بابری مسجد انہدام معاملے کی شروعات اس بارے میں درج دو ایف آئی آر 197 اور 198 سے ہوئی تھی۔ پہلی ایف آئی آر انہدام کے ٹھیک بعد ایودھیا تھانے میں لاکھوں نامعلوم کارسیوکوں کے خلاف درج ہوئی تھی اور دوسری جس میں بی جے پی، سنگھ اور باقی تنظیموں کے رہنما نامزد تھے۔
یہ بھی پڑھیں: بابری انہدام کا منصوبہ باریکی سے بنایا گیا تھا، اوما بھارتی نے خود ذمہ داری لی تھی: جسٹس لبراہن
اس سے پہلے گزشتہ سال 9 نومبر کو رام جنم بھومی بابری مسجد معاملے میں ہندوفریق کو رام مندر کی تعمیر کے لیے زمین دینے کا فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا، ‘6 دسمبر 1992 کو مسجد کے ڈھانچے کومنہدم کردیا گیا اور مسجد کو تباہ کر دیا گیا۔ مسجد کا گرایا جانا اس کی حالت کو بنائے رکھنے کے عدالت کے حکم اور اس کو کرائی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی تھی۔ مسجد کوتباہ کرنا اور اسلامی ڈھانچے کا نام ونشان مٹا دینا قانون کی خلاف ورزی تھی۔ لبراہن کمیشن غور طلب ہے کہ 16 دسمبر 1992 کو بابری مسجد انہدام کے واقعات کی تفتیش کرنے کے لیے مرکزی حکومت نے ایک کمیشن کاقیام کیا تھا۔اس وقت پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے جج ایم ایس لبراہن کی قیادت میں بنے اس کمیشن کو تین مہینوں کے اندر جتنی جلدی ممکن ہو سکے، اپنی رپورٹ سرکار کو سونپنی تھی۔ لیکن اس نے 48 ایکسٹینشن لیے اور آزاد ہندستان کی سب سے لمبی چلنے والی انکوائری بنتے ہوئے کمیشن نے 30 جون 2009 کو اپنی رپورٹ سونپی۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا، ‘ونئے کٹیار، چنپت رائے جین، آچاریہ گریراج کشور، مہنت اویدیناتھ اور ڈی بی رائے نے شروعات سے ہی خفیہ طریقے سے متنازعہ ڈھانچے کو گرانے کا منصوبہ بنانا شروع کر دیاتھا۔ انہدام کے لیے جو طریقہ اپنایا گیا وہ یہ تھا کہ متنازعہ ڈھانچے پر اچانک حملہ کیا گیا، اسی کے ساتھ صحافیوں پر اچانک حملہ ہوا، اس کے بعد تکنیکی مدد سے آگے بڑھا گیا جیسے دیواروں میں چھید کر پھندے بناکر رسیاں لگائی گئیں اور گنبد کے نیچے کی دیواریں گرا دی گئیں۔’ رپورٹ میں آگے کہا گیا، ‘سرکار نے فورس کا استعمال نہ کیا جانا یقینی بنایا،یہاں تک کہ انہوں نے فورسز کی تعیناتی نہیں کی اور تحریک کے رہنماؤں اور کارسیوکوں کے خلاف کسی بھی طرح کے فورس کے استعمال کو روکا۔ کسی بھی ممکنہ واقعہ سے نمٹنے کے لیے کسی حادثاتی منصوبہ کے تیار نہ ہونے سے نہ صرف یہ اشارہ گیا کہ پولیس، ایگزیکٹو اور سرکار اس کی حمایت میں ہیں بلکہ اگر کوئی سازش ہوئی ہے، تو وہ اس کونظر انداز کر دیں گے۔متنازعہ ڈھانچے کے آس پاس کی تعمیرات کوبرابر کرنے میں سرکار کی شمولیت، عدالت کے آرڈرکے خلاف چبوترے کی تعمیر، نہ صرف گولی نہ چلانے کے خصوصی آرڈر دینا بلکہ کارسیوکوں کے خلاف فورس کا استعمال نہ کرنے کو کہنا شواہد سے نکل کر سامنے آتا ہے۔’ لال کرشن اڈوانی اور کلیان سنگھ کا رول سی بی آئی کی چارج شیٹ کے مطابق، 5 دسمبر 1992 کو ونئے کٹیار کے گھر پر ہوئی جس خفیہ میٹنگ میں مسجد کو گرانے کا حتمی فیصلہ لیا گیا تھا، اڈوانی وہاں موجود تھے۔سی بی آئی نے انہیں بابری انہدام کے مجرمانہ معاملے کا سازشی بتایا تھا۔ اسی معاملے کے ایک دیگر اہم ملزم کلیان سنگھ تھے، جو انہدام کے وقت اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ تھے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ 27 نومبر 1992 کو انہیں کی سرکار نے سپریم کورٹ کو یقین دلاتے ہوئے ایک حلف نامہ دائر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ان کی سرکار عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کوروکنے کے لیے پوری طرح سے اہل ہے اور موجودہ حالات مرکزی حکومت کی جانب سے فورس کی مجوزہ مدد کی ضرورت نہیں ہے۔’ ہندستان ٹائمس کو دیے ایک حالیہ انٹرویو میں سنگھ نے کہا، ‘میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں۔ اس دن (6 دسمبر 1992 کو)تیاریوں کے بیچ میرے پاس ایودھیا کے ڈی ایم کا فون آیا تھا، جہاں انہوں نے بتایا کہ وہاں تقریباً ساڑھے تین لاکھ کارسیوک اکٹھا ہو چکے ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ فورس وہاں تک پہنچنے کے راستے میں ہے لیکن انہیں کارسیوکوں نے ساکیت کالج کے باہر ہی روک دیا ہے۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ ان پر (کارسیوکوں پر)فائرنگ کے آرڈر ہیں یا نہیں۔ میں نے تحریر میں انکار کیا اور اپنے آرڈر، جو آج بھی کہیں فائلوں میں مل جائےگا، میں کہا تھا کہ اس گولی باری سے کئی لوگوں کی جان جا سکتی ہے اور ملک بھر میں انتشار اور نظم ونسق کی حالت پیدا ہو سکتی ہے۔’ اُن کے اس فیصلے (چھ دسمبر) کے بارے میں ایک اور سوال پوچھے جانے پر انہوں نے کہا، ‘مجھے اپنے فیصلے پر ناز ہے کیونکہ آج میں فخرکے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے سرکار بھلے ہی کھوئی ہو، پر کارسیوکوں کو بچا لیا۔ اب مجھے سمجھ آتا ہے کہ انہدام نے ہی آخرکار مندر کا راستہ ہموار کیا تھا۔’ (اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)