور پر منہدم کیا گیا تھا اس لیے وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر پائیں گے۔
بارہ بنکی پولیس کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر میں مسجد لفظ کا استعمال نہیں کیا گیا ہے اور منہدم کیے گئے ڈھانچے کو غیرقانونی عمارت بتایا گیا ہے۔ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ دی وائر اور اس کے دوصحافیوں سراج علی، مکل سنگھ چوہان کے کے ذریعے ٹوئٹر پر پوسٹ کیے گئے ویڈیو سماج میں تعصب پھیلاتے ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرتے ہیں۔
How a Mosque in UP's Barabanki Was Demolished.
Watch The Wire's ground report by @_serajali_ and @mukulschauhan in which they discuss the issue with the state administration as well as the members from the mosque committee and their lawyer.
Full report: https://t.co/ESTk8mG3Va pic.twitter.com/1GEv37Dzmz
— The Wire (@thewire_in) June 23, 2021
دی وائر، علی اور چوہان کے علاوہ ایف آئی آر میں مسجد کمیٹی کےسکریٹری محمد انیس اور ایک مقامی محمد نعیم کا بھی نام شامل ہیں، جن سے ویڈیو میں بات کی گئی تھی۔یہ ایف آئی آر ایک پولیس افسرکی شکایت پر درج کی گئی ہے۔
اس ویڈیو کو رام سنیہی گھاٹ پر بنایا گیا تھا اور یہ22 جون 2021 کو دی وائر کے یوٹیوب چینل پر نشر ہوا تھا۔ اسے دی وائر کی ویب سائٹ پر اسٹوری کے طور پر اپ لوڈ کیا گیا تھا اور اگلے دن اسے ٹوئٹ کیا گیا تھا۔دی وائر نے بارہ بنکی پولیس کے ان الزامات کو بے بنیاد بتاتے ہوئے یوپی سرکار پرصوبے میں رپورٹنگ کر رہے صحافیوں کے کام کو مجرمانہ بنانے کا الزام لگایا ہے۔
یہ ویڈیو17 مئی کو رام سنیہی گھاٹ تحصیل کے احاطہ کے اندرواقع مسجد کو ضلع انتظامیہ کے ذریعےمنہدم کرنے کے بارے میں تھا۔انتظامیہ نے اپنے حکم میں مسجد کے بجائے اس کوغیر قانونی ڈھانچہ بتایا تھا۔دی وائر نے بتایا تھا کہ غریب نواز المعروف مسجد یوپی سنی وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہے۔ وقف بورڈ نے ضلع انتظامیہ کی سرگرمیوں کو غیرقانونی بتایا ہے اور اس کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ کا رخ کیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، بارہ بنکی کے ضلع مجسٹریٹ آدرش سنگھ نے جمعرات کی شب کوجاری بیان میں کہا کہ ویڈیو میں غلط اور بے بنیاد جانکاری ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ویڈیو میں کئی غلط اور بے بنیاد بیان ہیں، ان میں سے ایک میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ اور پولیس نے مذہبی کتابوں کو نالے اور ندی میں پھینک دیا تھا۔یہ غلط ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ اس طرح کی غلط جانکاری کے ذریعے دی وائر سماج میں تعصب پھیلانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔’
بارہ بنکی کے ایس پی یمنا پرساد نے کہا کہ محمد نعیم کا نام ایف آئی آر میں ہے کیونکہ اس نے ندی اور نالے میں مذہبی کتابوں کو پھینکے جانے کے بارے میں غلط بیان دیا تھا۔دی وائر کے بانی مدیرسدھارتھ وردراجن نے جمعرات کو میڈیا میں جاری بیان میں کہا، ‘گزشتہ14 مہینوں میں دی وائر اور اس کے صحافیوں کے خلاف یہ یوپی پولیس کی چوتھی ایف آئی آر ہے اور ہر معاملہ بے بنیاد ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ سرکار میڈیا کی آزادی میں یقین نہیں رکھتے اور صوبے میں رپورٹنگ کر رہے صحافیوں کے کام کو مجرمانہ بنانے میں یقین کرتے ہیں۔’
انہوں نے کہا،‘اتر پردیش میں رہنما اور غیرسماجی عناصر کھلے عام فرقہ وارانہ نفرت پھیلا رہے ہیں اور تشدد کی وکالت کر رہے ہیں لیکن پولیس انہیں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اورنظم و نسق بگاڑنے کے طور پر نہیں دیکھتی لیکن جب صحافی سرکار کے غلط کام کا انکشاف کر رہے عام لوگوں کے بیان کی رپورٹنگ کرتی ہے تو فوراً ایف آئی آر درج کر لی جاتی ہے۔ دی وائر اس طرح کے ہتھکنڈوں سے ڈرنے والا نہیں ہے۔’
بارہ بنکی میں آئی پی سی کی دفعہ 153(دنگا کرنے کے ارادے سے جان بوجھ کر اکسانا)، 153اے (مختلف گروپوں کے بیچ تعصب پھیلانا)، 505(1) (بی)(سماج میں ڈر پھیلانا)، 120بی(مجرمانہ سازش)اور 34 (عام منشا سے کئی لوگوں کی جانب سے کیا گیا کام) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
پولیس کے ذریعے درج کیے گئے دیگر معاملے
دس دن پہلے 14 جون کو ایک ٹوئٹ کو لےکردی وائر کے خلاف غازی آباد میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ دراصل یہ ٹوئٹ غازی آ باد میں ایک بزرگ مسلمان پر حملے کو لےکر تھا۔
وہیں فروری 2021 میں رام پور پولیس نے 26 جنوری2021 کو کسانوں کے مظاہرہ کے دوران ایک نوجوان کسان کی موت پر اس کے دادا کے دعووں کی رپورٹنگ کو لےکر وردراجن اور دی وائر کی صحافی عصمت آرا کے خلاف رام پور پولیس نے ایف آئی آر درج کی تھی۔ کسان کے دادا نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان کے پوتے کی موت حادثےمیں نہیں بلکہ گولی لگنے سے ہوئی ہے۔
اس سے پہلے اپریل 2020 میں ایودھیا پولیس نے دی وائر میں شائع ایک رپورٹ کو لےکر وردراجن کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایودھیا میں ایک بڑے مذہبی پروگرام کے انعقاد کامنصوبہ ہے جبکہ دہلی میں تبلیغی جماعت معاملے میں کورونا وائرس پھیلانے کو لےکرمسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس سلسلے میں یوپی پولیس2020 میں ملک بھر میں لگے لاک ڈاؤن کے بیچ اپریل مہینے میں ایودھیا پولیس وردراجن کو ایودھیا پولیس اسٹیشن لے جانے کے لیے ان کے گھر پہنچی تھی۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)